کون ہوگا سرخرو؟

ناصر الدین محمود  جمعرات 11 اپريل 2013

عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ نے تمام سازشوں سے بچتے، مختلف طعنے سنتے اورکسی فوجی چھتری کے بغیربالآخر اپنی آئینی مدت پوری کرلی ۔ اس تاریخی واقعے پر ملک کے جمہوریت پسندوں نے اطمینان کا سانس لیا تو دوسری جانب جمہوری نظام کے ناقدین میں صفِ ماتم بچھ گئی۔

کہیں سے موجودہ غیرجانبدار الیکشن کمیشن کے خلاف آواز سنائی دے رہی ہے تو کہیں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر اس جمہوریت نے ہم کو کیا دیا؟ کچھ لوگ تمام حدوں کو عبور کرتے ہوئے عوام کے منتخب کردہ سابق پارلیمنٹرینز کو چور، ڈاکو، بدمعاش قرار دے کران کے خلاف الزامات عائدکررہے ہیں اور انھیں ایسے القابات سے نواز رہے ہیں کہ جن کو ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ ایسے عناصر آج بھی عوام کے شعور اور دانش کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ خود کو صادق، امین اور پارسا جب کہ اپنے علاوہ ہر فرد کو بددیانت، خائن اورگنہگار تصور کرتے ہیں۔

کچھ لوگ انتخابات کے انعقاد کے لیے اب تک ہونے والے تمام شفاف اور آئین کے مطابق اقدامات پر غیر ضروری اعتراضات اٹھا رہے ہیںاور الیکشن کمیشن کو آئینی تقاضوں کے خلاف قرار دے کر الیکشن کے روز پورے ملک میںدھرنوں کا اعلان کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس تمام تر صورتحال کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ اور تمام اراکین کا انتخاب آئین کے مطابق کیا گیا ہے۔انتخابات 2013ء میں حصہ لینے والی تقریباً تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے بحیثیت مجموعی الیکشن کمیشن پر اپنے اعتماد کا اظہار کرکے مایوسی پھیلانے والے عناصر کے اعتراضات کو مسترد کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ اور اس کے ارکان کی اہلیت، کردار اور تقرری پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے لہٰذا اس حوالے سے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم، اس سوال کا جائزہ ضرور لیا جاناچاہیے کہ اس جمہوریت نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ اس ضمن میں مندرجہ ذیل نکات قابل ذکر ہیں۔

1۔پانچ سالہ جمہوری دور حکومت نے عوام اور ان کے منتخب کردہ نمایندوں کو اعتماد دیا اور اس یقین کی بنیاد رکھ دی گئی کہ اب آئین پر مکمل عملدرآمد ہوگا کسی غیر آئینی طریقے کو اختیار کرکے جمہوری حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔

2۔دور آمریت میں کی گئیں ایسی تمام ترامیم کا خاتمہ کیا گیا جس کی وجہ سے 1973کا پارلیمانی طرز حکمرانی کا جواز فراہم کرنے والا آئین اپنی اصل روح سے محروم ہوکر صدارتی اور پارلیمانی نظام کا ملغوبہ بن چکا تھا اس کنفیوژن کا خاتمہ کرکے عوام کو ان کا حق حکمرانی واپس لوٹا دیا گیا۔

3۔پاکستان کے عوام کے بہت ہی دیرینہ مطالبہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آئین سے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرکے صوبائی خود مختاری دی گئی صوبوں کے مابین پیدا ہونے والی منافرت کا خاتمہ کیا گیا جس سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہوا۔

4۔ اتفاق رائے سے این ایف سی ایوارڈ منظور کیا گیا ملک کے وسائل میں صوبوں کو ان کے تناسب کے اعتبار سے ان کا حصہ ادا کیا گیا۔

5۔’’میثاق جمہوریت ‘‘ میں قوم سے کیے گئے وعدے کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن قائم کیا گیا اور آئین ہی کے تحت چاروں صوبوں سمیت وفاقی سطح پر نگراں حکومتیں قائم کی گئیں جو 11مئی 2013کو ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔

6۔غیر آئینی طریقے سے برطرف کیے گئے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو ان کے منصب پر بحال کرکے عدلیہ کو ہر قسم کے دبائو سے آزاد کیا گیا۔

7۔میڈیا پر کسی قسم کا قد غن نہ لگا کر معاشرے میں شعور کی بیداری اور سچائی سے آگہی کے حق کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا۔

8۔سیاسی بنیادوں پر عدم انتقام کی بنیاد رکھ کر برداشت ،تحمل اور رواداری کے اصولوں پر مبنی نئے جمہوری کلچر کی بنیاد رکھی گئی۔

9۔حزب اختلاف نے ’’میثاق جمہوریت ‘‘ کی روح کے مطابق حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے اور سسٹم کے خلاف کسی بھی سازش کا حصہ نہ بننے کا عملی ثبوت فراہم کیا اور جمہوری نظام کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

گزشتہ پانچ سالوں میں ملک میں وفاق سمیت چاروں صوبوں میںبیک وقت پانچ حکومتیں موجود رہیں جنہوں نے بلاکسی روک ٹوک اپنی آئینی مدت پوری کی۔ ان پانچوں حکومتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر چھوٹے گروپس سب ہی شامل رہے اور ان تمام سیاسی جماعتوں کو پورا موقع حاصل رہا کہ وہ اپنے اپنے منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کی خدمت کریں۔

اب اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے یہ عذر پیش نہیں کرسکتیں کہ انھیں کام کرنے کا پورا وقت نہیں مل سکا۔ انھیں یہ بتانا ہوگا کہ ترقیاتی کام کس حد تک ہوئے اگر نہیں ہوئے تو اس کی کیا وجوہات تھیں؟ توانائی کا بحران حل کیوں نہ ہوسکا؟ توانائی کے حصول کے متبادل ذرایع تلاش کیوں نہیںکیے جاسکے؟ روزگار کے کتنے نئے مواقعے پیدا کیے گئے؟ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی واقع ہوئی یا اضافہ ہوا؟ کساد بازاری اور افراط زر کی کیا صورتحال رہی؟ عالمی منڈی میں مقامی کرنسی کی قدر میں اس حد تک کمی کیونکر پیدا ہوئی؟ خارجی محاذ پر ہم نے کیا کامیابیاں حاصل کیں اور ان کے پاکستان پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوئے یا مستقبل قریب میں ایسا ہونے کے کیا امکانات ہیں۔

اقتدار میں رہنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو اس نوعیت کے بے شمار سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کی بڑی اکثریت کو جو سیاسی جماعت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگی یقینی طور پر وہی مستقبل کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائے گی ۔جو سیاسی جماعت عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے گی وہ نہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکے گی اور نہ ہی حکومت بنا سکے گی۔

جمہوریت میں برسرِ اقتدار آنے والی جماعت یا جماعتوں کوایک روز عوام کی عدالت کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ منتخب حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سب کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آئینی میعاد کب پوری ہوگی۔ جس طرح چند روز قبل تک پوری قوم کو معلوم تھا کہ قومی اسمبلی کو 16 مارچ 2013 کو تحلیل ہونا ہے جو اس تاریخ کو تحلیل ہوگئی۔ اسی طرح ہر صوبائی اسمبلی کی آئینی مدت کا پہلے سے سب کو علم تھا اس کے برعکس، آمر کے آنے کا نہ تو کسی کو علم ہوتا ہے اور نہ اس کے جانے کی کوئی تاریخ پہلے سے متعین ہوتی ہے۔

وہ اچانک نمودار ہوتا ہے اور اسی طرح اچانک ایک روز اقتدارکے ایوانوں سے رخصت ہوکر ماضی کی تاریخ بن جاتا ہے۔ اسے نہ عوام کا مینڈیٹ حاصل ہوتاہے نہ اسے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کبھی عوام کی عدالت میں اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتا بلکہ عوام کا خود’’ احتساب‘‘ کرتا ہے۔

اس تناظر میں اگر گزشتہ پانچ سالوں کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ حکمران سیاسی جماعتوں نے پہلی مرتبہ نسبتاً زیادہ اختیار کے ساتھ پوری معیاد تک اقتدار میں رہنے کا تجربہ حاصل کیا۔ دوسری جانب عوام تمام مسائل کے باوجود نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنے۔ انھوں نے منتخب نمایندوں کو حکومت کرنے کا پورا موقع فراہم کیا، ان کی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھی، پارلیمنٹ میں اپنے نمایندوں اور حزب اختلاف کے کردار کا تنقیدی طور پر جائزہ لیا۔ پاکستان کے عوام نے اقتدار سے باہر رہنے والی سیاسی جماعتوں کے طرز عمل پر بھی پوری طرح نظر رکھی ۔ عوام کی نظر میں کون سرخرو ہوگا اس کا فیصلہ 11 مئی کو ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔