تمہیں اس سے کیا

شہلا اعجاز  جمعـء 27 اپريل 2018

بہت سالوں پہلے کی بات ہے کسی نے کہا تھا کہ ہمارے یہاں خواتین کی تعلیم پر بہت توجہ دی جاتی ہے کہ خواتین پڑھیں لکھیں اور معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کریں کیونکہ کسی بھی نسل کی ترقی میں ماؤں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے دوسری بات یہ کہ جتنی توجہ سے خواتین اپنی ذمے داریاں نبھاتی ہیں، مرد حضرات نہیں نبھاتے۔

کچھ عرصے سے ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘ اور اسی طرح کے سلوگن سوشل میڈیا پر ملے جس پر تنقید کے علاوہ مذاق بھی خوب بنا یہ ایک عجب سی تحریک تھی جو اٹھی اور شاید پھر سرد بھی ہوگئی ۔ اس تحریک کا مقصد کیا تھا خدا جانے ۔ لیکن اس سے جو باتیں سامنے آئی ہیں،اس سے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری مشرقی اقدارکو بدلنے کی کہیں نہ کہیں سے کوشش جاری ہے۔

یہ مشرق کی روایت ہے جس میں برسوں سے کیا ہندو اورکیا مسلم سب کی خواتین پردے کا اہتمام کرتی تھیں سنا تھا کہ کسی بادشاہ کے دور میں ایک شہزادے کی شکایت لے کر ایک ہندو دربار پہنچا۔ شکایت یہ تھی کہ شہزادہ اپنے ہاتھی پر سوار اس کے گھر کے نزدیک سے گزرا اور ظاہر ہے کہ ہندو کے گھر کی دیواریں نیچی تھیں اس کی بیوی کی بے پردگی ہوئی اس شکایت کے جواب میں بادشاہ جو اپنے انصاف کی وجہ سے بہت مشہور تھا حکم دیا کہ اسی طرح سے وہ ہندو اس ہاتھی پر سوار گزرے گا اور شہزادے کی بیوی کو جھانک کر دیکھے گا تاکہ انصاف کا تقاضا پورا ہو۔

یقیناً ہندو نے بادشاہ کے جذبے سے متاثر ہوکر اسے معاف کردیا ہوگا۔ البتہ آج کل مودی کے دور میں ایسا ہوتا تو کہا جاتا کہ میاں صرف جھانکنے سے بدلہ پورا نہیں ہوگا۔ خیر اس طرح کے عجیب سے فیصلے تو ہمارے یہاں کی مسلمان جمہوری ریاست میں پنچائیتوں میں ہوتے ہی رہتے ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر میں کھٹوعہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک گھناؤنا جرم ہے جس کے مجرموں کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے لیکن اس جرم کے پیچھے ایک اور کہانی بھی ہے جو شدت پسندوں کی گندی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے کہ اس بچی کے اذیت ناک قتل کے بعد مسلمان آبادی وہ علاقہ خالی کردے اور ایسا ہوا بھی۔

مسلمانوں نے آصفہ کے ساتھ مندر کے تہ خانے میں ہونے والی اجتماعی زیادتی اور قتل کے بعد وہ علاقہ خالی کردیا گو پورے بھارت میں اس امر پر شدید مذمت کی جا رہی ہے وہیں شدت پسند حضرات مجرموں کے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک آصفہ کے ساتھ ہونے والی وحشت ناک کارروائی دراصل کسی اہم مقصد کے لیے کی گئی تھی جس کا پھل انھیں مسلمانوں کے اس علاقے سے انخلا کی صورت میں مل گیا ۔

زینب کے کیس کے بعد سے بہت سے سوال اٹھے، باتیں ہوئیں لیکن اسی دوران ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘ والی باتیں بھی اٹھیں ان تمام باتوں کا آخر کیا مطلب ہے؟ اس ملک میں ہماری پرانی مشرقی اور مذہبی اقدار کے باعث جو دیواریں یا پردے قائم ہیں وہ چھٹ جائیں دوسرے لفظوں میں بے غیرتی عام ہوجائے اس ایشو کو عام کرنے کے لیے بہت سے ان دیکھے ہاتھ باقاعدہ ٹھپوں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک ٹریننگ جوکہ کسی کے مطابق انھوں نے پہلی بار شرکت کی سے خاصی دور کسی اسکول میں کی گئی تھی جوکہ بعد میں کراچی میں بھی منعقد کی گئی جس میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نے شرکت کی تھی یہ ٹریننگ بڑی عجیب قسم کی تھی۔

جس میں مرد اور خواتین سے خاصے واہیات قسم کے سوالات کیے گئے تھے، صدیوں سے بچے پیدا ہو رہے ہیں بڑے ہو رہے ہیں اور پھر جوان ہوکر عملی زندگی میں بھی قدم رکھتے ہیں، اگر ہم بری نظر سے دیکھیں تو انسان کے ہر عمل میں برائی ہے کیا اٹھنا کیا بیٹھنا لیکن اگر نظر صاف ہے تو ساری دنیا اسی صاف عینک سے ستھری نظر آتی ہے لیکن کون جانتا ہے کہ کس کی آنکھ پر کس قسم کی عینک لگی ہے ۔ اگر اسے تربیت کا حصہ بنا کر تعلیم میں شامل کردیا جائے تو کس قسم کا معاشرہ پروان چڑھے گا ۔

خدا جانے مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے ہمارے ایک سینئر صحافی نے بڑے دکھ سے بتایا تھا کہ فلاں صاحب جن کا خاصا نام ہے انتہائی شریف اور معتبر بھی ہیں ان کی صاحب زادی سگریٹ نوشی کرتی ہے وہ حیران تھے کہ آخر ان صاحب نے اپنی بیٹی کی تربیت کس انداز میں کی ہے۔

اس قسم کی گفتگوکسی اور سے بھی سنی تھی جن سے اسکولوں میں بچوں کے رویے پر بات ہو رہی تھی وہ صاحبہ جو خود شہر کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں کہتی ہیں کہ اس تعلیمی ادارے کے بچے تو نشہ کرکے پڑ جاتے ہیں ظاہر ہے کہ والدین پیسے والے ہیں تمام آسائشیں بچوں کو میسر ہیں اب انھیں اور کیا چاہیے تو انھیں نشے میں چارم محسوس ہوتا ہے کہ یہ الگ سی چیز ہے اسے کرکے دیکھتے ہیں اور وہ اس سحر میں کھنچتے بہت دور تک چلے جاتے ہیں ۔

یہاں تک کہ زندگی کی ڈور ان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے، ہمارے یہاں معاشرے میں اونچے طبقے کے بچوں میں نہ صرف جنسی بلکہ دوسری اخلاقی بیماریاں بھی عام ہیں، اس میں ہم والدین کی عدم توجہ، پیسے کی ریل پیل، اختیارات کا ناجائز استعمال اور وغیرہ وغیرہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں لیکن وہ بچے بچیاں جو سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں بے حیائی اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں تو اس ملک میں جہاں صرف چند فیصد لوگ امیر ہیں کس طرح کی روایت و اقدار کو جنم دیں گے زیادہ دور نہیں اپنے پڑوس میں ہی نظر دوڑائیے جہاں سننے میں تو یہی آیا ہے کہ پہلے زمانے میں ایسا نہیں ہوا کرتا تھا یوں لڑکیاں مختصر ملبوسات میں کھلے عام نہیں گھوما پھرا کرتی تھیں لیکن اب فلموں کے سحر میں مبتلا لوگ فلمی انداز کے نہ صرف کپڑے زیب تن کرتے ہیں بلکہ ان کے انداز زندگی بھی اسی طرح کے کھلے ہوچکے ہیں جس سے معاشرے میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہوچکا ہے جس نے عورت کے تحفظ کو غیر یقینی بنادیا ہے۔

ہراسگی کے واقعات کتنے افسوسناک ہیں، ہم اپنے ملک میں بھی معصوم بچیوں کے قتل جوان لڑکیوں اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات سنتے رہتے ہیں معاشرہ اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ چھوٹے شہروں اور مضافات میں تو جیسے عزت محفوظ رکھنا ہی دشوار ہے کیا ایسے ماحول میں تعلیمی اداروں میں جسمانی تعلیم دینے میں بھلائی نظر آتی ہے، ایسی ٹریننگ اور ان جیسی ٹھپوں والی انجمنوں کا مقصد کیا وہی ہے جو پڑوس کے ملک میں خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں مظلوم بنا نظر آتا ہے کیونکہ واہیات فلمیں بے مقصدکھلے ڈرامے اور بیہودہ ملبوسات کے علاوہ جس گندگی میں لتھڑے ہندوستانی معاشرے میں خواتین سب سے ارزاں اور مظلوم ہستی بن سکتی ہیں تو پنچایتوں کے بے تکے فیصلوں اور لوگوں کے گھناؤنے رویوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی بے باکی اور فحاشی کی تعلیم کو عام کرکے کیا ہم ایک صاف اور پاک پاکستان کی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔

کیا اسے ہمارے ماڈرن ہونے کے زمرے میں شامل کیا جائے گا یا اس کے اعزاز میں ہمیں بہت سے فنڈز اور اعزازات سے نوازا جائے گا۔ خدا خیر کرے کہ بات بہت آگے تک جا رہی ہے۔ہمارے چینلوں پر تو بھارتی ثقافتی یلغار کے کیا کہنے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔