تحریک انصاف کے لیے سینٹرل پنجاب کا معرکہ زندگی موت کا مسئلہ ہے

اگر تحریک انصاف وسطی پنجاب نہ جیت سکی تو الیکشن جیتنے کا خواب بھی ادھورا رہ جائے گا۔


[email protected]

تحریک انصاف کے لیے حالیہ انتخابات زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔ اب نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق یہ تحریک انصاف کے لیے فائنل میچ ہے۔اس کی مدمقابل دونوں بڑی جماعتوں کے لیے جیت اتنی ناگزیر نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) بھی ہار برداشت کر سکتی ہے، وہ مریم نواز کی شکل میں نئی قیادت سامنے لے آئی ہے ۔ جو اگلے انتخابات تک انتظار کر سکتی ہے ۔ بلاول زرداری بھی اگلے انتخابات تک انتظار کر سکتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا یہ آخری الیکشن ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے بعد تحریک انصاف میں ایک خلا پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ اس لیے یہ انتخاب تحریک انصاف کے لیے زندگی اور موت کے مسئلے سے کم نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کو شاید ابھی تک اس کا ادراک نہیں ہے۔

تحریک انصاف کی جیت کے لیے وسطی پنجاب بہت اہم ہے۔ اگر تحریک انصاف وسطی پنجاب نہ جیت سکی تو الیکشن جیتنے کا خواب بھی ادھورا رہ جائے گا ۔ جیت کے لیے بڑا معرکہ سینٹرل پنجاب میں ہی ہوگا۔ لیکن شاید تحریک انصاف کو اس کا بھی احساس نہیں ہو رہا۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بلا وجہ تاخیر تحریک انصاف کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔

تحریک انصاف نے پہلے اعلان کیا تھا کہ انتخابات سے ایک سال قبل ٹکٹیں بانٹ دی جائیں گی ۔لیکن ٹکٹوں کی تقسیم میں بے جا تاخیر نے تحریک انصاف کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ ہر وہ حلقہ جس میں ایک سے زائد امیدوار ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ وہاں سب نے ٹکٹ کی امید میں انتخابی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ اب کوئی ایک دوسرے کے حق میں دستبردار نہیں ہو گا۔ خطرہ یہی ہے کہ زیادہ تر حلقوں میں تحریک انصاف اپنے آپ سے ہی لڑ جائے گی ۔

تحریک انصاف نے شاید جیتنے والے گھوڑوں کے انتظار میں ٹکٹوں کی تقسیم میں تاخیر کی ہے۔ لیکن آپس کے اختلافات بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آرہی ہے۔ کبھی کہا جا رہا ہے کہ پہلے مرحلہ میں ستر ٹکٹوں کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ بھی ایک مبہم پالیسی ہے۔ ساری ٹکٹوں کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ مضبوط امیدواران کا تو سب کو علم ہے زور تو کمزور حلقوں میں لگانا ہوگا۔

تحریک انصاف کی کے پی میں پوزیشن بھی کمزور نظرا ٓرہی ہے۔پارٹی میں بغاوت ہو چکی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں پارٹی ٹوٹ ہی گئی ہے۔ جس کا اثر اگلے الیکشن میں ہو گا۔میں ذاتی طور پر پرویز خٹک کی قیادت کا معترف نہیں ہوسکا۔ وہ پارٹی کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کر گئے ہیں۔ جو بھی کے پی کے میں ہوا ہے۔ اس کی ذمے داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ بلوچستان میں بھی کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہو سکا ہے۔

بلوچستان کے حالات اپنی جگہ لیکن پھر بھی بلوچستان میں تحریک انصاف کسی بڑی گیم میں نہیں ہے۔ اندرون سندھ تحریک انصاف کی ا چھی حالت نہیں ہے۔ کراچی میں بھی ووٹ بینک بڑھنے کے بجائے کم ہوا ہے۔ وہاں بھی تحریک انصاف کو سہارے کی ضرورت ہو گی۔ اس تقابلی جائزہ میں سینٹرل پنجاب میں تحریک انصاف کی پوزیشن سب سے مضبوط نظرآرہی ہے۔ اس کا ووٹ بینک بھی مستحکم نظر آرہا ہے۔ کیا یہ جیتنے کے لیے کافی ہے، یہ الگ بات ہے ۔ لیکن تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان سب سے گھمسان کی جنگ سینٹرل پنجاب میں ہی ہوتی نظر آرہی ہے۔ ن لیگ کی طرف سے سینٹر ل پنجاب کی کمان خود نواز شریف اور شہباز شریف کے ہا تھ میں ہے۔ جب کہ تحریک انصاف ابھی تک اپنی کمان واضح نہیں کر سکی ہے۔

ویسے تو علیم خان تحریک انصاف سینٹرل پنجاب کے صدر ہیں۔ ان کی کارکردگی بھی بہت اچھی ہے۔ انھوں نے جماعت کے لیے بہت کام کیا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ تحریک انصاف میں محبت اور نفرت کے ایک عجیب رشتہ کا شکار ہیں۔ ایک طرف وہ عمران خان کے ہر دلعزیز نظرا ٓتے ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ عمران خان علیم خان کے کام کوپسند کرتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف اس کی وجہ سے ایک حسد بھی پیدا ہو گیا ہے۔

چوہدری سرور جو سنیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے خواہاں ہیں، ان کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار بھی بننے کی باتیں بھی ہورہی ہیں ۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید بھی اسی صف میں نظر آتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی بڑے رول کے خواہاں ہوں گے ۔اعجاز چوہدری،لاہور کے صدر ولید اقبال بھی اپنا رول تلاش کررہے ہیں۔ بہرحال ہر طرف علیم خان ہی چھائے ہو ئے تھے، عمران خان کی محبت کا وزن علیم خان کے پلڑے میں ہے۔

تحریک انصاف کو سینٹرل پنجاب جیتنے کے لیے اپنی قیادت میں یکسوئی پیدا کرنی ہو گی۔ عمران خان کو کمان اور قیادت واضح کرنا ہو گی۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں غیر ضروری تاخیر کو ختم کرنا ہو گا۔ اس وقت صورتحا ل یہ ہے کہ جن حلقوں میں تحریک انصاف میں ایک سے زائد امیدوار موجود ہیں، وہ اس گروہ بندی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر علیم خان کسی ایک کو موزوں امیدوار سمجھ رہے ہیں تو دوسرا دوسری طرف چلا گیا ہے۔

پارلیمانی بورڈ کی صورتحال بھی عجیب ہی نظر آرہی ہے۔ پانچ نمبر ریجنل صدور کو دے دیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ جب سینٹرل پنجاب کی ٹکٹوں کی تقسیم زیر بحث ہو گی تو علیم خان کے پاس پانچ نمبر ہو نگے۔ جب جنوبی پنجاب کی بات ہو گی تو وہاں کی صدر کے پاس پانچ نمبر ہونگے۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی کو بھی پانچ نمبر دے دیے گئے ہیں۔ جہانگیر ترین کو بھی پانچ نمبر دے دیے گئے ہیں۔ پارلیمانی بورڈ کے باقی تمام ممبرز کے پاس ایک ایک نمبر ہے۔ عمران خان کے پاس ویسے تو ویٹو پاور ہو گی لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ جہاں دو امیدواران کے درمیان پانچ سے زیادہ نمبروں کا فرق ہو گا وہاں عمران خان بورڈ کے فیصلے پر آمین کہیں گے اور جہاں فرق پانچ سے کم ہو گا وہاں عمران خان کو بورڈ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی اجازت ہو گی۔

بظاہر یہ ایک فیئرگیم لگتی ہے۔ سب کی رائے آجائے گی۔ لیکن یہ کوئی سیاسی بات نہیں ہے۔ لوگ پسند ناپسند کے چکر میں ووٹ ڈالیں گے۔ جس نے ٹکٹ حاصل کرنا ہے وہ بھی پریشان ہے کہ کتنے ووٹ اکٹھے کرے۔ اس فارمولہ سے جیتنے والے امیدوار سامنے آنا مشکل ہے۔ تحریک انصاف کی مشکل یہی رہی ہے کہ یہ سیاسی فیصلے بھی غیر سیاسی انداز میں کرتی ہے۔

میری رائے میں عمران خان کو ہر ریجنل صدر کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ اس کا گیم پلان سمجھنا چاہیے۔ اس سے مضبوط امیدواران کی لسٹ لینی چاہیے۔ اس کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے۔ جس کو جہاں کمان دی گئی ہے وہاں اختیار بھی دینا ہو گا۔ تب ہی انتخابی مہم چل سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں