جیتنے والے گھوڑوں کے لیے سیاسی عدت کی شرط لازمی

انتخابات کے قریب سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم پاکستان کی سیاست اور جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے۔


[email protected]

ملک میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ سیاسی گھوڑوں کی منڈی عروج پر ہے۔ جیتنے والے گھوڑے ایک اصطبل سے دوسرے اصطبل میں جارہے ہیں۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں۔ جس طرح ایک ماہر پتنگ باز پتنگ اڑانے سے پہلے ہوا کے رخ کا جائزہ لیتا ہے اسی طرح ہمارے سیاسی گھوڑے بھی انتخابی سیاسی ریس شروع ہونے سے پہلے سیاسی ہوا کا جائزہ لے رہے ہیں۔

اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اقتدار کا تخت کس رخ جا رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی ہمدردیوں کی ہوائیں بھی چیک کی جا رہی ہیں۔ ووٹ بینک کی نبض پر بھی ہاتھ رکھا جا رہا ہے۔ انتخابات جیتنے والے گھوڑے اپنی اپنی حکمت عملی طے کر رہے ہیں۔ بولیاں لگ رہی ہیں۔ نیلامیاں ہو رہی ہیں۔ سودے پکے ہو رہے ہیں۔ وعدے وعید کا موسم جوبن پر ہے۔ تو میرا میں تیرا ۔ بس ہر طرف انتخابی بہار سج گئی ہے۔

لیکن انتخابی بہار مجھے افسردہ بھی کر رہی ہے۔ مجھے ہر طرف سیاسی بے حسی نظر آرہی ہے۔ انتخابی گھوڑوں کی جس قدرکھلی خریدو فروخت جاری ہے اس نے ہماری جمہوریت کا چہرہ مزید داغدار کر دیا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن بڑی سیاسی جماعتوں نے ان گھوڑوں کی منڈی نہیں بازار حسن ہی سجا دیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی خرید و فروخت تو بالکل بے اصول ہے۔ ہمارے یہ انتخابی گھوڑے دن دیہاڑے سر عام ڈھٹائی کے ساتھ نہ صرف اپنی بولی لگاتے ہیں بلکہ اپنی فروخت اور بولی پر ایسا فخر کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

میرے ایک دوست نے مجھے ایک خوبصورت تحریر بھیجی ہے۔ اس کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک جیالاغم سے نڈھال کومے میں چلا گیا۔ اور اس کا یہ کومہ دس سال پر محیط رہا۔ اب دس سال بعد اسے ہوش آیا ۔ اور ڈاکٹرز نے اسے صحت مند قرار دے دیا۔ اس کے اندر کا سیاسی کارکن دوبارہ جاگ گیا۔ اور وہ اس انتخابی موسم میں ایک سیاسی جلسہ میں چلا گیا۔ اسٹیج کے قریب پہنچ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ پیپلزپارٹی کے اسٹیج پر ہے۔ کیونکہ اسٹیج پر بابر اعوان فردوس عاشق اعوان ندیم افضل چن نذر گوندل فودا چوہدری سمیت پیپلزپارٹی کے ان گنت رہنما بیٹھے تھے۔

اس نے اسٹیج کے قریب پہنچ کر جئے بھٹو کے نعرہ لگانے شروع کر دیے تو چند نوجوانوں نے اسے دھکے دینا شرع کر دیے۔ اس نے کہا کیا ہوا تو انھوں نے کہا یہ پیپلزپارٹی کا نہیں تحریک انصاف کا جلسہ ہے۔ اس معصوم نے بہت سوال کیے کہ لیڈر تو سارے پیپلز پارٹی کے اسٹیج پر بیٹھے ہیں ۔ تو اسے بتایا گیا کہ یہ سب پیپلز پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور انھوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہے، اب یہ تحریک انصاف کے لیڈر ہیں۔ وہ بہت چلایا کہ انھوں نے تو بی بی کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی ہوئی تھیں، یہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ لیکن اسے جلسہ گاہ سے دھکے دے کر نکال دیا گیا ۔

انتخابات کے قریب سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم پاکستان کی سیاست اور جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس کی اخلاقی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ پانچ سال ایک جماعت کے ساتھ اقتدار کے مکمل مزے لوٹ لیں اور جب آپ دیکھیں کہ اب میری جماعت کا اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے تو آپ جماعت بدل لیں۔مفاد کے سائے تلے بدلی جانیو الی یہ وفاداریاں سیاسی بے اصولی کا ننگا ناچ ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم ان انتخابات جیتنے والے گھوڑوں کی اس بے اصولی کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے مداح بن جاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ کیا زمانہ شناس سیاستدان ہیں۔ کیا سیاسی سوجھ بوجھ ہے۔

جس طرح کسی بھی طلاق کے بعد خاتون کو عدت کے دن پورے کرنے ہوتے ہیں، اسی طرح بیوہ ہونے کے بعد بھی عدت شرعی طور پر لازمی سمجھی جاتی ہے۔ سیاست میں بھی سیاسی عدت کا قانون لازمی ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو ایسے قواعد سامنے لانے چاہیے جس میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالہ سے اصول اور قاعدے بنائے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات سے ایک سال قبل سیاسی وفاداری بدلنے کی صورت میں کسی دوسری جماعت سے الیکشن لڑنے کی ممانعت ہونی چاہیے۔

اگر کسی میں دم خم ہے، اگر کوئی واقعی سنجیدہ اختلاف ہے تو کم از کم انتخابات سے ایک سال قبل استعفیٰ دے کر دوسری سیاسی جماعت کو جوائن کیا جائے تا کہ ضمنی انتخابات ہو سکے اور پتہ چل سکے کہ گھوڑے میں کتنا دم ہے۔ایک سال کے بعد اور بالخصوص ضمنی انتخابات کی مدت ختم ہونے کے بعد وفاداری بدلنے کی صورت میں نئی سیاسی جماعت سے انتخابات لڑنے کی مکمل ممانعت ہونی چاہیے۔

سیاسی وفاداری بدلنے اور نئی سیاسی جماعت کے نکاح میں جانے سے پہلے ایک سال کی سیاسی عدت لازمی ہونی چاہیے۔ یہ نہیں ایک دن اک جماعت سے نکاح توڑا اور دوسرے دن نئی جماعت سے نکاح کر لیا ے۔ شریعت نے عدت کا تصور دیا ہے تا کہ رشتوں کا تقدس برقرار رہ سکے۔ سیاست میں بھی رشتوں اور وفاداریوں کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے سیاسی عدت کا اصول قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

الیکشن کمیشن کو اس حوالہ سے سخت قواعد بنانے چاہیے۔ سیاسی جماعت چھوڑنے اور نئی جماعت جوائن کرنے کے لیے مضبوط اختلاف کی بنیاد لازمی ہونی چاہیے۔ یہ بھی چیک کیا جانا چاہیے کہ صرف جیت اور اقتدار کے لالچ میں وفاداریاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

پاکستان کی سیاست میں ایسے انتخابات جیتنے والے گھوڑوں کی بھر مار ہے جو ہر انتخابات میں نئی سیاسی جماعت جوائن کر لیتے ہیں۔ یہ جاگیردار ہیں، وڈیرے ہیں، صنعتکار ہیں، پیسے والے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی دولت کے سر پر اپنے انتخابی حلقوں کو زیر اثر کر لیا ہوا ہے۔ ان کی جیت تقریبا یقینی سمجھی جاتی ہے۔ یہ ہر انتخابات میں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کس جماعت کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کس کو اقتدار میں لانا چاہ رہی ہے۔ اقتدار کی ہوا کس سمت چل رہی ہے اور پھر ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اقتدار والی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان سے جب نجی محفلوں میںپوچھا جائے کہ انھوں نے سیاسی جماعت کیوں تبدیل کی تو یہ بلا جھجھک کہتے ہیں کہ ہم تو اقتدار کے لیے سیاست کرتے ہیں۔

آج کل ن لیگ ان انتخابی گھوڑوں کے ساتھ چھوڑنے کے حوالہ سے سخت پریشان ہے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس حمام میں ن لیگ سمیت سب سیاسی جماعتیں ننگی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ 2013میں اقتدار کے حصول کے لیے ن لیگ نے ان تمام گھوڑوں کو اپنے اصطبل میں جگہ دی تھی، سیٹوں کے چکر میں ان کو خوش آمدید کہا تھا۔ حالانکہ ان میں سے اکثریت ق لیگ میں تھی مشرف کے ساتھ تھی۔نہ یہ جب ق لیگ میں تھے تو ان کے کوئی نظریات تھے۔ نہ ہی جب یہ ن لیگ میں آئے تو ان کے کوئی نظریات تھے۔ اور نہ ہی اب جب یہ ن لیگ کو چھوڑ رہے ہیں تو ان کے کوئی نظریات ہیں۔سینیٹ کے انتخابات بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ زرداری کی مہارت بھی ایک مثال ہے۔ سنجرانی بھی مثال ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ یہ کیوں جیت جاتے ہیں۔ ایک خیال ہے کہ کم شرح خواندگی اس کی ایک وجہ ہے۔ غربت ایک وجہ ہے۔ عوام میں شعور نہیں ہے۔ یہ دیہی حلقہ ہیں لوگ ان کے مزارعہ ہیں۔ لیکن وجہ کچھ بھی ہو۔ سب سے زیادہ بے حس سیاسی قیادت ہے جو ان کو اقتدار کے لالچ میں قبول کرتی ہے اور پھر جب اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہوتا ہے اور یہ جانے لگتے ہیں تو روتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت ان کو قبول کرنا بند کردے تو ان کی قیمت ختم ہو جائے۔ یہ انمول سے بے مول ہو جائیں۔ اور کوئی ان کی کوئی قیمت نہ لگائے۔ لیکن اقتدار کی ہوس میں ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کم از کم الیکشن کمیشن کو سیاسی عدت کا ہی قانون بنانا چاہیے تا کہ کچھ تو شرافت باقی رہ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں