قدر زائد کا سائنسداں، کارل مارکس

زبیر رحمٰن  پير 14 مئ 2018
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

مارکس نے شہرۂ آفاق کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ یعنی سرمایہ میں سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ انھوں نے جدلیاتی مادیت اور طبقاتی کشمکش پر تفصیلی اور سیر حاصل روشنی ڈالی ہے، لیکن ’’قدر زائد‘‘ کا فارمولا نے سرمایہ دارانہ نظام کی پتیلی الٹ دی۔ قدر زائد کا ایک ایسا فارمولا پیش کیا، جس کا آج تک بورژوا (سرمایہ دار) دانشوروں کے پاس اس کے خلاف بولنے کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔

کارل مارکس، آدم اسمتھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ایک قلم بنانے پرکچا مال پر ایک روپیہ خرچ ہوتا ہے، مشینوں کی ٹوٹ پھوٹ، بجلی اور عمارت کے اخراجات پر ایک روپیہ خرچ ہوتا ہے اور مزدور کو مزدوری دینے پر ایک روپیہ خرچ ہوتا ہے تو کل تین روپے خرچ آئے، یعنی ایک قلم کو بنانے میں تین روپے خرچ ہوئے، تو اس کا قدر تین روپے ہوا، لیکن جب سرمایہ دار اسے بازار میں چار روپے کی قیمت مقرر کرکے فروخت کرتا ہے تو یہ ایک روپیہ زیادہ کہاں سے آتا ہے؟

اس پر آدم اسمتھ جواب دیتا ہے کہ یہ سرمایہ دار کا منافع ہے۔ جس پر مارکس ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے کہ یہ منافع نہیں بلکہ قدر زائد ہے، یعنی کہ آپ نے ایک روپیہ خام مال پر خرچ کیا، مشینوں پر اور اس کی ٹوٹ پھوٹ پر ایک روپیہ خرچ کیا، لیکن مزدور کو دو روپے دینے کے بجائے ایک روپیہ دیا اور باقی ایک روپیہ مزدوروں کی قوت محنت سے پیدا کی جانے والی جنس میں سے سلب کیا، چوری کیا، یا استحصال کیا۔

اب پھر سوال کیا جاتا ہے کہ اگر فیکٹری نہ ہوتی، سرمایہ نہ ہوتا تو مزدور کہاں سے مزدوری لیتے؟ مارکس اس پر جواب دیتا ہے کہ دریا میں پانی بہتا ہے، اس کی کوئی قیمت نہیں، جب اسے کوئی مزدور اپنی قوت محنت سے ضرورت زندگی کے لیے فروخت کرتا ہے تو ہی اس کی قیمت بنتی ہے، پہاڑ کی کوئی قیمت نہیں، جب اس پہاڑ کو توڑ کر مزدور اسے پتھر کے ٹکڑوں میں تبدیل کرکے سڑک بناتا ہے تو اس کی قیمت بن جاتی ہے، یعنی پتھر کے توڑنے اور سڑک بنانے میں مزدور کی قوت محنت شامل ہوکر اسے سرمایہ بنا دیتا ہے۔

اسی طرح معدنیات ہو، باغات ہو یا کھیتوں کے اجناس، بنیادی چیز قوت محنت ہے۔ روپے پیسے تو صرف قدر تبادلے کا ایک ذریعہ ہے۔ قدرتی وسائل سرمایہ میں تب تبدیل ہوتا ہے جب اس میں قوت محنت شامل ہو۔ اس قوت محنت کی پیداوار یعنی قدر زائد کو سرمایہ دار کی جیب میں ڈالنے کے بجائے عوام پر خرچ ہوتا تو یہ قدر زائد منافعے کے بجائے عوام کی ضروریات زندگی اور انتظامات پر صرف ہوتا اور یہ کام پیرس کمیون، انقلاب روس، انقلاب چین، انقلاب کیوبا اور انقلاب کوریا نے کر دکھایا۔

اب ایک اور سوال آپ کے ذہن میں آتا ہوگا کہ کارل مارکس کا تو مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جی ہاں، کارل مارکس ایک سماجی سا ئنسداں تھے۔ جارج اسٹیفن سن، آرکیمیڈس، آئزک نیوٹن، آئن اسٹائن یا اسٹیفن ہیکس نے بہت کچھ ایجادات کیں اور ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن انسانیت کی فلاح کے لیے ایجادات اور دریافتیں کیں۔

بجلی ایجاد کرنے والے یا ریل گاڑی ایجاد کرنے والے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا، پھر ہم ریل گاڑی پرکیوں سفر کرتے ہیں یا بجلی کیوں استعمال کرتے ہیں؟ اس لیے کہ اس کے موجب کا کسی مذہب سے تعلق ہو یا نہ ہو، یہ ایجادات ہمارے فائدے کے لیے ہیں، اس لیے ہم انھیں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کارل مارکس کا دریافت کیا ہوا سماجی نظام یعنی ’’امداد باہمی کا آزاد معاشرہ‘‘ اگر بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے ہے تو ہم اسے کیوں نہ استعمال کریں؟

کشمیر میں 2005 میں زلزلہ آیا، کیوبا سے 2600 ڈاکٹرز آئے اور خدمات انجام دیں۔ پاکستانی حکومت نے ڈاکٹر فیڈل کاسترو کو خصوصی اعزاز سے نوازا، ہر چند کہ ڈاکٹر فیڈل کاسترو کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے اسے خصوصی اعزاز سے نوازا گیا کہ اس نے زلزلے کے متاثرین کی مدد کی۔ ہم ہٹلر، نیتن یاہو، ٹرمپ یا مودی کوکیوں نہیں اعزازات سے نوازتے؟ اس لیے کہ انھوں نے انسانیت کا قتل کیا، اگر سعودی عرب کے حکمرانوں نے مودی کو سعودی عرب کی تاریخ کا سب سے بڑے اعزاز سے نوازا ہے تو ہمیں اس عمل کی مذمت کرنی چاہیے۔

مارکس کے نظریے پر عمل کرنے والے چی گویرا کو لاطینی امریکا اور دنیا بھر میں جتنا احترام کیا جاتا ہے، اتنا ہی برصغیر میں بھگت سنگھ کا احترام کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انسانوں نے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے اپنی جان تک نچھاورکردی۔ ہاں اس بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے سوشلسٹ نظام سے کمیونزم کی جانب پیش قدمی کرنے میں دیر کردی، جس کی وجہ سے کمیونزم آنے کے بجائے سرمایہ داری لوٹ آئی۔

یہ ہماری حکمت عملی کی خرابی ہوسکتی ہے، اس کے باوجود سوویت یونین اور ماؤزے تنگ کا چین جب سوشلسٹ ملک تھا تو اس وقت کوئی بھوکا، بے روزگار، ناخواندہ، بے گھر تھا اور نہ لاعلاج، لیکن سرمایہ دارانہ نظام انتہائی معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی بے روزگار ہے، جب کہ پانچ ارب غربت کی شکار ہے۔

کارل مارکس ٹرپل ایم اے اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود کرایے کے مکان میں رہے، کوئی بینک بیلنس تھا اور نہ اثاثہ۔ عدم علاج کی وجہ سے دو بچے جان سے جاتے رہے۔ ان کا سالہ جرمنی کا وزیر تھا لیکن انھوں نے اس سے کوئی مدد لینے سے انکار کردیا۔ مارکس کی شریک حیات جینی کا کہنا تھا کہ میں نے مارکس سے نہیں بلکہ ان کے نظریے سے شادی کی ہے۔ جب انھوں نے طبقاتی نظام کے خلاف تھیوری پیش کی اور جدوجہد شروع کی تو انھیں مسلسل جلاوطن کیا جاتا رہا۔

جرمنی سے فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور آخرکار لندن میں سکونت اختیارکرنے پر مجبور ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی ان ہی عادات عادات و اطوار اور فکر سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے کہا کہ ’’ای پیغمبر بے جبرئیل‘‘ یعنی یہ جبرائیل کے بغیر پیغیمبر ہے۔

اس وقت قدر زائد کو اگر دنیا بھر میں عوام کے لیے تقسیم کردیا جائے تو دنیا میں بھوک، افلاس اور غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ نابرابری اور طبقاتی نظام کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسی قدر زائد کی لوٹ سے آج دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ امیر ترین افراد ہیں، جب کہ روزانہ اسی دنیا میں صرف بھوک سے پچھہتر ہزار انسان جان سے جارہے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک بورژوا دانشور فوکوہاما نے ’تاریخ کا خاتمہ‘ کہا تھا، مگر آج اس کی یہ بات سو فیصد غلط ثابت ہوگئی۔

آج بھی اس طبقاتی نظام کے خلاف اسپین، فرانس، جرمنی، میکسیکو، کیٹالونیہ، بھارت، پاکستان اور دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد جاری ہے۔ تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تاریخ کا خاتمہ نہیں، بلکہ تاریخ کی شروعات ہوئی ہے۔ اب امریکا جیسا عالمی غنڈے کو بھی یوکرین، کریمیا، شام، یمن، افغانستان، عراق، کوریا اور کیوبا میں شکست ہورہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب عالمی کمیونسٹ انقلاب برپا ہوکر تمام دکھوں کا مداوا کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔