بلوچستان اسمبلی کا الوداعی اجلاس، حکومتی کارکردگی زیربحث

رضا الرحمٰن  بدھ 30 مئ 2018
پشتونخواملی عوامی پارٹی نے بھی بالآخر پارٹی کی مرکزی کونسل کا اجلاس بلاکر انٹراپارٹی الیکشن مکمل کرلئے

پشتونخواملی عوامی پارٹی نے بھی بالآخر پارٹی کی مرکزی کونسل کا اجلاس بلاکر انٹراپارٹی الیکشن مکمل کرلئے

کوئٹۃ: بلوچستان اسمبلی 31 مئی 2018ء کواپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے جس کے بعد اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئینی طورپرصوبائی مخلوط حکومت بھی ختم ہوجائے گی اور نیا نگراں سیٹ اپ آجائے گا جوکہ 25 جولائی کے عام انتخابات کا انعقاد کرانے کے بعد نئی بننے والی حکومت کو اقتدار منتقل کرے گا۔

بلوچستان میں نگراں سیٹ اپ کیلئے مشاورت اور صلاح ومشورے کا سلسلہ جاری ہے نگراں وزیراعلیٰ کے تقررکیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال کے مابین اب تک تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں جن میں کسی ایک نام پر ابھی تک اتفاق نہیں ہوسکا۔ پہلی ملاقات میں د ونوں اطراف سے 8-8 نام دیئے گئے تھے جنہیں دوسری ملاقات میں شارٹ لسٹ کرکے چاروں ناموں پر غور کیا گیا۔ ان چارناموں میں حکومت کی طرف سے پرنس احمد علی، میر علاؤ الدین مری، کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور اپوزیشن کی طرف سے قاضی اشرف شامل ہیں اپوزیشن کی طرف سے دوسرا نام سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی کا دیا گیا تھا جوکہ اپوزیشن جماعت نیشنل پارٹی نے تجویز کیا تھا۔ اسلم بھوتانی کا نام وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی تیسری ملاقات میں ڈراپ کردیا گیا جس سے سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا گیا۔

بعض سیاسی حلقوں کا یہ خیال تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مضبوط نام اسلم بھوتانی کا ہوگا لیکن اپوزیشن جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی کے اپوزیشن لیڈر کی طرف سے حکومت کو آخری وقت میں صرف ایک نام قاضی اشرف کا دیاگیا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اپوزیشن جماعتوں پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی جوکہ ساڑھے چار سال تک حکومت میں اتحادی جماعتیں رہیں ن لیگ کی جنوری 2018ء میں مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد یہ تینوں جماعتیں اپوزیشن بنچوں میں بیٹھ گئیں۔

جہاں انہوں نے اتفاق رائے سے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے عبدالرحیم زیارتوال کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا بعض سیاسی حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کے وقت نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی میں یہ معاہدہ بھی ہوا تھا کہ نیشنل پارٹی اور ن لیگ پشتونخواملی عوامی پارٹی کو اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں سپورٹ کرینگی جبکہ نگراں وزیراعلیٰ کے معاملے میں نیشنل پارٹی کی جانب سے جونام دیاجائیگا اپوزیشن لیڈر اسے زیادہ اہمیت دینگے اور کوشش کی جائے گی کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وہ نام اتفاق رائے سے حکومت کو پیش کیا جائے یہی وجہ تھی کہ نیشنل پارٹی نے غوروخوض کے بعد اسلم بھوتانی کا نام تجویز کیا۔ تاہم آخری وقت میں اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اسلم بھوتانی کا نام ڈراپ کرکے صرف ایک نام قاضی اشرف کا سامنے آنے سے ان سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا گیا۔ تاہم ان سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے ممکن ہے اس حوالے سے اپنی اتحادی اپوزیشن جماعت نیشنل پارٹی کو بھی اعتماد میں لیا ہوگا؟

اور اس سے صلاح ومشورے کے بعد ہی ایک نام پر اتفاق کیا ہوگا کیونکہ اس حوالے سے نیشنل پارٹی کی جانب سے مکمل خاموشی ہے؟سیاسی تجزیہ نگاروں کا نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر کے حوالے سے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مذاکرات کے تین راؤنڈز میں کوئی پیش رفت نہ ہونے پر خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا جوکہ تین حکومتی ارکان اور تین اپوزیشن ارکان پر مشتمل ہوگی۔

اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ پائی تو فیصلے کیلئے معاملہ الیکشن کمیشن میں چلاجائے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابھی بھی کچھ دن حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے پاس ہیں دونوں جانب سے معاملے کو سلجھانے اور کسی ایک نام پر اتفاق کیا جا سکتا ہے بعض اطراف سے معاملے کو سلجھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان ایک دو روز میں ایک اور فائنل ملاقات ہو۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ کیلئے اس وقت دو نام میر علاؤ الدین مری اور پرنس احمد علی فیورٹ ہیں اور حکومت بھی ان دو ناموں میں سے ایک پر اتفاق رائے کیلئے اپوزیشن کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان بھی اشارتاً ایک دو جگہ میڈیا ٹاک کے دوران یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ اس مرتبہ نوجوان اور غیر سیاسی شخصیت کو نگران وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کا الوداعی اجلاس بھی جاری جوکہ 30مئی تک چلے گا اس اجلاس میں ارکان اسمبلی اپنی 5 سالہ مدت میں کئے گئے اقدامات اور کارکردگی پر بات کرینگے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں مخلوط حکومت کی طرف سے عام انتخابات کی تاریخ25 جولائی میں توسیع کیلئے مشترکہ قرار داد بھی لائی جاسکتی ہے۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی نے بھی بالآخر پارٹی کی مرکزی کونسل کا اجلاس بلاکر انٹراپارٹی الیکشن مکمل کرلئے۔ محمود خان اچکزئی دوبارہ پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوگئے جبکہ مختار خان یوسفزئی جن کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے ڈپٹی چیئرمین اور اکرم شاہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ بلوچستان، مختاریوسفزئی خیبرپختونخوا اور نذر جان سندھ کے صدور منتخب ہوئے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق 2013ء کے الیکشن کے بعد پارٹی کے اندر بعض اختلافات کی باتیں ہوتی رہیں اور یہ کہا جاتا رہا کہ پارٹی کے اندر مختلف گروپس بن گئے ہیں؟ تاہم گزشتہ دنوں کوئٹہ میں پارٹی کے مرکزی کونسل اجلاس اور مرکزی وصوبائی عہدیداران کا انتخاب افہام وتفہیم واتفاق رائے سے ہونے کے بعد پارٹی میں اختلافات کی باتیں دم توڑ گئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔