پاک بھارت سابق انٹیلی جنس چیفس آمنے سامنے

سید عاصم محمود  اتوار 3 جون 2018
اس واقعے نے جنرل (ر) اسد درانی اور ایس اے دولت کو مزید قریب کر دیا۔ فوٹو : فائل

اس واقعے نے جنرل (ر) اسد درانی اور ایس اے دولت کو مزید قریب کر دیا۔ فوٹو : فائل

یہ مئی2015ء کی بات ہے‘ عثمان درانی ایک جرمن کمپنی میں ملازم تھے۔ وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے فرزند ہیں۔

اسی مہینے جرمن فرم نے کسی کام سے عثمان کو بھارتی شہر کوچین بھجوایا جو ریاست کیرالہ میں واقع ہے۔ عثمان کو کوچین ہی سے واپس جانا تھا مگر جرمن کمپنی نے غلطی سے انہیں ایسی پرواز سے ٹکٹ دے دیا جسے ممبئی سے ہوتے ہوئے جرمنی جانا تھا۔ ممبئی میں بھارتی انتظامیہ نے عثمان کو روک لیا کیونکہ وہ قانونی طور پر ممبئی آنے کے مجاز نہیں تھے۔ انہیں گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ تاہم بیٹا کسی نہ کسی طرح اپنے والد کو مطلع کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ مصیبت میں پھنس گیاہے۔

جنرل (ر) اسد درانی بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس (امر جیت سنگھ) دولت کو جانتے تھے۔ یہ صاحب سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت چلے گئے۔ بعدازاں مختلف بھارتی خفیہ ایجنسیوں سے منسلک رہے۔ 1999ء تا 2000ء انہیں را کا سربراہ بنایا گیا۔سبکدوشی کے بعد مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں جنرل (ر) اسد درانی اور ایس اے دولت کا آمنا سامنا ہوتا رہا‘ اس لیے جان پہچان ہو گئی۔ یہی وجہ ہے‘ درانی صاحب کا بیٹا ممبئی میں گرفتار ہوا‘ تو انہوںنے ایس اے دولت ہی سے رابطہ کیا۔

دولت صاحب نے را کے چیف ،راجندر کھنہ اور بھارتی حکومت میں شامل دیگر اعلیٰ سرکاری افسروں کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ عثمان نے ویزے کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ جرمن کمپنی نے ا سے غلط ٹکٹ دے دیا۔ یہ بھی بتایا کہ عثمان درانی کس شخصیت کا فرزند ہے۔ دولت صاحب کی کوششوں سے آخر معاملہ رفع دفع ہوا اور عثمان رہائی کے بعد واپس جرمنی چلے گئے۔

اس واقعے نے جنرل (ر) اسد درانی اور ایس اے دولت کو مزید قریب کر دیا۔ انہوںنے پھر مل کر مسئلہ کشمیر پر ایک مقالہ تحریر کیا۔ بعد ازاں انہیں خیال آیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جو تنازعات ہیں ،ان پر گفتگو کی جائے تاکہ انہیں حل کیا جا سکے۔ چنانچہ وسط 2016ء سے اس باہمی گفتگو کا آغاز ہوا۔ بات چیت کے مختلف مرحلے استنبول‘ بنکاک اور کھٹمنڈو میں انجام پائے۔ اس گفتگو کے میزبان ایک بھارتی صحافی ادتیہ سہنا تھے۔ وہی گفتگو کو الفاظ کا بھی روپ  دیتے رہے۔ پچھلے دنوں دو سال کی نشستوں کا احوال ایک کتاب’’The Spy Chronicles RAW, ISI and the Illusion of Peace‘‘ کی صورت بھارت میں شائع ہو گیا۔یاد رہے ،جنرل (ر) اسد درانی 1988ء میں  ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر جنرل بنے۔  1990ء تا 1991ء آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد  جرمنی اور سعودی عرب میں سفیر بنائے گئے۔

یہ ان معنوں میں منفرد کتاب ہے کہ دو متحارب خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں نے نازک و حساس موضوعات پر تبادلہ خیال کیا اور اپنی رائے سامنے لائے۔ تاہم کتاب کی اشاعت کے بعد اسی رائے کے باعث دونوں اصحاب اپنے اپنے ممالک میں معتوب بھی ہوئے۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے قومی سلامتی ا ور بیانیے سے متصادم اور بر خلاف باتیں کی ہیں۔ جی ایچ کیو نے تو اس ضمن میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی سے وضاحت بھی طلب کر لی کہ انھوں نے ملٹری کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔جنرل (ر) درانی اور ایس اے دولت کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے حسا س موضوعات اور تنازعات پر کھل کر اس لیے گفتگو کی تاکہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات دور کر کے قریب آ جائیں۔ اسی باہمی دوستی میں برصغیر پاک و ہند کے اربوں لوگوں کی بقا مضمر ہے۔

کتاب میں کیے گئے  بعض انکشافات کی وجہ سے درانی صاحب کو سراہا گیا مگر دیگر کے باعث انہیں تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔جنرل صاحب کے مداحوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے پوری کتاب میں پاکستان کا مقدمہ بڑے مدلل انداز میں لڑا ہے مگر متناقص میڈیا رپورٹوں نے اسے متنازع بنا دیا۔جبکہ ناقد کہتے ہیں کہ انھوں نے شہرت کی خاطر یا کسی کے اشارے پر ایساقدم اٹھایا۔ پاکستانی سیاست دانوں کا یہ موقف سامنے آیا کہ کوئی سیاسی رہنما قومی بیانیے سے اختلاف کرے ‘ تو اس پر لعن طعن ہوتی ہے لیکن سرکاری افسر اور جرنیل یہی عمل کرے‘ تو عموماً اسے کچھ نہیں کہا جاتا۔ تاہم جنرل (ر) اسد درانی کو طلب کر کے جی ایچ کیو نے سبھی پر واضح کر دیا کہ جو بھی آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے‘ اسے جواب دہ ہونا پڑے گا۔زیر نظر مضمون میں کتاب کے اس باب کی تلخیص پیش خدمت ہے جس میں دونوں اسپائی ماسٹر را اور آئی ایس آئی کا تقابلی جائزہ لیتے اور دیگر متعلقہ امور پر گفتگو کرتے ہیں۔

آئی ایس آئی کی کامیابیاں

کتاب کے باب میں جنرل(ر) درانی بتاتے ہیں: ’’ایک عالمی کانفرنس میںا یک امریکی صحافی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک(بھارتی خفیہ ایجنسی) را کیسی ہے؟ تب میں آئی ایس آئی کا چیف تھا۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی صحافی مجھ سے را کے خلاف باتیں کرانا چاہتا تھا تاکہ بعدازاں را چیف سے ان پر رائے لے سکے۔ میں نے اس کی بری نیت پہچان کر بے پروا انداز میں کہا ’’وہ بھی ہماری طرح اچھی خفیہ ایجنسی ہے۔‘‘

جنرل (ر) درانی نے مزید بتایا ’’ ایک یورپی ویب سائٹ، ’’سمیشنگ لسٹس‘‘ (https://www. smashinglists. com) مختلف شعبوں کے ’’ٹاپ ٹین‘‘ کی فہرست مرتب کرتی ہے۔ دس سال قبل اس نے دنیا کی بہترین دس خفیہ ایجنسیوں کی فہرست مرتب کی۔ اس میں سرفہرست آئی ایس آئی تھی۔ موساد‘ سی آئی اے اور دیگر کو اس کے بعد رکھا گیا۔‘‘

آئی ایس آئی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے جنرل(ر) درانی نے بھارتی ساتھیوں کو بتایا’’جب افغانستان میں سویت قبضے کے دوران افغان جہاد جاری تھا‘ تو آئی ایس آئی مغرب کی بڑی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ شریک کار رہی تاکہ اسے کامیاب بنایا جا سکے۔ لیکن آئی ایس آئی نے کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اس کے کاموں میں دخل اندازی کر سکے۔ جب سرد جنگ ختم ہوئی تو بدلتے وقت کے تقاضے سامنے رکھ کر آئی ایس آئی نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ میں اس امر کو بھی حیرت انگیز کامیابی قرار دیتا ہوں کہ آج تک آئی ایس آئی کا معمولی سا کارندہ بھی منحرف نہیں ہوا اور نہ ہی اسے کیمرے میں مقید کیا جا سکا۔‘‘

اس دوران ادتیہ سنہا نے جنرل (ر) درانی اور ایس اے دولت سے سوال کیا کہ ان کے نزدیک آئی ایس آئی اور را کی سب سے بڑی ناکامیاں کیا ہیں؟

ایس اے دولت گویا ہوئے:’’میرے نزدیک را کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ آج تک آئی ایس آئی کے کسی بندے کو منحرف نہیں کر سکی اور نہ ہی اپنا آلہ کار بنا پائی۔ آپ ذرا ماضی میں جایئے اوردیکھئے کہ سرد جنگ کے دوران(امریکی خفیہ ایجنسی) سی آئی اے کا بنیادی کام کیا تھا؟اس کا اہم ترین کام یہ تھا کہ سویت یونین یا مشرقی یورپ سے کسی مشہور شخصیت کو منحرف کیا جائے۔ جب سی آئی اے کا کوئی کارندہ کسی منحرف کو ڈھونڈ لیتا‘ تو پھر سارے کیریئر کے دوران وہ کوئی کام نہ کرتا۔ وجہ یہی کہ ایک بندے کو منحرف بنا کر وہ اپنا بنیادی کام انجام دے ڈالتا۔ لیکن را اس معاملے میں بالکل کامیاب نہیں ہو سکی۔‘‘

ادتیہ سنہا نے سوال کیا: ’’یہ تو ممکن ہے کہ آئی ایس آئی میں را کا جاسوس موجود ہو۔‘‘

ایس اے دولت بولے:’’دشمن کی خفیہ ایجنسی میں کام کرتے کسی کارندے کو اپنا جاسوس بنانا منحرف کرنے سے آسان ہے۔ لیکن مجھے علم نہیں کہ آئی ایس آئی میں را کا کوئی جاسوس موجود رہا ہے یا نہیں۔‘‘

اس موقع پر جنرل (ر) درانی کہنے لگے: ’’ جنگ 1965ء میں ہماری انٹیلی جنس بہت متحرک تھی۔ چنانچہ ہم یہ معلوم کرنے میں کامیاب رہے کہ بھارتی فوج کس قسم کی جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔ جنگ 1971ء میں آئی ایس آئی یہ اندازہ نہیں کر سکی کہ بھارت مشرقی پاکستان پرحملہ کرنے والا ہے۔میرے دور میں (مقبوضہ ) کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی ۔ تب بھارتی فوج حرکت میں آ گئی۔ مگر آئی ایس آئی نے یہ درست اندازہ لگایا کہ بھارتی فوج جنگ لڑنے کی نیت نہیں رکھتی۔ یہ ہماری بڑی کامیابی تھی۔

’’میرے خیال میں ہماری ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ جب کشمیر میں تحریک آزادی شروع ہوئی تو ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ وہ کہاں تک جائے گی۔ عام طور پر ایسی تحریکیں چھ ماہ یا ایک سال تک چلتی ہیں۔ مگر تحریک آزادی کشمیر کے متعلق آئی ایس آئی کا اندازہ درست ثابت نہ ہوا۔‘‘

اسی باب میں جنرل (ر) درانی نے انکشاف کیا کہ را نے بھارت کے ایک ٹی وی چینل کو 25ملین ڈالر دیئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ چینل پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کر سکے۔ تاہم ایس اے دولت نے اس ا مر سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

کلبھوشن یادیو کامعاملہ

ایس اے دولت نے کلبھوشن یادیو پر بھی اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارتی بحریہ کا یہ ریٹائرڈ افسر را کا ایجنٹ بن گیا تھا‘ تو اس نے اپنا کام صحیح طرح ادا نہیں کیا۔یہ ایک ناکام آپریشن تھا جس سے را کو نقصان پہنچا۔

اس ضمن میں جنرل (ر) درانی نے بتایا کہ کلبھوشن یادیو کو مارچ2016میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اگلے مہینے پٹھان کوٹ پر حملہ ہو گیا۔ تب بھارتی حکومت کی سرتوڑ کوشش تھی کہ وہ یہ ثابت کر دے ‘ دہشت گردوں کا تعلق پاک فوج سے تھا۔ تبھی کلبھوشن یادیو کو سامنے لایا گیا تاکہ دنیا والوں کو بتایا جا سکے کہ بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان اور سندھ میں شورش پھیلا رہا ہے اور دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے۔

اجیت دوال کا کردار

دونوں تجربے کار اسپائی ماسٹرز بھارت کے مشیر قومی سلامتی، اجیت دوال کی شخصیت اور اعمال کو بھی زیربحث لائے۔ جنرل(ر)اسد درانی کہتے ہیں’’میں سمجھتا ہوں کہ دوال نے (پاکستان سے متعلق بھارتی حکومت)کی پالیسی کو زیادہ تبدیل نہیں کیا۔پالیسی پرانی والی ہی چلی آ رہی ہے۔البتہ وہ زیادہ شدت پسند ہے۔وہ ٹرمپ کی طرح بڑھ چڑھ کر بیان دیتا اور دشمنوں کو دھمکیوں سے نوازتا ہے۔مختصر یہ کہ دوال وہی کہتا اور کرتا ہے جو اس کا باس(وزیراعظم نریندر مودی)کرنے کو کہے۔یعنی یہ بات کہ اپنی قوت کا مظاہرہ شدت سے کیا جائے اور بڑھ کر بولا جائے۔‘‘

جنرل (ر) درانی کا خیال ہے کہ اجیت دوال نے زیرزمین بھارتی خفیہ ایجنٹ کی حیثیت سے پاکستان میں جو سال گذارے وہ کچھ خوشگوار نہ تھے۔’’اسی لیے دوال سمجھتا ہے کہ اس ملک سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے۔’’

ایس اے دولت نے اجیت دوال کو اپنا ’’اچھا دوست‘‘ اور ’’مودی کا چیلا‘‘ قرار دیا۔انھوں نے کہا ’’جہاں تک دوال کی صلاحیتوں کا تعلق ہے،وہ عمدہ آپریشنل اور عملی آدمی ہے۔اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کسی پر اعتماد نہیں کرتا۔اسی لیے اکثر تنہائی کا شکار رہتا ہے۔اگرچہ دیکھا گیا ہے کہ جو مرد وزن انٹیلی جنس دنیا سے منسلک ہوں ،وہ آسانی سے دوسروں پہ اعتماد نہیں کرتے۔گویا ہر ملنے جلے والے پر شک کرنا ہر جاسوس کا مسئلہ ہے۔‘‘

بھارتی اسپائی ماسٹر نے مذید کہا’’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معاملے میں دوال شدت پسند نہیں ،وہ بس لکیر کا فقیر ہے۔جو مودی کہتا ہے،وہ اس پہ آنکھ بند کر کے عمل کردیتا ہے۔نیز دوال کو یقین ہے کہ مودی اب تک آنے والا بھارت کا بہترین حکمران ہے۔اسی لیے وہ اسے پسند کرتا اور اپنے باس کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانا اپنا فرض سجھتا ہے۔‘‘

متحارب ممالک سے تعلق رکھنے والے دونوں انٹیلی جنس چیفس کی گفتگو پر مشتمل چشم کشا کتاب آنے والے دنوں میں ہلچل مچائے رکھے گی۔اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس کتاب نے خصوصاً پاکستان کے قومی بیانیے کو نقصان پہچایا یا اسے درست ڈگر پر لانے میں معاون ثابت ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔