شمالی کوریا پھر آگے آئے گا

شمالی کوریا کا شمار ان گنتی کے چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کمیونسٹ پارٹیاں فعال ہیں


Zaheer Akhter Bedari June 26, 2018
[email protected]

کشیدگی کی انتہا کو پہنچنے کے بعد شمالی کوریا اور امریکا کے صدورکے درمیان ملاقات ہوگئی، 48 منٹ کی اس ملاقات میں ان وعدوں کا اعادہ کیا گیا جو شمالی کوریا کے رہنما '' کم جانگ ان '' نے کچھ دن پہلے جنگ کے مینار سے اتر کرکیے تھے دونوں ملکوں کے درمیان عشروں سے جاری کشیدگی کے بعد دن رات بڑھکیں مارنے والے کم جانگ ان نے ایسا پلٹا کھایا کہ دنیا حیران رہ گئی اس ذہنی یا پالیسی تبدیلی کی وجوہات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں اس کا ایک انتہائی مثبت پہلو یہ ہے کہ دنیا کے سر پر منڈلانے والا ایٹمی جنگ کا خطرہ فی الوقت ٹل گیا۔ اس حوالے سے ایک بات بڑی واضح ہوگئی ہے کہ آج بھی دنیا کی تقدیر چند ہاتھوں میں ہے اور اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ آج جن لوگوں کے ہاتھوں میں دنیا کی تقدیر سونپی گئی ہے وہ ذہنی حوالے سے جذباتی بلکہ ابنارمل ہیں۔

شمالی کوریا نے میزائل تجربے بند کردیے میزائل تجربوں کی سائٹس کو ناکارہ بنا دیا۔ یہ بڑی مثبت اپروچ ہے لیکن اس فیصلے سے یکطرفہ اقدامات تو عمل میں آئے لیکن یہ ایک دلچسپ اور عجیب و غریب صورتحال میں کہ شمالی کوریا نے تو عام توقعات سے بڑھ کر بلکہ عام توقعات سے بالکل الٹ اقدامات کر ڈالے لیکن جنوبی کوریا کی طرف سے اس قسم کے مثبت اقدامات کی خبریں میڈیا میں نہیں آئیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ امن اور آشتی کے اقدامات یکطرفہ ہی رہے شمالی کوریا نے میزائل تجربات کی بندش کے ساتھ ساتھ میزائل ٹیسٹ کی سائٹ بھی تباہ کردی ہیں یقینا یہ ایک انتہائی مثبت اقدام ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا یا امریکا نے اس اقدام کے جواب میں کوئی مثبت عملی اقدامات کیے مثلاً کیا جنوبی کوریا میں موجود امریکی اڈے کو ہٹا لیا گیا۔ کیا جنوبی کوریا میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں کمی کی گئی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو شمالی کوریا کے مثبت اقدامات کے تناظر میں پیدا ہوئے ہیں اور جس کے جوابات کی دنیا منتظر ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ خطے میں امریکی بالادستی اور طاقت کو شمالی کوریا نے ختم کرکے رکھ دیا تھا اور امریکا کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیوں سمیت جتنے اقدامات کیے گئے، ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ شمالی کوریا کو بے بس کرکے خطے میں امریکی بالادستی کو لاحق خطرات کو دور کردیا جائے۔ بلاشبہ امریکا اس مقصد میں فی الوقت کامیاب رہا ہے لیکن اب بھی دونوں ملکوں میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور اگر کسی حوالے سے دونوں ملکوںمیں کوئی تنازعہ کھڑا ہوجاتاہے توکیاایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔

اصل میں امریکی سامراج کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ بلاشرکت غیرے دنیا کے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔ لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ یورپی یونین سے امریکا کے اختلافات بڑھ رہے ہیں ۔اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ٹرمپ من مانے اور یکطرفہ فیصلے کر رہے ہیں۔ اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ امریکی عوام نے اس بار ایک ایسے غیر متوازن اور لاابالی شخص کو اپنا صدر چن لیا ہے جس کا کوئی وژن ہی نہیں صرف اور صرف جذباتی اور غیر متوازن فیصلے کرنا ہی ان حضرت کی خصوصیت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دنیا کی اس نازک اور تشویشناک صورتحال میں امریکا کی صدارت ایک نیم پاگل شخص کے ہاتھوں میں ہے۔

دنیا کے امن کا انحصار اس پر نہیں کہ کسی ایک باغی ملک کے گرد گھیرا ڈال کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے بلکہ دنیا کے امن کا انحصار بلاتفریق بلاامتیاز جنگوں کا سبب بننے والے ہر محرک کا خاتمہ کیا جائے امن کی کوششیں جانبدارانہ اور امتیازی ہوجائیں تو امن کی توقع رکھنا احمقانہ خیال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ شمالی کوریا ہی کو لے لیں شمالی کوریا کی قیادت لاکھ جذباتی اور عدم توازن کا شکار رہی ہو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنوبی کوریا یا امریکا نے شمالی کوریا کے مثبت اقدامات کے جواب میں کسی قسم کے مثبت اقدامات اٹھائے ہیں۔ امریکا کی فوجیں جنوبی کوریا میں مقیم ہیں ایٹمی ہتھیاروں سمیت جنوبی کوریا امریکی ہتھیاروں اور افواج کا سپر اسٹور بنا ہوا ہے کیا اس پوزیشن میں کوئی فرق پیدا ہوا ہے؟ جب تک سوشلسٹ بلاک موجود تھا امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ناک میں نکیل بنا ہوا تھا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اور مفکرین کی رات کی نیند دن کا چین حرام ہوگیا تھا کہ عوام کے لیے معاشی انصاف اور ارتکاز دولت کا خاتمہ کرنے والا یہ نظام دنیا بھر کے عوام میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو سرمایہ دارانہ نظام کا کریہ کرم ہوجائے گا۔ اس خوف سے نکلنے اور سوشلسٹ نظام معیشت کو تباہ کرنے کے لیے روس کے ساتھ کیا گیا، دنیا کے زیرک لوگ اس سے واقف ہیں سرد جنگ کے بعد اسٹار وار کی تکنیک کے ذریعے روس کے وسائل کو ضایع کیا گیا اور اسے فلاپ کر دیا گیا۔

شمالی کوریا کا شمار ان گنتی کے چند ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کمیونسٹ پارٹیاں فعال ہیں اور سوشلزم کا نام لیا جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے امریکا کی شمالی کوریا سے دشمنی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شمالی کوریا اب بھی سوشلسٹ معیشت کی بات کرتا ہے۔ امریکا کی دوستی اور دشمنی کی ایک بڑی وجہ سوشلزم ہے روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اگرچہ کہ سوشلزم کا مارچ رک گیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ دنیا ک عوام جس سرمایہ دارانہ اقتصادی استحصال کا شکار ہیں اگر انھیں اس اقتصادی استحصال سے نجات دلانے کے لیے کوئی اقتصادی انصاف پر مبنی نظام ان کے سامنے رکھا جائے تو دنیا کے اربوں انسان سرمایہ دارانہ نظام کو ٹھوکر مار کر اقتصادی انصاف پر مبنی نظام کی طرف دوڑیں گے۔

اسی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے امریکا اور اس کے حواری ہر اس نشان کو مٹا دینا چاہتے ہیں جس سے معاشی انصاف کی بو آتی ہو۔ ہتھیاروں کی صنعت دراصل جنگوں کی صنعت ہے۔ مغربی سرمایہ داروں نے ہتھیاروں کی صنعت پر کھربوں کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس صنعت کو برقرار رکھنے کے لیے جنگی نفسیات کا ہونا ضروری ہے اس تناظر میں امریکی صدر کا چہرہ دیکھا جاسکتا ہے شمالی کوریا پر مختلف حوالوں سے دباؤ ڈال کر اسے پیچھے تو دھکیل دیا گیا ہے لیکن سامراج کی فطری امتیاز کی پالیسی ایک بار پھر شمالی کوریا کو آگے لائے گی اور امن کا دور عارضی ثابت ہوگا جب تک امتیازات کی سیاست چلتی رہے گی۔

مقبول خبریں