دنیا کی دو تباہ کن برائیاں

آج بھی قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر انسان دنیا کے کئی حصوں میں برسر پیکار ہے۔


Zaheer Akhter Bedari July 26, 2018
[email protected]

کرہ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال گزر چکے ہیں ان چار ارب سالوں میں اندازہ ہے کہ دنیا لاکھوں بار اجڑی اور لاکھوں بار آباد ہوئی۔ چین کے پہاڑوں میں زندگی کے جو نشانات ملے ہیں وہ ساڑھے تین ارب سال پرانے ہیں ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کرہ ارض کے وجود میں آنے کے پچاس کروڑ سال بعد ہی انسان کرہ ارض پر موجود تھا ، یعنی انسان کی عمر ساڑھے تین ارب سال ہے، اس تناظر میں ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ دس پندرہ ہزار سال کے لگ بھگ ہے ساڑھے تین ارب سال کے پس منظر میں 15-10 ہزار کا عرصہ کس قدر مختصر ہے اس کا اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوسکی۔ اس مختصر معلوم تاریخ میں حضرت انسان نے کیا کیا گل کھلائے، یہ ایک حیرت انگیز بات ہی نہیں، دس پندرہ ہزار سال کی معلوم تاریخ خون آشامیوں سے بھری ہوئی ہے تو استحصال بھی اتنا ہی پرانا ہے۔

ہم طاقت کی برتری کو جنگل کا قانون کہتے ہیں۔ انسان کی یہ مختصر تاریخ طاقت کی برتری کی تاریخ ہے صرف بیسویں صدی ہی پر نظر ڈالیں تو دو عالمی جنگیں کوریا ویت نام کی جنگ، عراق اور افغانستان کی جنگیں، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو جنگیں انسانی جبلت کا وہ شاہکار ہیں جس پر انسان شرمسار ہی ہوسکتا ہے آج بھی قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر انسان دنیا کے کئی حصوں میں برسر پیکار ہے۔ صرف بیسویں صدی میں ہونے والی دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان مارے گئے۔

غلامی کا دور ہو یا جاگیردارانہ دور ہر دور دو خصوصیات کا حامل ہے ایک جنگیں دوسرا طبقاتی استحصال یہ دو لعنتیں انسان کی معلوم تاریخ کا وہ المیہ ہیں جو انسانیت کے چہرے کا کوڑہ بن کر رہ گئی ہیں ۔ ماضی میں جنگیں نیزوں، بلموں ، تلواروں خنجروں سے لڑی جاتی تھیں یہ بادشاہی دور کا وہ المیہ ہے جس پر احمق انسان فخر کرتا ہے میدان جنگ میں غنیم کی صفوں میں گھس کر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگانے والا بہادرکہلاتا تھا ۔ انسانوں کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹ کر پھینکنے والا بہادر مانا جاتا تھا۔ تاریخ ایسے بہادروں کے کارناموں سے بھری ہوئی ہے اور آج بھی ہر قوم اپنے ''بہادروں'' پر فخر کرتی نظر آتی ہے۔ بادشاہوں ، راجوں، مہاراجوں کے دور میں جنگوں کی کوئی وجہ نہیں ہوتی تھی بس لوٹ مار غنیم کی قتل و غارت گری کا بڑا مقصد ہوا کرتی تھی۔

ہر بدتر سے بدتر دور میں ایسے اچھے انسان بھی گزرے ہیں جو خون خرابے کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ آج کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا بھر میں جنگوں قتل وغارت گری کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔ آج بھی جنگوں اور جنگوں کا سبب بننے والے عوامل کے خلاف دنیا کے ہر ملک میں آواز اٹھانے والے موجود ہیں لیکن جنگوں نفرتوں کے نقار خانوں میں ان بھلے انسانوں کی اور نقارخانوں میں طوطی کی آواز بنی ہوئی ہے کیونکہ حکمران طبقات کی سائیکی جنگوں اور نفرتوں کی سائیکی ہے یہ بدبخت حکمران جنگوں کے لیے ہمیشہ قومی مفادات اور ملکی سالمیت کا نام استعمال کرتے ہیں۔

ماضی میں جنگوں کے دوران تلوار نیزے چاقو چھرے استعمال ہوتے تھے اور ایک انسان اپنے دشمن کو تلوار اور نیزوں سے دو بدو کی جنگ میں قتل کرتا تھا۔ آج کا مہذب انسان ماضی کی تیر، تلوارکی جنگ کو وحشت اور بربریت کہتا ہے اور اس دور کو دور جاہلیت کہتا ہے لیکن ماضی کی جنگوں کو وحشت اور بربریت کہنے والے حیوانوں نے اب ایسے ایسے ہتھیار تیار کر لیے ہیں کہ دم بھر میں لاکھوں جیتے جاگتے انسانوں کو لاشوں میں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار آج کی دنیا کا سب سے زیادہ خون آشام ہتھیار ہے ۔اس ہتھیار کی تباہ کاریوں کا اندازہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے خلاف استعمال ہونے والے دو ایٹم بموں کی تباہ کاریوں سے ہوتا ہے۔

یہ دو ایٹم بم آج کے ایٹمی ہتھیاروں کے سامنے کیا پدی کیا پدی کا شوربا کی حیثیت رکھتے ہیں ان کم طاقت کے ایٹم بموں سے ہزاروں انسان ہلاک اور متاثر ہوئے ان ایٹم بموں کی تابکاری نے انسان کے حلیے بگاڑ دیے آج بھی کچھ لوگ زندہ ہیں جو ایٹمی تابکاری سے بگڑے ہوئے چہروں جسموں کے ساتھ انسانیت کے چہرے کا کوڑھ بنے ہوئے ہیں۔ میرے جیسے نہ جانے کتنے کالم نگار جیسے جانے کتنے لوگ دنیا میں جنگوں نفرتوں تعصبات کے خلاف مسلسل لکھ رہے ہیں لیکن طاقت کے مالک حیوانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام جنگوں طبقاتی نفرتوں اور طبقاتی استحصال کا آقا بنا ہوا ہے اسے دولت چاہیے خواہ وہ کسی طرح حاصل ہو، اسلحے کی صنعت سے صنعتکار اربوں کھربوں روپے اور ڈالر کما رہے ہیں اور غریب انسان روٹی کے لیے اپنے گردے بیچ رہا ہے، ایسے جنگ پسند حکمرانوں پر ہزار بار افسوس ہے۔

ہم نے کالم کے آغاز میں کرہ ارض کی عمر کا ذکر کیا تھا ساڑھے تین ارب سال کا عرصہ تصور سے بھی پرے ہے، اس طویل اور ساڑھے تین ارب سال بوڑھی دنیا ہزاروں سال سے ایک پسماندہ استحصالی نظام میں زندہ درگور ہے۔ آج کا ترقی یافتہ انسان عشاق کے محبوب چاند کی یاترا کر آیا۔ اب مریخ کے سفر میں ہے بلاشبہ یہ کامیابیاں لائق تحسین ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمین کا انسان اپنی اس جنگی سائیکی طبقاتی استحصال اور رنگ و نسل ذات پات زبان قومیت کی پیدا کردہ نفرتوں تعصبات اور عداوتوں کے ساتھ مریخ پر جائے گا یا ان غلاظتوں کو کرہ ارض پر چھوڑ کر انسانوں سے بلاتفریق مذہب و ملت محبت کرنے والے ایک اچھے انسان کی طرح مریخ پر جائے گا اگر جا سکا۔

دنیا ویسے تو برائیوں کا گڑھ بنی ہوئی ہے لیکن دو برائیاں ایسی ہیں جن کے خلاف دنیا کے اربوں انسانوں کو سخت جہاد کرنا پڑے گا۔ ایک مختلف حوالوں سے انسان کی تقسیم دوسرے طبقاتی استحصال۔ اگر اس دنیا کا انسان ان دو لعنتوں سے چھٹکارا پالے تو دنیا ایک پرامن اور استحصال سے پاک انسانوں کے رہنے کی دنیا بن سکتی ہے لیکن کیا ایسی دنیا کا وجود میں آنا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں یہ تبدیلی ناممکن ہے اگر انسانوں کی تقسیم اور استحصال سے پاک دنیا کو وجود میں لانا ہے تو سب سے پہلے اس بھیڑیائی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے لڑنا ہوگا اگر اس بھیڑیائی نظام کو ختم کردیا جائے تو بلاشبہ دنیا جنت بن سکتی ہے۔

مقبول خبریں