پاکستان کو آزادی تو ملی، لیکن سیاست اور معیشت آج بھی غلام ہے

غلام محی الدین / رانا نسیم  اتوار 19 اگست 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

قوموں کی تعمیر کا انحصار باکردار اور دیانت دار قیادت پر ہوتا ہے، قیادت اچھی ہو تو کسی بھی مزاج اور رویوں کے حامل انسانی ہجوم کو متحد کرکے قوم بنایا جا سکتا ہے، بصورت دیگر قیادت کا فقدان وہ دیمک ہے، جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے نظام کو چاٹ جاتا ہے۔ پھر قیادت چاہے کسی قوم، ادارے یا جماعت کی ہو، بہرحال وہ اعلی ترین مقام ہے، جو فہم و فراست کے ساتھ کردار کی شفافیت کا متقاضی ہے۔

وطن عزیز کی بات کی جائے تو قیادت کے اعتبار سے بابائے قوم اور ان کے چند رفقاء کو چھوڑ کر قوم کا دامن خالی سا محسوس ہوتا ہے، تاہم قیادت کی منڈی میں مندی کے رجحان کے دوران کچھ اجناس آج بھی ایسی ہیں، جن کے شیئرز کا حجم تو بڑا نہیں، لیکن ان کی قدر میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ان اجناس کی وجہ سے گرتی مارکیٹ کو اٹھایا تو نہیں جا سکتا، لیکن یہ مارکیٹ کو کریش بھی نہیں ہونے دیتیں۔

ایسی ہی قیادت میں ایک نام امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا ہے، جن کے اخلاص، سادگی اور دیانت کے دوست ہی نہیں دشمن بھی معترف ہیں۔ پشتون خاندان سے تعلق رکھنے والے سراج الحق خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے ایک گاؤں ثمر باغ میں 5 ستمبر 1962ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کرنے کے بعد 1990ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

یونیورسٹی دور میں مولانا مودودیؒ کی کتب سے متاثر ہو کر مولانا احسن الحق کے اس صاحبزادے نے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کرلی، جس کے بعد 1988ء سے 1991ء تک وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلٰی رہے۔ ملکی سیاست میں ان کی آمد 2002ء کے جنرل الیکشن سے ہوئی، جس میں انہوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لئے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے، اس دور حکومت میں انہیں اکرم درانی کی وزارت اعلی میں وزیرخزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔

جسے وہ اپنی مذہبی اور قومی غیرت کے زیر اثر زیادہ دیر تک اپنے پاس نہ رکھ سکے اور باجوڑ ایجنسی میں ایک مدرسہ پر امریکی ڈرون حملہ پر احتجاجاً وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ 2002ء کے بعد جماعت اسلامی نے 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، تاہم 2013ء کے عام انتخابات میں سراج الحق جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر دوسری بار رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا منتخب ہو گئے۔ اس دوران ملکی سیاست کے ساتھ انہوں نے تنظیمی سرگرمیوں کو بھی بھرپور طریقے سے جاری رکھا اور 30مارچ 2014ء کو وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔

2013ء کے الیکشن کے بعد جماعت اسلامی پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی بنی تو انہیں ایک بار پھر وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا، لیکن جماعت کے امیر کی حیثیت سے اب وہ یہ عہدے نہیں رکھ سکتے تھے، لہذا جون 2014ء ہی میں انہوں نے وزارت خزانہ سے استعفی دے دیا۔ امیر جماعت اسلامی نے امارت سنبھالنے کے بعد ملکی سیاست میں دو بار نمایاں طور پر کردار ادا کیا، جس میں سے ایک بار عمران خان کے دھرنے کے دوران اور دوسری بار پانامہ کیس سپریم کورٹ میں لے جا کر۔ جمہوریت کے تحفظ، استحکام اور فروغ کے لئے ان کے کردار کو صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومت پاکستان بھی تسلیم کرتی ہے۔

حکومت پاکستان نے 14 اگست 2014ء میں انہیں جمہوریت کے فروغ کے لئے کی جانے والی کوششوں پر ایوارڈ سے نوازا۔ حالیہ عام انتخابات 2018ء میں سراج الحق نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لئے الیکشن لڑا، جس میں وہ ان کے بقول دھاندلی کے باعث کامیاب نہ ہو سکے، تاہم گزشتہ سینیٹ الیکشن میں وہ سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے درویش صفت سینئر سیاست دان اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سے ایک خصوصی نشست کااہتمام کیا، جو نذرِقارئین ہے۔

ایکسپریس: پاکستان کے ابتر حالات کا ذمہ دار کون ہے، عوام یا حکمران؟ ان حالات میں کوئی بہتری آئے گی یا سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا؟

سراج الحق: دیکھیں! حالات کی خرابی کوئی ایک لمحے میں وقوع پذیر نہیں ہوتی، یہ ایک طویل داستان ہے۔ جو اب تقریباً پونا صدی پر مشتمل ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ تو آزاد ہو گیا، لیکن اس کی سیاست اور معیشت غلام ہی بنی رہی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے بعد ہمارا نظام ایک ٹریک پر نہیں چڑھ سکا اور یہی وجہ ہے کہ سارا نظام عوام کی خواہشات کے نہیں بلکہ افراد کی خواہشات کے تابع رہا۔ افراد میں کبھی فوجی جرنیل تو کبھی بڑے بڑے جاگیردار رہے لیکن صحیح بات یہ ہے یہاں کبھی بھی آئین، قانون یا نظام کی حکمرانی نہیں رہی۔ یہاں افراد، ذاتی مفادات اور ان کی خواہشات کی حکومت رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت بھی اس کے گرد گھومتی ہے۔

مارشل لاء بھی انہی کے لیے استعمال ہوا۔ تو میرے خیال میں خرابی کی اصل جڑ ساری دنیا میں حکومت ہی ہوتی ہے۔ عوام کیا کرے؟ عوام ٹیکس دیں، بل دیں، کوئی مصیبت آجائے تو عوام ہی قربانی دیں، آپ کو یاد ہوگا کہ جب ’’قرضہ اتارو اور ملک سنوارو‘‘ کی اپیل کی گئی تو لوگوں نے اپنے زیورات تک دے دیئے۔ 65ء کا معرکہ آیا تو مرد تو کیا خواتین بھی قربانی کے لیے آگے بڑھیں، یوں ہر ہر لمحے اور موقع پر پاکستانی قوم نے اپنے ملک کے ساتھ محبت کا ثبوت دیا۔ لیکن یہاں ایک مخصوص ٹولہ ماضی سے چلتا آ رہا ہے،جن کی شکلیں بدلتی رہی ہیں، پارٹیاں بدلتی رہی ہیں، وہ کبھی جھنڈے بدلتے ہیں تو کبھی نام، لیکن یہ ٹولہ آج تک ویسے کا ویسا ہی ہے، جیسے ماضی میں تھا۔ تو جب تک ہماری قوم ایک اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اس Status quo سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوجاتی تو آج آپ رونا روتے ہیں تو کل آپ کا کوئی چھوٹا بھائی جب صحافی بنے گا تو وہ بھی یہی رونا روئے گا۔

ایکسپریس: دو سال گزرنے کے بعد پانامہ سکینڈل کے بارے آج آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ تاثر درست نہیں کہ یہ صرف نواز شریف کے لئے تھا؟ اور آپ ایک بار پھر پانامہ کیس میں استعمال ہو گئے؟ جیسے 2003ء میں مشرف دور میں ہوئے یا 2008ء میں نواز شریف کے ہاتھوں ہوئے۔

سراج الحق: دیکھیے! ہم نے پانامہ لیکس میں جو جنگ لڑی ہے، وہ ان تمام عناصر کے خلاف تھی، جن کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہے، وہ یعنی 436 افراد ہیں اور نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ہم دوبارہ پٹیشنر کے طور پر گئے ہیں کہ اب باقی لوگوں کو بھی بلایا جائے۔ پہلے دن سے میرا جو موقف ہے میں اسی جگہ پہ کھڑا ہوں، یعنی شفاف اور تمام تر امتیازات سے بالاتر احتساب؛ یعنی سب کا احساب ہونا چاہیے۔

ہم چاہتے ہیں کہ ان 436 افراد کا بھی احتساب ہو، جن کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہے۔ تو ہم تو پیچھے نہیں ہٹے، تاہم اگر کہیں کوئی کوتاہی یا غلطی ہے تو وہ ذمہ داروں کی ہے، جن کی یہ ذمہ داری ہے۔ وہ نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد ان لوگوں کو بھی سمن کرکے ان کو بھی بلاتے، عدالت اور عوام کے کٹہرے میں کھڑا کرتے۔ لہٰذا اب اگر الیکشن ہوا ہے، جماعت اسلامی اسی جذبہ، اسی سپرٹ اور اسی عزم کے ساتھ کرپشن کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے گی اور ہماری ڈیمانڈ اب بھی یہی ہے کہ ان 436 لوگوں کو بھی بلایا جائے، ان کا بھی احتساب کیا جائے، اگرچہ یہ مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں اور اپنے عہدوں کو انجوائے کر رہے ہیں، لیکن ہیں تو وہ تمام لوگ قومی مجرم، جنہوں نے یہاں لوٹ مار کرکے پیسہ باہر منتقل کیا۔

ایکسپریس: بحیثیت سینئر سیاستدان نواز شریف صاحب کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟

سراج الحق: میرے خیال میں نواز شریف یا مسلم لیگ ہمیشہ اقتدار میں ہو تو زندہ رہتی ہے۔ یہ ایک خاص درجہ حرارت کی عادی جماعت ہے اور اگر وہ درجہ حرارت میسر نہ ہو تو اس کا پنپنا اور باقی رہنا خاصا مشکل ہوتا ہے اور شروع ہی سے یہ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ ہیں، اس کی چھتری تلے ہی یہ جماعت یہاں تک پہنچی ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کا سہارا نہ ہو تو یہ زیادہ دیر تک قائم رہ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے جیسے صحرا میں پانی کچھ وقت تک باقی رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ خشک ہو جاتا ہے، یہی صورت حال مسلم لیگ کی ہے۔

ایکسپریس: تنظیمی اعتبار سے جماعت اسلامی کا ادارہ جاتی ڈھانچہ بہت مضبوط اور آئیڈیل ہے، تاہم جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نواز شریف کی کرپشن کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اسی وقت میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں ن لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ اس رویے سے عوام میں مقبول ایک پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے؟

سراج الحق: دیکھیے! ہم برائی کے خلاف ہیں، کرپشن کے خلاف ہیں، وہ کسی بھی جماعت میں ہو یا حکومت میں۔ دوسرا میں آپ کو بتاؤں کہ آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کا سیٹ اپ جماعت اسلامی پاکستان سے بالکل مختلف ہے، لہٰذا وہ کسی سیاسی یا تنظیمی فیصلے میں ہمارے تابع نہیں۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر بالکل آزاد ہے۔

پھر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر ہے، جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہے، جماعت اسلامی سری لنکا ہے یا جماعت اسلامی لبنان ہے تو نام تو سب کے جماعت اسلامی ہیں، لٹریچر بھی ایک ہے، فکر بھی ایک ہے، کیوں کہ جماعت اسلامی ملکی اور بین الاقوامی تحریک کا نام ہے… لیکن سیاسی اور تنظیمی ڈھانچہ ان جماعتوں کا بالکل مختلف ہے۔ رہی یہ بات کہ نواز شریف کے خلاف عدالت میں جا کر جو موقف پیش کیا تھا، تو وہ آج بھی وہی ہے کہ بندہ کسی بھی پارٹی کا ہو، کرپٹ عناصر کا اب احتساب ہونا چاہیے اور آئندہ جو بھی حکومت آتی ہے، ان میں سے بھی ہمارا یہ مطالبہ رہے گا، ہم اپنی اس ڈیمانڈ کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ پر کوششیں جاری رکھیں گے۔

ایکسپریس: جب آپ امیرِ جماعت بنے تو آپ نے دعوی کیا تھا کہ آئندہ عام انتخابات 2018ء میں جماعت حکومت بنائے گئی، لیکن آپ کو خود پر انحصار کرنے کے بجائے ایک بار پھر ایم ایم اے کے پلیٹ فارم کا سہارا کیوں لینا پڑا، اطلاعات کے مطابق ایم ایم اے میں دوبارہ شمولیت کے خلاف جماعت کے اندر سے بھی اس شمولیت پر اختلاف تھا؟

سراج الحق: اختلاف رائے اچھی چیز ہے، یہ تو ایک میز پر کھانا کھانے والوں کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی حقیقی جمہوری جماعت ہے، جس میں اختلاف رائے کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، دوسری جماعتوں کی طرح یہاں بادشاہت نہیں ہے کہ بادشاہ سلامت نے جو کہہ دیا وہ حرف آخر ہو گا، بادشاہ سلامت جو کہہ دیں، اس پر سب لوگ نہ چاہنے کے باوجود عملدرآمد کریں اور اگر کوئی اختلاف کرے تو اسے باہر نکال دیا جائے۔ اچھا پھر! الیکشن کے بعد ہمارا یہ خیال تھا کہ ہم اپنے موقف میںاکیلے ہوں گے کہ یہ پہلے سے طے شدہ ایک پروگرام تھا، لیکن ہم جب اسلام آباد آئے تو ہمیں پتہ چلا کہ ہماری طرح اور بھی بہت سارے متاثرین یہاں موجود ہیں اور کراچی سے لے کر گوادر، خاران تک، پنجاب اور کے پی کے میں بھی اسی طرح کے متاثرین موجود ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ انتخابات آزادانہ ماحول میں نہیں ہوئے۔

اور جو سنیئر سٹیزن ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ پہلی بار دیکھا کہ 48گھنٹوں بعد بھی ریٹرننگ آفیسر رزلٹ دینے سے قبل پوچھ رہا ہے کہ اعلان کروں یا نہ کروں؟ پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا، ان کے سامنے گنتی نہیں کی گئی اور فارم 45 نہیں دیا گیا۔ اچھا! اب میںآپ سے پوچھتا ہوں کہ کیوں نہیں فارم 45دیا گیا؟ ہر جگہ پر یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ہمارے پاس کاغذات کم پڑ گئے، مانسہرہ، کراچی اور دیر میں بھی کاغذات کم پڑ گئے۔ اس لئے ہماری خواہش تھی کہ الیکشن شفاف اور مثالی ہوں، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت الیکشن کا انعقاد ایک المیہ ہے۔

ایکسپریس: آپ اور آپ کی جماعت نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا، لیکن الیکشن کے بعد الیکشن کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں میں آپ یہ پلیٹ فارم کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اگرچہ آپ خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا؟

سراج الحق: دیکھیں! الیکشن سے قبل اور بعد میں بھی میرا ایک ہی موقف ہے کہ 20،21 ارب روپے پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کے لئے مختص کیا، جس کا تقاضا یہی تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو پورا کرے، لیکن افسوس! کہ وہ ایسا نہیں کر سکا اور غیرجانبدار نہیں رہ سکا، اور چیف الیکشن کمشنر کی جانبداری پر بہت حرف آیا، حتی کہ بالآخر چیف جسٹس کے پیمانہ صبر بھی لبریز ہوا اور انہوں نے بھی کہہ دیا کہ تین بار تو میں نے فون کیا، لیکن الیکشن کمیشن سو رہا تھا۔

اچھا اب اگر یہ بات پولیٹیکل ورکر کرتا تو اس کو شاید جانبداری سمجھا جاتا، لیکن چیف جسٹس نے عوامی شکایات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ الیکشن کے بعد اجلاس میں کچھ لوگوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ میں نہیں جانا چاہیے، اور یہ صرف مولانا فضل الرحمن ہی نہیں بلکہ باقی لوگوں کا بھی خیال تھا، لیکن 1977ء کا وہ سارا ماحول میرے سامنے تھا کہ جس طرح ایک تحریک شروع ہوئی، جو پھر چلتے چلتے مارشل لاء کی وجہ بن گئی۔ میں ہمیشہ سے جمہوری کلچر کا حامی اور برداشت کے جذبے کو فروغ دینے والا ہوں اور دلیل کا قائل ہوں، لہذا میں نے اس وقت یہ مشورہ دیا کہ جو منتخب ہوئے ہیں، ان لوگوں کا اسمبلیوں میں جانا چاہیے اور حلف اٹھانا چاہیے۔ اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ تحفظات کو دور کرے۔ میری اس تجویز کو مولانا فضل الرحمن نے اے پی سے میں رکھا اور کسی نے بھی ہماری تجویز کی مخالفت نہیں کی۔

ایکسپریس: تحریک لبیک پاکستان کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے میں انہیں شامل نہیں کیا گیا اور اس اکیلی جماعت نے پورے اتحاد سے زیادہ ووٹ لے لئے۔ تحریک لبیک پاکستان نے کیا ایم ایم اے کا ووٹ بنک متاثر نہیں کیا؟

سراج الحق: دیکھیں! ہمارا مقصد یہی تھا کہ الیکشن میں دینی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی نہ ہوں، لیکن ایم ایم اے کا تاخیر سے بننا اور پھر الیکشن سے قبل ہم ایم ایم اے کا پیغام لوگوں تک صیحح طور پر پہنچا نہیں سکے۔ پھر میں کہوں گا کہ میری خواہش کے باوجود ہم تحریک لبیک پاکستان اور تحریک اللہ اکبر والوں کو ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنا سکے، جس سے ہمیں نقصان ہوا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 55لاکھ ووٹ لئے ہیں، اگر یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تو بڑی تعداد میں ہمارے لوگ کامیاب ہو جاتے۔

ایکسپریس: پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کرکے ایم ایم اے میں شمولیت کے فیصلہ پر کوئی پچھتاوا محسوس کرتے ہیں؟ کیوں کہ وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان درست تھا، کے پی کے میں تو پی ٹی آئی نے مسلسل دوسری بار منتخب ہو کر سیاسی تاریخ ہی بدل ڈالی۔

سراج الحق: پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا کوئی اتحاد نہیں تھا، ہم مخلوط حکومت میں شامل ہوئے، جس کا دورانیہ مکمل ہوا تو وہ اپنے راستے اور ہم اپنے راستے۔ ہمارا ان سے پارٹی سطح پر کوئی اتحاد نہیں تھا، پھر آپ دیکھ لیں کہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ہمارا ان سے کوئی اتحاد نہیں تھا، یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے 12،13 ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا تھا، لیکن یہ پارٹی سطح کا کوئی اتحاد نہیں تھا۔

ایکسپریس: لیکن جناب! اگر آپ پارٹی سطح کے اتحاد سے آج انکاری ہیں، تو جس وقت کے پی کے میں آپ کی مخلوط حکومت بنی تو 4 سال قبل 2014ء میں جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ ہی ایک انٹرویو میں جماعت کو پی ٹی آئی کا باقاعدہ اتحادی مانا تھا؟ 2013ء کے الیکشن کے بعد آپ کی جماعت کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی کے نظریات جماعت اسلامی کے نظریات اور نظریہ پاکستان سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے اتحاد ہوا، تو اب کیا سمجھا جائے کہ جماعت اسلامی کی پی ٹی آئی سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رہی یا پی ٹی آئی نظریہ پاکستان سے پیچھے ہٹ گئی؟

سراج الحق: دیکھیں! میں پھر کہوں گا کہ دو پارٹیوں کا اتحاد الگ چیز ہے اور مخلوط حکومت بنانا الگ۔ اور کے پی کے کی مخلوط حکومت میں صرف جماعت اسلامی ہی نہیں دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں، تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پارٹیوں کا اتحاد نہیں، پھر آپ دھرنے کو دیکھ لیں، جس میں جماعت اسلامی شامل نہیں ہوئی، پی ٹی آئی نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کا ارادہ کیا، ہم اس میں شریک نہیں ہوئے، ہم نے عدالتی راستہ اختیار کیا۔ تو میں کہنا چاہوں گا کہ کبھی بھی پارٹیوں کی سطح پر جماعت کا پی ٹی آئی سے اتحاد نہیں رہا، بس ہم ایک مخلوط حکومت میں شامل ہوئے تھے۔

باقی رہی بات نظریات کی تو اب چونکہ پی ٹی آئی کو حکومت ملی ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ اپنے نظریات میں سچے ہیں؟ اچھا پھر یہ کہ ہماری دعا اور خواہش ہے کہ جو انہوں نے وعدے کئے ہیں، وہ پورے کریں، ہم متعصب نہیں، ہم نفرت کی سیاست کے قائل نہیں ہیں، انہوں نے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی بات کی ہے، جس کے ہم منتظر ہیں، انہوں نے ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا کہا ہے، ہم اس کے منتظر ہیں، 50 لاکھ گھر دینے کا اعلان کیا، ہمیں خوشی ہو گی کہ وہ یہ کام کریں، قرضوں سے نجات دلانے کا کہا ہے، ہمیں بہت خوشی ہو گی، اگر ایسا وہ کرتے ہیں اور اس میں ہم چاہیں گے کہ وہ کامیاب ہوں، اس لئے کہ اگر عوام نے الیکشن میں حصہ لے کر انہیں کامیاب کروایا ہے تو وہ حکومت کریں اور جن کاموں کا انہوں نے اعلان یا وعدہ کیا ہے، انہیں پورا کریں، ہم خوش ہوں گے کیوں کہ ہم گندی سیاست کے قائل نہیں، تعصب میرے مزاج میں ہے نہ سیاست میں۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں حالیہ انتخابات میں کس ایجنڈے یا ایشو پر قوم نے یا کسی اور نے پی ٹی آئی کو سب سے بڑی جماعت بنا دیا؟

سراج الحق: میرے خیال میں تو میڈیا نے تحریک انصاف کو سب سے بڑی جماعت بنایا، میڈیا جو ہے، یہ اس وقت ایٹم بم سے بھی بڑی طاقت ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ میڈیا میں سرمایہ کاری کی گئی، ہاں! دوسرا وہ خود مانتے ہیں کہ اداروں نے انہیں سپورٹ کیا ہے اور بڑے طریقے اور سلیقے کے ساتھ کیا ہے، اور اب تو پردوں میں بھی کوئی چیز نہیں رہی، سب کھلم کھلا ہے۔

ایکسپریس: سیاسی معاملات میں ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے کے رجحان پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ کیا ایسا کرنا اداروں کو تباہ کرنے کے مترادف نہیں، جس سے پھر نتیجتاً ملک کو نقصان ہو گا؟

سراج الحق: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارے ادارے متنازعہ نہ ہوں، وہ کسی خاص پارٹی کی سرپرستی کے بجائے پوری قوم کا اعتماد حاصل کریں۔ اور وہ سیاسی معاملات میں غیرجانبدار رہیں، کیوں کہ کسی ایک طرف جھکاؤ سے نقصان ہوتا، بحث مباحثے چھڑ جاتے ہیں، لوگ جمع تفریق کرنے لگ جاتے ہیں، پھر ان اداروں کا اپنا بھی نقصان ہوتا ہے۔ میں نے تو پہلے بھی عرض کیا تھا کہ نواز شریف صاحب کو جو اتنی لمبی سیاسی زندگی ملی، وہ ان کی اپنی نہیں تھی بلکہ پروردگی کی تھی۔ کیا آپ بھول گئے کہ ایک آرمی چیف نے کہا تھا کہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جائے۔

ایکسپریس: پاکستان میں، اس کے قیام سے لے کر آج تک سول ملٹری تعلقات مثالی نہیں رہے، اس کی وجہ فوج کی اقتدار کی خواہش ہے یا ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی؟ اور دوسرا ملکی مفاد کے لئے مستقبل میں سول ملٹری تعلقات کو کیسے متوازن بنایا جا سکتا ہے؟

سراج الحق: دیکھیں! پاکستان عوام نے بنایا ہے اور عوام پر اگر اعتماد کیا جائے گا تو یہ ملک ترقی کرے گا۔ غلط تجربات نے تو مشرقی پاکستان میں بھی ہمیں ناکامی سے دوچار کیا، اور میں کہوں گا کہ بنگال بہت بڑا علاقہ تھا، اسے کیوں پاکستان سے جانے دیا گیا، کچھ وجوہات تو تھیں؟ لہذا میں دوبارہ کہوں گا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہی پاکستان کو ترقی دلا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی یہ سمجھا کہ ہماری سوچ کی وجہ سے پاکستان ترقی کرے گا تو یہ غلط ہے، پاکستان عوام کی اجتماعی سوچ کی وجہ سے ترقی کرے گا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہماری معاشی، تعلیمی، خارجہ اور داخلی پالیسیاں پارلیمنٹ میں طے ہوں، اس کے لئے باہر سے کوئی ڈکٹیشن نہ لی جائے، جس کے تحت پھر پاکستان کی عوام پر زبردستی کے فیصلے تھوپے جائیں۔

ایکسپریس: آپ نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات تو ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ پاکستان میں پانی کی قلت بحران کی صورت اختیار کرنے جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ بھارت کی آبی جارحیت اور ہمارے ہاں ڈیمز کی کمی ہے، اب اگر پاکستان کے اندر ایک ایسی پارٹی برسر اقتدار ہو، جس کے پاس عددی اکثریت ہو اور وہ ڈیم نہ بننے دے تو پارلیمنٹ کے اندر اور پولیٹیکل فرنٹ کے اوپر ایسی صورت حال کو محب وطن قوتیں کیسے confrontکریں؟ مثال کے طور پر اگر جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں ہے اور اس کے پاس عددی اکثریت بہت کم ہے تو وہ کیا کرے گی؟

سراج الحق: دیکھیں! ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر، لیکن جب بات قومی مفاد کی آتی ہے تو ہم سب یک زبان ہوتے ہیں۔ پانی کا مسئلہ ہو تو انڈیا نے جیسے ہمارے پانی پر قبضہ کیا ہے اور چاہتا ہے کہ پنجاب ریگستان بن جائے اور کروڑوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں، تو اس کے مقابلے میں ساری قوم انشاء اللہ تعالی ایک ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا یہی تو فائدہ ہے کہ آپ ایک یا دو اشخاص کو تو خرید سکتے ہیں، لیکن 372کو نہیں، تبھی تو ہم کہتے ہیں آپ رات کے اندھیروں میں فیصلے کرنے کے بجائے دن کی روشنی میں پارلیمنٹ کے اندر کریں۔

ایکسپریس:مولانا مودودیؒ نے جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تو ان کے بعد میاں طفیل صاحب کے دور تک جماعت کا علمی تاثر (معاشرتی اصلاح، مذہبی تعلیمات کا پرچار) نمایاں رہا، پھر قاضی صاحب کے دور میں جماعت کا سیاسی تاثر بھرپور طریقے سے ابھرا، لیکن آج یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ جماعت کی امارت آپ تک پہنچتے پہنچتے جماعت کی نہ صرف علمی بلکہ سیاسی افادیت میں بھی واضح کمی واقع ہو رہی ہے؟

سراج الحق: میں ایک اور اینگل سے اس سوال کا جواب دوں گا کہ دنیا آج ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے، جس کو کنٹرول کرنے والے معیشت کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں،میڈیا کے ذریعے لوگوں کی سوچ کو بھی قابو کر رہے ہیں، اس طرح معیشت اور میڈیا کے ذریعے انہوں نے ساری دنیا کو اپنا غلام بنایا ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ آپ اسی طرح سوچیں، جس طرح ان کا حکم ہو، آپ کو رنگ وہی پسند ہونا چاہیے، جو انہیں ہو، آپ کے ہیروز وہی ہونے چاہیں جو وہ آپ کو بتائیں، آپ کا پسندیدہ ماضی وہ ہونا چاہیے، جو وہ چاہتے ہیں، اسی لئے کہتے ہیں کہ ابن قاسم، غزنوی اور ابدالی کے بجائے آپ کا تعلق موہنجو داڑو کے کھنڈرات سے جوڑ دیا جائے، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو ایک مکمل ضابط حیات سمجھتے ہیں، اور اسلام کو مسجد کی دیواروں سے باہر لا کر زندگی کے ہر شعبہ میں دیکھنا چاہتے ہیں، جسے کہتے ہیں پولیٹیکل اسلام، یہ کہیں اگر ووٹ کے ذریعے آجائے تو انہیں ناقابل قبول ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مصر میں بھی اس اسلام کو قبول نہیں کیا اور مرسی کو جیل میں ڈالا ہے، اس کے باوجود کہ اس کے پاس اکثریت تھی۔ اس کے علمی کام میں کام نہیں تھی، اس کی سیاسی سپورٹ میں بھی کمی نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود ایسا ہوا۔ پھر افغانستان میں ایک طویل جہاد کے بعد اسلام آیا تو اسے بھی قبول نہیں کیا گیا، تو جماعت اسلامی کا مقابلہ یہاں کسی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہمارا مقابلہ عالمی فکر کے ساتھ ہے۔ اگر ہم اسی پر راضی ہو جائیں کہ ہم صوفی منش لوگ ہیں اور مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ اگلے ہی روز لاکھوں لوگ ہمارے پاس آ جائیں گے، ہماری بیت کریں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اب تک جو کام کیا ہے، ہماری دیانت پر کسی کو شک ہے؟

جمہوریت، خدمت، حب الوطنی، تنظیمی نظم و ضبط پر شک ہے؟ تو کہتے ہیں، نہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے؟ تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاست غلام ہے اور ساری دنیا میں جو ایک غالب سیاسی کلچر ہے، اس کا اثر یہاں پر بھی ہے، جسے ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’ہر بچہ دین اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، ماحول اسے یہودی یا عیسائی بناتا ہے‘‘ ماحول کس چیز کا نام ہے؟ ماحول دیواروں کا نام نہیں ہے، ماحول کا مطلب ہے کہ کیا چیز آپ کو دکھائی جاتی یا سنائی جاتی ہے، جو نظر آتا ہے وہ چینل اور جو سنایا جاتا ہے، وہ یہی آپ کے اینکرز اور شہزادے ہیں۔ اور اسی ماحول نے اسلام کو بحیثیت نظام قبول کرنے کے راستے بند کئے ہیں، لیکن انشاء اللہ تعالی ہم ان بند راستوں کو ضرور کھولیں گے۔

ایکسپریس:جماعت اسلامی کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو حالیہ الیکشن میں اسے بدترین شکست کا سامنا رہا، حالاں کہ گزشتہ دور حکومت میں کے پی کے میں آپ کے وزراء نے ڈلیور کیا، لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی ایسے حلقوں سے بھی ہار گئی، جنہیں اس کا قلعہ تصور کیا جاتا تھا، اس کی وجوہات کیا ہیں اور کیا امیر جماعت اور پوری مجلس شوری کو یہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے، جس کے نتیجے میں جماعت بھی تبدیلی کے عمل سے گزرے؟

سراج الحق: الیکشن ہارنے کی بات کی جائے تو میں عرض کروں کہ ہمارے دیر بالا میں ایک ایم پی اے نے اپنے حلقہ میں 9 ارب روپے خرچ کئے۔ اپنی محنت کے ذریعے وہ اپنے ایک ایک ووٹرز سے رابطہ میں رہے،جس کے لئے انہوں نے کراچی کے طویل دورے کئے، اپنے ووٹرز سے ملنے کے لئے وہ کبھی ریاض تو کبھی برطانیہ تک گئے ہیں۔

میں نے ان کو فون کیا کہ آپ کی الیکشن مہم کیسی جا رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ :میں نے تو جب سے گزشتہ اسمبلی میں حلف اٹھایا تھا، اسی روز اپنی اگلی الیکشن مہم شروع کر دی تھی۔ آج بھی اگر مالاکنڈ ڈویژن کی بات کی جائے تو شفاف الیکشن کروا کر دیکھ لیں، جماعت اسلامی بڑی اکثریت سے جیت جائے گی، اب دیر کو دیکھیں، کونسلر جماعت اسلامی، تمام ناظمین جماعت اسلامی، تمام منتخب کمیٹیاں جماعت اسلامی، زکوٰۃ کمیٹی چیئرمین جماعت اسلامی، بازاروں کی یونینز جماعت اسلامی کی ہیں تو پھر بھی اگر ہم ہار گئے تو آپ کیا کہیں گے؟ میں اس لئے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں عوام سے گلہ نہیں، یہ جو arrangment کیا گیا تھا ہمیں اس پر گلہ ہے۔

الیکشن والے روز اگر الیکشن کمیشن اور تمام ادارے غیرجانبدار رہتے تھے تو اچھا ہوتا۔ تاہم میں پھر بھی یہ کہوں گا کہ ہم انسان ہیں، جس سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، لہذا ہم اپنی غلطیوں کا بھی جائزہ لیں گے، جیسے آپ بھی جانتے ہیں کہ جنگ احد کے بعد قرآن کریم نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں تبصرہ کیا ہے کہ جب نبی کریمؐ نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک ٹیم کو بیٹھایا تھا تو اسے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے تھی، لیکن ان کا خیال تھا کہ فتح ہو گئی، اس لئے نیچے اتر جانا چاہیے۔ لہذا ہم بھی اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں گے۔ لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ الیکشن میں ایک ایسا ماحول بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ہمارے راستے بند کئے گئے۔

ایکسپریس: یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ آپ کی زیر قیادت جماعت کی پالیسیاں تضادات کا شکار ہیں۔ کبھی آپ پی ٹی آئی کے ساتھ اور کبھی ن لیگ کی حکومت بچانے کے لئے مصروف رہے، پالیسی کے ان تضادات کو کیسے بیان کریں گے؟

سراج الحق: میں نے جو کام کیا، وہ ن لیگ کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے ملک کو بچانے کیا تھا، کیوں کہ میںدیکھ رہاتھا کہ اسلام آباد میں قبریں کھودنا شروع کر دی گئی ہیں اور کفن باندھنا شروع کر دئے گئے ہیں، جس کا انجام کیا تھا، یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا تھا۔ میں آپ کو بتاؤں کہ میں اور میری پارٹی سیاست میں تشدد کی قائل نہیں بلکہ ہم دلیل کے قائل ہیں، اس لئے ہمارا آج بھی وہی بیانیہ ہے، جو کل تھا کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس لئے ناکام ہو گئی ہیں کہ انہوں نے اسلامی نظام کے بجائے اپنی مرضی کا نظام لانا چاہا، اور آج بھی فرد، گھر، تعلیم، صحت، روزگار سمیت کوئی بھی مسئلہ ہو تو اس کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام میں پنہاں ہے، اب جب پی ٹی آئی نے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی بات کی تو میں نے انہیں خوش آمدید کہا، حالاں کہ جو الیکشن ہوا ہے، اس پر درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے، لوگ غصے میں ہیں، لیکن ہم نے اپنی روایات اور سوچ کے مطابق جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا ہے۔

ایکسپریس: ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی بدترین شکست کی ایک بہت بڑی وجہ ایم ایم اے شمولیت تھی۔ ایم ایم اے کی وجہ سے جماعت اسلامی کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوا، کیا کہیں گے؟

سراج الحق: (ہنستے ہوئے) اگر ہم الیکشن میں زیادہ سیٹیں نکال لیتے تو آپ کہتے کہ اتحاد بہت اچھا تھا اور اگر نہیں جیت سکے تو یہ سوال کر دیا ہے، لہذا میں کہنا چاہوںگا کہ الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، جب دو پہلوان لڑتے ہیں تو کسی ایک کو شکست اور دوسرے کو جیت ملتی ہی ہے۔دوسرا میری خواہش تھی کہ مذہبی ووٹ تقسیم نہ ہو، اس لئے ہم نے متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ فارم چنا۔

ایکسپریس:اطلاعات کے مطابق جماعت کے اندر یہ سوچ دوبارہ غالب آ رہی ہے کہ اس موجودہ گندے نظام سے کنارہ کشی اختیار کرکے صرف اصلاح معاشرہ پر توجہ مرکوز کی جائے، جس میں کامیابی پر دوبارہ اصلاحی انتخابی نظام کی طرف لوٹنا چاہیے؟ کیا ایسا کچھ ہے؟

سراج الحق: دیکھیں! سیاست کی اصلاح کے بغیر ہم اسلامی معاشرت قائم نہیں کر سکتے اور اب معاشرے کو چھوڑ کر کسی گوشے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرکے اسلام کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے، ہمارے نبی کریمؐ شہر کو چھوڑ کر غار نہیں گئے بلکہ وہ غار سے شہر کی طرف آئے، جہاں انہوں نے دعوت کا کام کیا، پتھر برداشت کئے، ہجرت کی اور اپنی بے مثال جدوجہد سے ایک اسلامی نظام دنیا کو دینے میں کامیاب ہو گئے، انشاء اللہ ہم گلی کوچوں، چوکوں چوراہوں میں رہیں گے اور کام کریں گے، دوبارہ اپنی صفوں کو درست کرکے وہی کام کریں گے، جو ہمارے نبیؐ نے ہمارے لئے چنا تھا، ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ ہم اخلاص نیت سے عوامی اصلاح و فلاح، اسلامی نظام کے لئے کام کر رہے ہیں، مخلوق خدا کی بھلائی اس کام میں ہے۔

اب یہ کام میں ایک سو سال کروں یا ایک ہزار سال کروں، میں کامیاب ہوں، معاملہ تو نیت کا ہے اور اگر میری نیت ٹھیک نہیں ہے تو میں اس راستے میں مر بھی جاؤں تو ناکام ہوں، اور اگر میری نیت ٹھیک ہے تو میرا ہر سانس، لمحہ، لفظ اور قدم کامیابی کا باعث ہے، اس لئے الحمداللہ میری پوری جماعت کا اس پر یقین ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش ہے۔ ٹھیک ہے! الیکشن کا رزلٹ آج ہمارے حق میں نہیں آیا تو ہم الیکشن سسٹم کی اصلاح کرنے کی بھی کوشش کریں گے، کیوں کہ یہ ضروری امر ہے، باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے، ہم تھکے نہیں اور نہ ہی مایوس ہوئے ہیں، ہم پرعزم ہیں۔

ایکسپریس: امیر بننے کے بعد آپ نے جماعت کے لئے وہ ایسا کون سا کام کیا، جس سے تنظیمی معاملات میں بہتری آئی، یا وہ کام جو آپ کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن ہو نہیں رہا؟

سراج الحق: میں یہی چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی میں ایسی وسعت آ جائے کہ عام لوگ اس میں شمولیت اختیار کر کے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کریں۔

ایکسپریس:دنیا کی اقدار اور ترجیحات بدل رہی ہیں، کوئی بھی ملک دنیا سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن پاک انڈیا ہمسائے ہو کر بھی ایک دوسرے سے سات سمندر دور ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھارت میں شیوسینا اور پاکستان میں جماعت اسلامی کو قرار دیا جاتا ہے، آپ کیا کہیں گے؟ پھر کشمیر کا مسئلہ بھی ہے، جو آج تک صرف پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے حل نہیں ہو پا رہا؟

سراج الحق: بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی اور کشمیر کا ہے، اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے، کشمیریوں کو وہ حقوق مل جائیں، جو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، سوائے بھارت کے، تو ہم بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے مخالف نہیں ہیں اور اگر وہ ہماری شہ رگ پر قبضہ کرکے قتل عام کر رہا ہو اور ہمارا پانی بند کر رکھا اور یہاں دہشت گرد بھیج رہا ہو تو ایسے میں ہم ان کے ساتھ آلو ٹماٹر کی تجارت کریں تو یہ درست نہیں۔

ایکسپریس: جناب! دہشت گردی کے حوالے سے تو بھارت کا بھی یہی موقف ہے کہ پاکستان ان کے دیس میں اپنے بندے بھیج کر دہشت گردی کرواتا ہے؟

سراج الحق: کلبھوشن کون ہے؟ اور وہ آج کس کی جیل میں ہے؟ تو ہم تو ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں کہ بھارت یہاں دہشت گردی کروا رہا ہے اور ان کے پاس سوائے الزام تراشیوں کے کچھ بھی نہیں۔

ایکسپریس: آپ نے مسئلہ کشمیر کی بات کی تو یہ مسئلہ تب ہی حل ہو گا جب ڈائیلاگ ہو گا اور ڈائیلاگ کے لئے تعلقات کا بحال ہونا ضروری ہے؟

سراج الحق: ہم ڈائیلاگ کے مخالف نہیں، مسئلہ کشمیر پر اگر ڈائیلاگ ہو تو ہم اس کی حمایت کریں گے، لیکن اگر یہ ڈائیلاگ آلو، ٹماٹر کے لئے ہونا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، اور اس ڈائیلاگ میں کشمیری ایک اہم فریق کی حیثیت سے موجود ہوں۔

ایکسپریس: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے، آزاد کشمیر کے اندر پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور پاکستانی کلچر کو بھجوا کر ہم نے انڈیا کو یہ موقع دیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آئینی تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے؟

سراج الحق: بھارت تو پہلے ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے اور تھا، ان کی 8 لاکھ فوج وہاں کیا کر رہی ہے؟ جو ہر گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی ہے۔

ایکسپریس: ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ کشمیر کو آزادی کا ایک بیس کیمپ ہی رہنے دیا جاتا؟ ہماری سیاسی جماعتیں وہاں نہ بنتیں بلکہ مقامی سطح پر ہی جماعتیں بنائی جاتیں، کیوں کہ اس سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آئینی اقدامات کرتے ہوئے مشکل پیش آتی۔

سراج الحق: میں نے شروع میں عرض کیا کہ کشمیر میں موجود جماعت اسلامی کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، وہ بالکل آزاد ہے، لیکن اگر وہاں کوئی تنظیم یا فرد مجھے پسند کرتا ہے تو آپ اسے ایسا کرنے سے منع نہیں کر سکتے۔ اس لئے باقی لوگوں کو بھی یہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ پہلے سے موجود تاثر زائل ہو سکے۔ دیکھیں! ہم تو اس لمحے کے منتظر ہیں جب مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے لوگ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔

ایکسپریس: اچھا! ایک معاملہ یہ ہے کہ اگر یہاں سے آزادی کشمیر کی تحریک کو بھرپور سپورٹ ملی تو وہاں کے لوگ کچھ غیر معمولی نہ کر سکے اور جب وہاں تحریک نے زور پکڑا تو پاکستان میں حالات ایسے تھے کہ وہ کشمیریوں کو پوری طرح سپورٹ نہیں کر سکا۔

سراج الحق: میں یہ مانتا ہوں کہ جب کشمیری اٹھتے ہیں، ، لڑتے ہیں، مرتے ہیں، آواز بلند کرتے ہیں تو پاکستان اپنی سپورٹ کا وہ حق ادا نہیں کر پاتا، جو اسے کرنا چاہیے، جس وجہ سے انہیں ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے۔ اور ہم ہمیشہ اپنی حکومتوں سے اسی معاملہ پر لڑتے آ رہے ہیں کہ کشمیری جب مرتے وقت اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے تو پھر آپ کو بھی یہ کہنا چاہیے کہ کشمیری ہمارے ہیں اور ہم ان کے ہیں۔

ایکسپریس: خطے کی بدلتی صورتحال خصوصاً کشمیر کے حوالے سے آپ کو آئندہ پاکستان کا کیا کردار نظر آ رہا ہے؟ دوسرا ایک طرف امریکا بہادر بھارت کو خطے کی تھانیداری سونپنا چاہ رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان نے چین کے بعد اب روس سے بھی اپنے تعلقات بحال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

سراج الحق: پہلی بات تو یہ ہے کہ چائنا اگرچہ پاکستان کا دوست ہے، لیکن دوستی میں بھی ملکی مفادات کو ضرور مدنظر رکھا جاتا ہے، ملکوں کے درمیان دوستیاں الفاظ کی حد تک ہوتی ہیں، اصل چیز مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، چین کو اگر آپ کے ساتھ دوستی میں اپنا مفاد نظر نہ آئے تو وہ ایک دن کے لئے بھی آپ کے ساتھ کھڑا نہ ہو۔ لہذا ملکوںکے درمیان دوستی کا معیار وہ نہیں ہوتا، جو دو افراد میں ہوتا ہے۔ تاہم چین کے اس کردار کو ہم ہمیشہ پسند کرتے ہیں، جو وہ کشمیر کے معاملہ پر ہمارا ساتھ دیتا ہے اور دوسری طرف پاکستان نے بھی تو چین کے جغرافیائی کا ہمیشہ تحفظ کیا اور انہیں سپورٹ کیا ہے۔

زندگی میں صبر اور قناعت ماں کیوجہ سے ہے

میری ماں کی مجھ سے اور میری ان سے محبت کا رشتہ کبھی نہیں بھلایا جا سکا،ہر ہر لمحے اور قدم پر پر میری ماں نے میری تربیت کی ہے، ابھی حال ہی میں، میں آپ کو بتاؤں کہ 25 جولائی کی رات کو جب ہم الیکشن ہار گئے تو گھر سے نکل کر جب میں مردان پہنچا تو میری ماں کو محسوس ہوا کہ میں کچھ پریشان ہوں تو انہوں نے مجھے فون کیا اور پشتو میں کہا کہ ’’ اگر آپ حق پر ہیں تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے‘‘ میری ماں کی اس بات نے میرا حوصلے کو کوہ ہمالیہ پر پہنچا دیا، تو عرض یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں، لیکن ان کے ایک فقرے نے مجھے چٹان کی طرح مضبوط کر دیا۔ میری زندگی میںجو صبر اور قناعت ہے وہ میری ماں نے ہی دیا ہے، پھر میری تربیت کے لئے انہوں نے مجھے مارا بھی بہت ہے بلکہ ایک بار تو مجھے اتنا مارا کہ ان کی کلائی میں موچ آ گئی، کئی روز وہ اپنے بازو پر رومال باندھ کر پھرتی رہیں۔

میٹرک تک 9 سکول، گریجوایشن تک 3 کالج تبدیل کئے

آپ کی طرح میرا بچپن بھی پاکستان میں گزرا اور ظاہر ہے انسان بچپن ماں کی گود میں گزارتا ہے۔ پڑھنے لکھے کا یہ عالم تھا کہ سکول میں داخلے کے بعد میٹرک تک 9 سکول تبدیل کرنے پڑے، اسی طرح میٹرک کے بعد گریجویشن تک 3 کالجز تبدیل کرنے پڑے، پھر پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دوران طالب علمی آٹھویں جماعت میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگیا، جس کے بعد پہلے اپنے ضلع، ڈویژن، صوبے اور پھر پورے پاکستان میں جمعیت کی ذمہ داری نبھائیں۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے بعد 1991ء سے جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ اپنے لوکل یونٹ میں کام کیا، اس کے بعد صوبے میں سیکرٹری جنرل، پھرصوبائی امیر اور بعدازں نائب امیر جماعت بنادیا گیا۔ اس کے بعد اگست 2014ء میں جماعت اسلامی نے مجھے امیر بننے کے قابل سمجھا تو مجھے یہ ذمہ داریاں سونپ دی گئیں، جو آج تک نبھا رہا ہوں۔ میرے 7 بچے ہیں، جن میں سے 4 بیٹیاں اور 3 بیٹے ہیں، اور یہ سب کے سب ابھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

فٹ بال پسندیدہ کھیل، خواہش کے باوجود بھی کبھی کوئی فلم نہیں دیکھ سکا

میرا پسندیدہ کھیل فٹبال ہے، جو میں نے خود بھی بہت کھیلا ہے، خاص طور پر سکول میں فٹ بال بہت کھیلا اور میرا یہ ارادہ ہے کہ اگر مجھے کبھی قدرت نے موقع دیا تو میں اس کھیل کے فروغ کے لئے ضرور کچھ کروں گا، کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ فٹ بال کے لئے کچھ کرنا اس کا میرا اوپر حق ہے۔ اگر آپ کرکٹ کی بات کریں تو مجھے شاہد خان آفریدی بہت پسند ہے۔

پسندیدہ فلم کے سوال پر ہنستے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ ہوا کچھ یوں کہ میں پچپن سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گیا اور خواہش کے باوجود میں کوئی فلم نہیں دیکھ سکا۔ اچھا جہاں تک بات ڈراموں کی ہے تو 1986ء میں پی ٹی وی پر نسیم حجازی کے لکھے ڈرامے آتے تھے، جن میں سے ایک آخری چٹان تھا جو میں دیکھا اور مجھے بہت پسند بھی آیا، تو اپنی زندگی میں میں نے وہی ڈرامہ دیکھا اور یہ ڈرامہ مجھے اتنا پسند تھا کہ میں دورے چھوڑ کر اس رات ڈرامہ دیکھنے کے لئے واپس اپنے علاقے میں آجاتا تھا۔

پسندیدہ سیاست دان کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کو کسی ایک آدمی کی کوئی ایک خوبی پسند ہو سکتی ہے تو دوسری عادت ناپسند بھی ہو سکتی ہے، اس لئے میں اس ضمن میں، میں کسی ایک شخص کا نام نہیں لے سکتا سوائے ایک ہستی کے، جس کی ہر ادا آپ کو پسند آتی ہے اور مجھے بھی پسند ہے اور وہ ہستی جناب رسول اللہؐ ہیں۔ باقی کسی کی آپ کو خاکساری پسند آئے گی تو کسی کی اصول پسندی پسند آئے گی۔ اچھا! جہاں تک بہت زیادہ کام کرنے کے بعد خود کو ریلیکس کرنے یا فارغ وقت کی بات ہے تو آج کل میری ریلیکسیشن کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے میری چھوٹی بیٹی فاطمہ، میں جتنا بھی تھکا ہوا ہوں، اس کے ساتھ کھیل کر بالکل ریلیکس ہو جاتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔