پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے دوارے پر!

سید عاصم محمود  اتوار 26 اگست 2018
معیشت کی بحالی نئی حکومت کا سب سے بڑا امتحان بن گیا۔ فوٹو: فائل

معیشت کی بحالی نئی حکومت کا سب سے بڑا امتحان بن گیا۔ فوٹو: فائل

’’ملک و قوم کی سلامتی وبقا کا راز مضبوط معیشت  میں پوشیدہ ہے۔‘‘(چینی فلسفی،کنفیوشس)

یہ 1991ء کی بات ہے، بھارت کے حکمران طبقے کی بدانتظامی کے باعث قومی خزانے میں بہت کم ڈالر رہ گئے، اتنے کم کہ بیرونی ممالک سے ضروری اشیاء خریدنا مشکل ہوگیا۔ اس صورت حال نے بھارتی حکمرانوں کو مجبور کردیا کہ وہ قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف سے رجوع کریں۔ قرض کی رقم ڈالر کے قومی ذخائر بڑھانے میں کام آنی تھی۔ بھارتی حکمرانوں کو آئی ایم ایف کے پاس 67 ٹن سونا رہن رکھوانا پڑا، تب انہیں دو ارب بیس کروڑ ڈالر ملے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا کیونکہ بھارتی حکمرانوں کو اس عالمی ادارے کی ہدایات پر عمل کرنا پڑا۔ بعض ایسی تلخ ہدایات تھیں جن پر بھارتی حکمران عمل نہیں کرنا چاہتے تھے مگر بہ حیثیت مقروض ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور مجبوراً انہیں آئی ایم ایف کی ہدایات تسلیم کرنا پڑیں۔

بھارت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جلد ہی اسے ایک تجربے کار، محب وطن، دیانتدار اور اہل وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی صورت میں مل گیا۔ ڈاکٹر من موہن نے مملکت کے معاشی نظام کی خرابیاں دور کیں اور موزوں اصلاحات متعارف کرائیں تاکہ قومی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔ ان کی سعی و کوشش کامیاب رہی اور بھارتی معیشت ترقی کرنے لگی۔ 2009ء میں بازی پلٹ گئی جب بھارت نے آئی ایم ایف سے 200 ٹن سونا خرید ا اور یوں سونے کے اپنے ذخائر میں اضافہ کرلیا۔

پاکستان کی بدقسمتی کے پچھلے اکہتر برس میں اسے اہل و باصلاحیت حکمران طبقہ اور وزیر خزانہ نہیں مل سکا۔ یہی وجہ ہے، پاکستان اب تک صرف ایک عالمی مالیتی ادارے، آئی ایم ایف سے اکیس بار قرضے لے چکا مگر اس کی قومی معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوا بلکہ حالت مزید بگڑگئی۔ بھارت نے محض ایک بار آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور اپنی معیشت کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔ آج بنیادی طور پر بھارت نے پاکستان کو اسی لیے پیچھے چھوڑ دیا کہ اس کی معیشت ہماری نسبت بہت زیادہ طاقتور ہوچکی۔ ایک زمانے میں پاکستانی روپیہ بھارتی روپے سے زیادہ قدر رکھتا تھا، آج ایک بھارتی روپے کے بدلے صرف 57 پاکستانی پیسے ملتے ہیں۔

یہ سچائی ہمارے حکمرانوں کے لیے وجہِ شرمندگی و رسوائی کی حیثیت رکھتی ہے۔وطن عزیز کی معیشت ترقی کیوں نہ کرسکی؟ یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس درکار نہیں! پاکستان کے تقریباً اکیس کروڑ لوگوں میں سے صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ (ان میں سے بھی اکثریت پورا ٹیکس نہیں دیتی اور کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار جاتی ہے)۔ امیر پاکستانی اس لیے ٹیکس نہیں دیتے کہ انہیں اپنے حکمرانوں پر اعتماد نہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی رقم حکمرانوں کے اللے تللوں پر خرچ ہوتی یا کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔

سرکاری خزانہ میں رقم نہ ہونے کے باعث حکمران مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں تاکہ کاروبار مملکت چلاسکیں۔ ان قرضوں کی مجموعی رقم تقریباً ’’27 ہزار ارب روپے‘‘ تک پہنچ چکی۔17ہزار ارب روپے تو مقامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے،بقیہ قرضہ عالمی اداروں کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے حکمران طبقے کو قرضے لے کر ملک چلانے کی لت پڑچکی۔ وہ اپنے قومی وسائل سے خزانہ بھرنے کی سعی ہی نہیں کرتا۔ نتیجتاً آج جو پاکستانی بچہ جنم لے، وہ دنیا میں قدم دھرتے ہی تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض بن جاتا ہے۔

گویا حکمرانوں کی غلطیوں اور عیاشیوں اور امیر طبقوں کی خود غرضی و بے حسی کا خمیازہ پاکستان کی آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔مثال کے طور پر پچھلی ن لیگی حکومت کی کارکردگی دیکھ لیجیے۔ جب 2013ء میں یہ حکومت برسر اقتدار آئی، تو پاکستان پر 53.4 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ تھا۔ اپنے پانچ سالہ ادوار میں ن لیگی حکومت نے 42.6 ارب ڈالر کے قرضے لے کر پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس حکومت کے دور میں نئی شاہراہیں، سڑکیں اور پل ضرور بنے۔ بجلی گھر بھی تعمیر ہوئے مگر یہ ساری ترقی قرضوں کی رقم سے انجام پائی…سوال یہ ہے کہ ایسی ترقی کس کام کی جو ملک کو قرضوں کے خوفناک جال میں جکڑ دے؟

عالمی و مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کی چلن کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے کہ ان قرضوں کا بھاری بھرکم سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ہمارے حکمران مسلسل نئے قرضے لے رہے ہیں لہٰذا سود کی رقم میں بھی متواتر اضافہ ہورہا ہے۔ غرض ہمارے نااہل حکمرانوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو قرض و سود کے ایسے شیطانی چکر میں گرفتار کروا دیا ہے جس سے رہائی پانا کٹھن مرحلہ بن چکا۔

عمران خان کی نئی حکومت کے سامنے معیشت کی بحالی ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ملک کا خزانہ خالی ہے۔ قرضوں کی رقم سے کاروبار مملکت چل رہا ہے جبکہ عمران خان پاکستانی معاشرے کو مدینہ منورہ کی فلاحی مملکت کی طرز پر ڈھالنا چاہتے ہیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنے وسائل سے آمدن بڑھائے اور قرضوں پر انحصار کم سے کم کردے۔نئی حکومت کو پورا معاشی نظام بدلنا ہو گا کیونکہ مروجہ نظام تو بری طرح ناکام ہو چکا۔یہ یقینی ہے کہ معاشی حالات درست کرنے کی خاطر عمران خان حکومت کو بعض ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے جو شاید مہنگائی میں مزید اضافہ کردیں۔ ایسی صورت میں حکومت کو عوامی اشتعال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔عام لوگ نئی حکومت سے کئی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ عوام الناس کی سب سے بڑی توقع تو یہی ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریات قیمتیں کم ہوں اور مہنگائی میں کمی آئے ۔

نئی حکومت کو فوری معاشی مسائل سے نمٹنے کی خاطر ڈالر درکار ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ستائیس سال پہلے کے بھارت کی طرح پاکستان کے پاس بھی ڈالر بہت کم رہ گئے ہیں۔ اب پاکستانی حکومت کو بیرون ممالک سے ضروری اشیا خریدنے کے لیے بھی ڈالروں کی کمی کا سامنا ہے۔ لہٰذا ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ عمران خان حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے دس تا بارہ ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑے گا۔

یاد رہے، دنیا بھر میں سبھی حکومتیں عالمی و مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتی ہیں۔ گویا قرضے لینا کوئی اچھوتا فعل نہیں لیکن بیشتر حکومتیں قرضوں کی رقم سے اپنی معیشت کو بہتر بناتی ہیں اور قرضے عوام کی فلاح و بہبود پر کام آتے ہیں۔ پاکستان میں الٹا حساب ہے… حکمرانوں نے قرضے لے لے کر کاروبار مملکت چلانا معمول بنالیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اپنے وسائل سے سرکاری آمدن میں اضافہ کرنا ذہنی اور جسمانی طور پر محنت طلب کام ہے۔ لہٰذا ہمارے حکمران آسان راہ اختیار کرتے ہیں یعنی قرضے لے کر حکومت چلاتے اور اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑا لیتے ہیں۔مگر اس طرح ملک وقوم پہ قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔یہی روش برقرار رہی تو ہمیں دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان حکومت گھمبیر معاشی مسائل کیونکر حل کرتی ہے۔ فی الحال تو اسے ڈالروں کے قومی ذخائر بڑھانے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ آئی ایم ایف، چین یا دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے سے قرضہ لے سکتی ہے۔سعودی عرب کی ایما پہ اسلامی ترقیاتی بینک نئی حکومت کو چار ارب ڈالر کا قرض دینے کو تیار ہے۔اس بار اگرچہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنا آسان نہیں رہا۔ امریکا کا صدر ٹرمپ چین اور دیگر مخالف ملکوں سے تجارتی جنگ چھیڑچکا اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ایک دوسرے پر نت نئے تجارتی ٹیکس لگا رہی ہیں۔ امریکا پاکستان میں جاری چین کے سی پیک منصوبے کا مخالف ہے۔ لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ آئی ایم ایف کے ڈالر اس چینی منصوبے کی تکمیل میں کام آئیں۔ چونکہ آئی ایم ایف میں امریکی حکومت اور اس کے حلیفوں کی اجارہ داری ہے لہٰذا وہ پاکستان کو قرضہ دینے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

دوسرا نکتہ یہ کہ آئی ایم ایف قرضہ سخت شرائط پہ فراہم کرتا ہے۔نیز وہ پاکستانی حکومت کو ہدایات جاری کرنے لگتا ہے۔ خاص طور پر وہ عوام الناس پر نت نئے ٹیکس لگواتا ہے۔ نیز پرانے ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھوا دیتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت کی آمدن میں اضافہ ہو اور وہ قرضے و سود واپس کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔ لیکن اس عمل سے پاکستانی عوام مزید مہنگائی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ٹیکسوں کی شرح اور مہنگائی بڑھنے سے امراء کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی غیر معمولی آمدن یہ بوجھ باآسانی سہار لیتی ہے۔تیسری بات یہ کہ پاکستان کو قرضے دینے والے آئی ایم ایف ، دیگر عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستانی حکمران قرضوں کے بوجھ تلے دبی قومی معیشت کو تندرست کرنے کی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ قرضے بس معیشت کے نیم مردہ لاشے میں نئی جان ڈال دیتے ہیں۔ جب قرضوں کی بدولت ملی آکسیجن ختم ہونے لگے، تو معیشت پھر نیم مردہ ہونے لگتی ہے۔ چناں چہ نئے قرضے لے کر پھر اسے نیا خون دیا جاتا ہے۔ اس روش نے پاکستانی معیشت کو قرضوں کا نشئی بنا دیا ہے۔ ہیروئن کے عادی کی طرح اب اسے بھی قرضوں کی طلب رہتی ہے۔

حل کیا ہے؟

قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے نئی حکومت کو درآمدات کم کرنا ہوگی۔ یوں امریکی ڈالر کا ریٹ بھی نیچے آئے گا۔ نیز پاکستان کا ڈالر پر انحصار کم ہوگا۔ پاکستان فی الوقت تیل (کل درآمدات کا 24 فیصد)، مشینری بشمول کمپیوٹر (12 فیصد)، بجلی کے آلات (8.3 فیصد)، لوہا اور اسٹیل (6 فیصد)، گاڑیاں (4.6 فیصد)، نامیاتی کیمیکل (4.1 فیصد)، کھانے کا تیل (4.1 فیصد)، پلاسٹک اشیا (4 فیصد) وغیرہ بیرون ممالک سے خرید رہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں ان اشیا اور سازوسامان کے کارخانے لگوانے میں صنعت کاروں کی مدد کرے جو باہر سے آتا ہے۔ ان کارخانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ تیل و گیس پر سب سے زیادہ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت کرے۔ کوئلے کے ذخائر کو قابل استعمال بنائے۔ اس طرح غیر ملکی تیل پر ہمارا انحصار کم ہوگا۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان بیرون ممالک سے سامان خوردونوش خریدنے پر بھی اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ زراعت کو ترقی دے اور کسانوںکو مراعات فراہم کرے۔ انہیں مشورے دیئے جائیں کہ کھانے کا تیل بنانے والی فصلیں مثلاً سورج رکھی، کنولا، پام، مونگ پھلی، سویابین وغیرہ اگائیں۔ اس طرح کھانے کا تیل باہر سے نہیں منگوانا پڑے گا۔تازہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان بیرون ممالک سے 60.86 ارب ڈالر کا سامان خریدتا ہے۔ جب کہ صرف 23.2 ارب ڈالر کا سامان برآمدکررہا ہے۔ گویا غیر ملکی تجارت میں پاکستان کو سالانہ 37.66 ارب ڈالر کا خسارہ ہورہا ہے۔ یہ خسارہ اسی صورت کم ہوسکتا ہے کہ درآمدات کم کی جائیں جبکہ برآمدات میں اصافہ کیا جائے۔خاص طور پہ پُر تعیش اشیا کی درامد تو کم سے کم کرنا ہو گی۔مارکیٹوں میں درامد شدہ پھل و سبزیاں ہزاروں روپے میں دستیاب ہیں۔کیا ہم جیسا غریب ملک انھیں منگوانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

پاکستان کی معیشت بحال کرنا مشکل نہیں، شرط یہ ہے کہ پاک وطن کو اہل، دیانت دار، باصلاحیت اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار قیادت مل جائے۔ اب نئی حکومت سے ملک و قوم کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے ’’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیں۔‘‘ اگر حکومت سے لے کر ہر پاکستانی شہری اس مقولے پر عمل کرے اور آمدن کے مطابق اخراجات کرے تو تھوڑی سی مدت میں ملک عزیز کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ یاد رکھیے، ہم مسلسل قرضے لیتے رہے، تو ایک دن قرضوں کا پہاڑ خاکم بدہن ملک و قوم کی سلامتی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔