حکومت نئی، مسائل پرانے…

ناصر الدین محمود  جمعـء 24 مئ 2013

نومنتخب حکمران جن حالات میں عنان اقتدار سنبھالنے جارہے ہیں وہ بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ ملک کو مختلف النوع کے سنگین بحران اور چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں توانائی کا بدترین بحران، امن وامان کی تشویشناک حد تک ابتر صورتحال، دم توڑتی ہوئی معیشت اورخوفناک دہشت گردی جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ اس پس منظر میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور مستقبل کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی حکومت کے ابتدائی سو دنوں کی ترجیحات پر مشتمل 10 نکاتی ایجنڈا تیار کیا ہے جس  کا اعلان وہ وزیر اعظم کا حلف لینے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں کریں گے۔

11 مئی انتخابات میں عوام نے جس طرح واضح اکثریت سے مسلم لیگ (ن) کو کامیاب کروایا ہے وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ عوام تبدیلی کے نعرے سے متاثر ضرور ہوئے ہیں لیکن انھوں نے سیاسی طور پر تجربہ کار قیادت پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔

ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس کی گزشتہ پانچ سالہ خراب کارکردگی کی وجہ سے مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی پر اس کے پورے دورے حکومت میں بدترطرز حکمرانی، مسائل کے حل میں ناکامی، لوڈ شیڈنگ، غربت، مہنگائی، بیروزگاری میں بے پناہ اضافہ اور سرکاری اداروں کی کرپشن میں کئی گنا  اضافہ کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج 1997ء کی طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر صرف سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی کامیابی حاصل نہ کرنا پی پی کے لیے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کے سنجیدہ حلقوں کو حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہیے۔

انھیں پارٹی کی ناکامی کے اسباب کا بھی بھرپور جائزہ لینا چاہیے اور ساتھ ہی اس کے ازالے کے لیے موثر حکمت عملی بھی اختیار کی جانی چاہیے کیونکہ پیپلز پارٹی کی ناکامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلاء اگر غیر سیاسی اور غیر جمہوری جماعتوں نے پُر  کیا تو یہ امر خود ملک کی جمہوریت پسند عوام کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ لہٰذا اب جب کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر جمہوریت پر یقین رکھنے والی ایک جماعت حزب اقتدار میں آچکی ہے تو ضروری ہے کہ حزب اختلاف میں بیٹھنے والی جماعت بھی  جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھے تاکہ ملک میں پروان چڑھنے والا جمہوری کلچر اپنی جڑیں مزید مستحکم کرسکے۔

11 مئی کے انتخابات میں جہاں عوام نے پیپلز پارٹی کی سابقہ کارکردگی پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب کی حکومت کی کارکردگی کو سراہا ہے وہیں نواز شریف کی قیادت پر بھی انھوں نے اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر پہلے سے بڑھ کر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی وضع کرے کہ ملک کو درپیش سنگین مسائل بتدریج حل ہوسکیں۔ زیادہ تر مسائل ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں ۔ معاشی خوشحالی کا تعلق صنعتی ترقی کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہے۔ صنعتی ترقی کا براہ راست تعلق امن وامان کی بہتر صورتحال اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے ساتھ  ہے۔ یعنی حکومت کو ملک کی خراب معاشی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے پہلے مرحلے پر توانائی کے بحران کا خاتمہ کرنا ہوگا اور دوئم امن  و امان کی صورتحال کو کسی بھی قیمت پر بہتر اور مستحکم کرنا ہوگا۔

اس کے بغیر غیر ملکی سرمایہ کار توکیا ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ حکومت کو سرکاری اداروں کی بے جامداخلت کو بھی روکنا ہوگا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سرمایہ کاروں کو اتنی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ ایک طرف اپنے ملازمین کا بدترین استحصال شروع کردیں تو دوسری طرف حکومت کو  مکمل طور پر ٹیکس ادا نہ کرکے ریاست کو مالی نقصان پہنچانے کا موجب بنیں۔ بینکوں کی کنزیومر فنانسنگ کی اسکیموں پر کچھ عرصہ کے لیے پابندی عائد کی  جانی چاہیے بینکوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرضہ صنعتوں کے قیام یا اس کی جدید کاری کے لیے دیں تاکہ ملک میں بڑے پیمانے پر صنعتیں قائم ہوں، معاشرے میں پھیلی ہوئی بیروزگاری اور غربت میں کمی آئے اور مقامی پیداوار کے نتیجے میں اشیاء سستے داموں فروخت ہوں اور مہنگائی میں کمی  پیدا ہوسکے اور پیداواری عمل کے نتیجہ میں حکومت کو مختلف مدوں میں ٹیکس حاصل ہوں تاکہ ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاسکیں اور ہمارے ملکی قرضوں میں کمی واقع ہوسکے۔

میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اتنے بڑے چیلنجز کے ساتھ  قائم ہونے جارہی ہے۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو اپنی ذمے داریوں کا پوری طرح احساس بھی ہے  اور انھیں انتخابی مہم کے دوران قوم سے کیے گئے اپنے تمام وعدے یاد بھی ہیں جن کی تکمیل کا وہ بار بار اعادہ بھی کررہے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ میاں محمد نواز شریف اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے وعدوں کو ضرور پورا کریں گے اور پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ تاہم یہ کام اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھاجائے تاکہ ادارے مضبوط ہوں۔ یاد رہے کہ رہنما وژن اور ادارے ان کے وژن کو عملی شکل دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔