ایک ماں کی کہانی

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 26 مئ 2013
الزبتھ میری نے شوہر کے گزرجانے کے بعد کٹھنائیوں بھری راہ پر طویل سفر کیا۔ فوٹو: فائل

الزبتھ میری نے شوہر کے گزرجانے کے بعد کٹھنائیوں بھری راہ پر طویل سفر کیا۔ فوٹو: فائل

دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ چا ہے وہ کسی بھی رنگ و نسل، مذہب و ملت اور قوم قبیلے سے ہوں۔

میرا تو یہی تجربہ ہے، آپ کا نہیں جانتا۔ وہ بھی ایسی ہی ہیں، بس ایک ماں۔ شفیق، مہرباں اور ہم درد۔ ہر ایک لیے چشم براہ اور سب کی فلاح سوچنے والی، انتہائی متحرک، سچ کو اپنا راستہ بنانے والی اور عزم، حوصلے اور ہمت سے اس راہ کی مسافر۔ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا، ہاں کوئی بھی۔ مسکرا کر بات کرنے، اور لوگوں کے دکھ درد توجہ سے سن کر بے چین ہوجانے والی اور انہیں دلاسا دیتی ہوئی ماں۔ ہر ماں ایسی ہی ہوتی ہے، کہ خدا نے اپنی تخلیق کو دنیا میں لانے کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے۔ اسی لیے خدا نے جنت کو ماں کے قدموں تلے بچھایا ہے۔ کتنا کرب، دکھ اور درد سہہ کر وہ خلق خدا کو پالتی پوستی اور راتیں جاگ کر انہیں راحت و سکون پہنچاتی ہے۔ ماں کا دل خدا کا عظیم تحفہ ہے جو کہ سب کے لیے دھڑکتا ہے۔ اس کی دعائیں مقبولیت کی سند لیے ہوئی ہیں۔ مسز ولیم بھی ایک ایسی ہی ماں ہیں۔ ہمت، حوصلے، لگن اور جہد مسلسل کی داستان۔

میرا نام الزبتھ میری ہے۔ میں 1950 میں میاں چنوں میں پیدا ہوئی۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں ہمارے محلے دار تھے۔ میرے والد ایک زمین دار کے بیٹے تھے، لیکن انہوں نے اپنا پیشہ بدل لیا۔ دراصل انہیں عمارتیں بنانے کا جوانی ہی سے شوق تھا پھر یہی شوق ان کا کاروبار بن گیا اور وہ عمارت کار بن گیے۔ ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا اور وہ تقسیم کے وقت پاکستان چلے آئے تھے۔ یہ تاثر صحیح نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں نے ہجرت کی تھی، بہت سے مسیحی بھی ترکِ وطن کرکے پاکستان آگئے تھے، بلکہ تحریک پاکستان میں مسیحیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔

میرا بچپن میاںچنوں میں گزرا۔ میرے والد چوںکہ عمارتیں بناتے تھے تو انہیں مختلف علاقوں میں کام ملتا رہتا تھا۔ اس دوران انہیں میرپورخاص میں کام مل گیا تو ہم میرپورخاص چلے گئے اور مجھے سینٹ میری اسکول میں داخل کرادیا گیا، جہاں سے میں نے پانچویں جماعت پاس کی، اسی دوران والد صاحب کا کام مکمل ہوگیا تھا اور انہیں ملتان میں کام مل گیا، تو ہم ملتان چلے گئے۔ سینٹ میری اسکول کی اک شاخ ملتان میں بھی تھی، تو مجھے داخلہ بہت آسانی سے مل گیا۔ میں نے میٹرک یہیں سے پاس کیا۔

اس زمانے میں بھی یہی کہتے تھے کہ لڑکیوں سے کون سی ملازمت کرانی ہوتی ہے انہیں بس واجبی سی تعلیم دینی چاہیے۔ حالاںکہ یہ انتہائی غلط تصور ہے، جو اب بھی پایا جاتا ہے۔ میٹرک کے بعد مجھے گھر بٹھا لیا گیا۔ اس زمانے میں شادی بیاہ بھی جلد ہو جایا کرتے تھے، تو میرے تایا نے میری لیے رشتہ تلاش کرلیا۔ وہ ہمارے رشتے دار تو نہیں بس تایا کے ساتھ اچھی جان پہچان تھی۔ 1975 میری شادی مسٹر ولیم بٹ سے ہوگئی جو کیمیکل انجنیئر تھے ۔ میری شادی خاندان کی طرف سے طے شدہ تھی، لیکن ولیم بٹ بہت اچھے انسان تھے اور میرا آئیڈیل بھی۔ خداوند نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے نوازا میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

شادی کے بعد ہم کراچی آگئے کہ مسٹر ولیم یہاں کام کرتے تھے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں انہیں کام کے سلسلے میں جانا پڑتا تھا۔ پھر سعودی عرب کی ایک کمپنی میں انہیں کام مل گیا اور ہم ریاض چلے گئے۔ وہاں دو سال کا کنٹریکٹ تھا، جس کے ختم ہونے پر ہم واپس کراچی آگئے۔ بہت اچھی گزر بسر ہو رہی تھی ۔ ہمارے بچے اچھے اسکولوں میں زیرتعلیم تھے۔

حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اچھا وقت جلد ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے انسان کو برے وقت کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ میرے شوہر ایک مرتبہ کام کے سلسلے میں حیدرآباد گئے۔ وہ اپنے کام کے لیے باہر جاتے رہتے تھے۔ یہ تو معمول کی بات تھی۔ وہ حیدر آباد سے واپس آئے تو شام کا وقت تھا۔ وہ نہا دھوکر چھت پر چلے گئے، میں کھانا بنانے کے بعد چھت پر گئی تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ میری ٹانگ میں بہت درد ہورہا ہے۔ مجھے تشویش ہوئی تو ہم انہیں جناح اسپتال لے گئے۔ نصف شب کو ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں فالج ہوگیا ہے۔ مجھے بہت زیادہ پریشانی ہوئی۔ میں جناح اسپتال کے علاج سے مطمئن نہیں ہوئی اور انہیں سیونتھ ڈے اسپتال لے آئی اور ان کا بہترین علاج کرایا۔ میرے پاس پیسہ تھا، زیور تھا، ہمت تھی۔ میں نے اپنے شوہر پر سب کچھ قربان کردیا۔ وہ آہستہ آہستہ تن درست بھی ہوگئے تھے کہ ایک دن انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

اس وقت میری شادی کو13 سال اور 8 ماہ ہوئے تھے۔ میرا بڑا بیٹا 10 سال، چھوٹا 7 سال اور بیٹی 3 سال کی تھی۔ میرا جیون ساتھی مجھے چھوڑ کر خداوند کے پاس جاچکا تھا۔ ظاہر ہے پھر حالات کا مقابلہ تو مجھے ہی کرنا تھا۔ زندگی کٹھن سفر ہے، میں نے اپنے سسرال والوں سے مشورہ کیا کہ آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میں کام کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ میں اس وقت جوان تھی، ہمارے مذہب میں بھی بیوہ کو شادی کی اجازت ہے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں دوسری شادی کرتی تو سسرال والے مجھ سے میرے بچے واپس لے سکتے تھے کہ یہ ان کا خون تھا۔ پھر اگر وہ بچے لے جاتے تو وہ جس طرح چاہتے ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کرتے میں مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شادی نہیں کروں گی۔ اپنے بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پالوں گی۔ انسان ارادہ کرلے تو خداوند اس کے ارادوں میں برکت عطا فرماتا ہے۔ میں نے خداوند کا نام لے کر کام شروع کیا۔ لیکن مجھے یہ اعتراف ضرور کرنا ہے کہ میرے بھائیوں اور میرے شوہر کے باس طارق ر شید نے ہمارا بہت ساتھ دیا اور مالی مدد بھی کی۔ اسی طرح فادر جوزف پال نے بھی ہماری بہت مدد کی۔

میں نے ناظم آباد میٹرک بورڈ آفس کے قریب سینٹ جوزف اسکول میں درخواست دی اور مجھے وہاں ملازمت مل گئی۔ میں وہاں ایڈمن انچارج تھی اور میں نے وہاں 23 سال تک کام کیا ہے۔ میں نے ایمان داری، لگن اور محنت کو اپنا ہتھیار بنایا اور کام سے کبھی جی نہیں چرایا۔ اپنے دو بیٹوں کو میٹرک تک تعلیم دلوائی۔ پھر ان کا پڑھائی کی جانب رجحان نہیں تھا۔ انہوں نے کام سیکھا اور میں نے ان کی شادیاں کرائیں اور اپنا فرض ادا کیا۔ بیٹی نے بی کام کیا ہے اور وہ ملازمت کرتی ہے۔ میں نے آج تک کسی سے بھیک نہیں مانگی، ہاں قرض ضرور لیا ہے اور اسے ادا بھی کیا ہے۔ دیر سویر تو ہوجاتی ہے۔ زندگی میں آپ لاکھ اچھے منصوبے بنائیں کچھ منصوبے اوپر سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ میں بیٹوں کی تعلیم اور شادی کراچکی تھی۔ لیکن مجھے اپنی چہیتی بیٹی کی شادی تو کرنی تھی۔

میں نے اس کے لیے کچھ پیسے بھی جمع کیے ہوئے تھے کہ مجھے ہیپاٹائٹس C ہوگیا۔ یہ ایک طویل صبرآزما اور منہگا علاج ہے۔ اس طرح مجھے وہ علاج کرانا پڑا اور اس پر تقریباً 5 لاکھ روپے صرف ہوگئے جو میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے رکھے تھے، لیکن خداوند کے فضل سے اب میں بالکل تن درست ہوں، زندگی میں اکثر لوگ مجھے فرشتہ صفت ہی ملے۔ جیسے ہم جس مکان میں رہے ان کے مالکان بہت اچھے تھے، آج بھی میں جس فلیٹ میں رہتی ہوں وہ بہت اچھا فلیٹ ہے، لیکن ہمارے مالک مکان نے مجھے سستا دیا ہے اور ان کی ایک پریسٹ کی طرح عزت کرتی ہوں۔ دنیا میں اچھے برے لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ میں مسیحی ہوں لیکن مجھے ہر مسلم نے اپنا سمجھا ہے اور میں انہیں اپنا سمجھتی ہوں۔ میں نے مرد بن کر زندگی گزاری ہے اور خداوند نے میری حفاظت کی ہے۔

زندگی عجیب واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ جب میں نے اسکول کی نوکری چھوڑی تو ایک صاحب نے مجھے کہا مسز ولیم! آپ ہمارے گھر آکر رہیں، ہم آپ کو دس ہزار روپے دیں گے، میں نے پوچھا کام کیا ہوگا تو انہوں نے کہا کہ میری بیٹیوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ میں نے انکار کردیا کہ میں خود کو اس کام کا اہل نہیں پاتی۔ بیٹا! ہر ایک کے پاس موبائل فون ہے اور حالات بہت ابتر ہیں، میں کیسے کسی کی بیٹیوں کی ذمے داری سنبھال سکتی ہوں؟ پھر ایک این جی او والے آئے کہ ہمارے ساتھ کام کرو۔ میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ این جی او کام تو کچھ نہیں کرتی لیکن شور مچایا ہوا ہے کہ ہم خدمت خلق کرتے ہیں۔ تو بیٹا! اس کے باوجود کہ مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے میں نے انکار کردیا۔ جھوٹ، فریب اور دھوکے کی کمائی کیسے حلال ہوسکتی ہے۔

میں نے آج تک محنت کی ہے۔ حلال کا لقمہ کھایا ہے۔ میں حرام سے خداوند کی پناہ میں ہوں ۔ ایک مرتبہ میں گھر آرہی تھی تو چند غنڈوں نے مجھے روک کر کہا۔ اپنا سب کچھ نکال کردو۔ میں نے کہا بیٹا! یہ ٹوٹا پھوٹا موبائل ہے، اگر تمہیں اس کی ضرورت ہے تو تم رکھ لو۔ انہوں نے کہا اچھا اماں آپ جائیں۔ ایک مرتبہ میرے بیٹے کرکٹ کھیل رہے تھے وہاں سے ایک مسلم بھائی گزر رہے تھے تو گیند گندے پانی میں گرنے سے ان کے کپڑے ناپاک ہوگئے، وہ میرے گھر آئے اور بہت ناراض ہوئے کہ آپ نے اپنے بچوں کو تمیز نہیں سکھائی۔ وہ ہمارے محلے دار ہی تھے۔ میں نے ان سے کہا آپ گھر جائیے میں ابھی آتی ہوں ۔ وہ چلے گئے تو میں نے سرف لیا اور ان کے گھر پہنچ گئی ۔ ان سے معذرت کی اور کہا کہ آپ اپنے کپڑے مجھے دیجیے میں انہیں دھوکر دے دیتی ہوں۔ جھک جانا بھی تو عظمت ہے۔

میں نے 25 سال تک ایک اسکول میں کام کیا ہے۔ ہمارا ایک پٹھان چوکیدار تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ایک دن میں جانے لگی تو اس نے کہا بہن یہ سو روپے رکھ لیں، اس کا افطار خرید لینا۔ میں نے کہا بھائی! میں تو مسیحی ہوں وہ بہت حیران ہوا اور پھر اس کا معمول تھا کہ وہ مجھے ویگن میں بٹھانے آتا تھا، وہ میرا بھائی بن گیا۔ اچھے برے لوگ تو ہوتے ہی ہیں۔ میں ایک محلے میں رہتی تھی۔ وہاں ایک صاحب ہمیں بہت نیچ سمجھتے تھے، حالاں کہ انسان تو سب برابر ہیں۔ اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ کالے کو گورے پر اور گورے پر کالے کو کوئی برتری نہیں ہے۔ اگر برتری ہے تو وہ تقویٰ اور پرہیزگاری سے۔ یہ کتنا روشن اصول ہے۔ خیر وہ صاحب، جنھوں نے میرے بچوں کی شکایت کی تھی ایک دن بہت بیمار ہوگئے انہیں انجائنا ہوگیا تھا۔

ایک دن میں انہیں لے کر اسپتال گئی وہاں پر مسیحی نرسیں تھیں، میں نے کہا یہ میرا بھائی ہے اس کی خدمت کرو اور علاج بھی۔ انہوں نے ان کی بہت خدمت کی وہ تن درست ہوگئے۔ پھر انہوں نے مجھ سے معذرت بھی کی۔ دیکھو بیٹا! خدمت سے خدا ملتا ہے کسی کی برائی کا جواب اگر آپ برائی سے دیں گے تو برائی پھیلتی ہی جائے گی۔ اس لیے برائی کا جواب نیکی ہے محبت فاتح عالم ہے ناں۔ ہمارے خداوند کا حکم ہے کہ اگر کوئی تمہیں تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کردو۔ الٰہی مذہب کی تعلیمات بہت روشن ہیں۔ بس ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کوئی مسلم انتقال کرجاتا ہے تو میں وہاں تعزیت کے لیے جاتی ہوں اور وہاں عبادت و دعا بھی کرتی ہوں مجھے تو آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا، بلکہ وہ تو خوش ہوتے ہیں۔ چند ایک وحشی تو ہر جگہ ہوتے ہیں، ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ مذہب کی آڑ لے کر اپنے گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ انہیں بس درندہ سمجھنا چاہیے۔

ہمیں یہاں مکمل مذہبی آزادی ہے، مسلم بھائیوں کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ ہماری اور ہم ان کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ مذہب تو انسان کو رواداری سکھاتا ہے، جس طرح انسان کا ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اس طرح سماج بھی ہوتا ہے۔ نیکوکاروں کی تعداد بڑھے گی تو سماج بھی اچھا ہوگا۔ ہمارے سماج میں نیک لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، لوگوں میں یہ مثل و غارت گری معاشی ناہمواری کا نتیجا ہے۔ جب معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی تو لوگوں کو آسودگی چلے گی اگر بے روزگاری ہوگی تو چنگا بھلا انسان بھی درندہ بن جاتا ہے۔ بھوک ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ ہمارے سارے مسائل معیشت کی زبوں حالی کی وجہ سے ہیں۔ دیکھیے مسیحیت اور اسلام کی تعلیمات بہت زیادہ قریب ہیں۔

ایک مسلم کسی بھی مسیحی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے، اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہم صفائی پسند ہیں اور اسلام صفائی کو نصف ایمان کہتا ہے۔ اسلام اور مسیحی تعلیمات تو بہت قریب ہیں۔ ہم میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ جو مسئلہ نظر آتا ہے اس کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے۔ مجھے اپنے مسلم برادر اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ جناب حضرت عیسیٰؑ کو پیغمبر اور بائبل مقدس کو آسمانی کتاب سمجھتے ہیں۔ اسلام تو کسی کی بھی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی بھی مذہب ہو اس کی تعلیمات پر خلوص سے عمل کیا جائے اور دنیا کا کوئی بھی غریب انسان فالتو نہیں۔ انسان کے قتل اور دہشت گردی کی تعلیم قطعاً نہیں دیتا۔

میں صبح سویرے اٹھ کر عبادت کرتی ہوں۔ اپنے بچوں کے ساتھ ہر بچے کے لیے دعا کرتی ہوں۔ اپنے پیارے ملک پاکستان کے لیے تو ہر وقت کرتی ہوں۔ میں بہت اچھے کھانے بناتی ہوں، لوگوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہوں۔ مجھے خوب صورتی بہت پسند ہے۔ موسیقی سے بہت لطف اندوز ہوتی ہوں بلکہ میں خود بھی بہت اچھا گانا گاتی ہوں۔ میں کسی کے لیے بھی برا نہیں سوچتی، میری بیٹی بہت فرماںبردار اور خدمت گزار ہے، اب دعا ہے اور کوشش بھی کہ وہ ہنسی خوشی اپنے گھر کی ہوجائے۔ میرے بھائی سب اچھے اور میرا خیال رکھتے ہیں، بلکہ سارے محلے کے لوگ میرا خیال رکھتے ہیں۔ دور بہت نازک ہے، بچیوں کو بہت اچھی تعلیم دینی چاہیے کہ یہ بہت زیادہ ضروری ہے۔ ایک لڑکی کو آگے چل کر ایک خاندان کی ذمے داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں، بچیوں کو دوست بناکر رکھنا چاہیے، جس شخص نے سچ کو اپنا راستہ بنالیا وہ فلاح پاجاتا ہے۔ مسائل سے گھبرانے کے بجائے ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کا، دکھ سکھ کا نام ہے۔ آج اگر دکھ ہے تو یہ گزر ہی جائے گا، بس صبر سے، محبت سے، عزم سے اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔

اس وقت میری شادی کو13 سال اور 8 ماہ ہوئے تھے۔ میرا بڑا بیٹا 10 سال، چھوٹا 7 سال اور بیٹی 3 سال کی تھی۔ میرا جیون ساتھی مجھے چھوڑ کر خداوند کے پاس جاچکا تھا۔ ظاہر ہے پھر حالات کا مقابلہ تو مجھے ہی کرنا تھا۔ زندگی کٹھن سفر ہے، میں نے اپنے سسرال والوں سے مشورہ کیا کہ آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میں کام کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ میں اس وقت جوان تھی، ہمارے مذہب میں بھی بیوہ کو شادی کی اجازت ہے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں دوسری شادی کرتی تو سسرال والے مجھ سے میرے بچے واپس لے سکتے تھے کہ یہ ان کا خون تھا۔ پھر اگر وہ بچے لے جاتے تو وہ جس طرح چاہتے ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کرتے میں مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔