بحران بڑا یا لیڈر؟

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 23 ستمبر 2018
عالمی منظرنامے پر اس وقت موجود اہم شخصیات بڑی تبدیلیاں لانے کی اہل ہیں۔ فوٹو: فائل

عالمی منظرنامے پر اس وقت موجود اہم شخصیات بڑی تبدیلیاں لانے کی اہل ہیں۔ فوٹو: فائل

کسی شاعر کا مشہور شعر کچھ یوں ہے ( وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ) یہ حادثہ انفرادی،اجتماعی، سماجی یا قومی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے۔

سماجی علوم، سوشل سائنسز اور خصوصا سوشیا لوجی کے ماہرین اس سے اتفاق کریں گے کہ حادثہ جو تبدیلی کا عکاس بھی ہو تا ہے عموماً اور بظاہر اچانک یا ایک دم رونما ہوتا معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت میں اس کے پس منظر میں فکر و احساس اور چھوٹے بڑے واقعا ت کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔

معاشرتی، سماجی اور ارتقائی عمل جو منفی اور مثبت دونوں طرح کا ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ ہر معاشرے میں جاری و ساری رہتا ہے اور اس پر موسم، ماحولیات، قدرتی آفات بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور غیر قدرتی عوامل بھی، جہاں تک تعلق غیر قدرتی عوامل کا ہے تو یہ انسانی ہاتھوں سے اور انسانی فکر و عمل کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں ان میں جنگیں، خانہ جنگیاں، سائنسی ایجادات اور دریافتیں، ٹیکنالوجی، صنعت و تجارت ، میڈیا اور آج کے دور میں اس سے منسلک دیگر شعبے یا ادارے جیسے دنیا کا مرکزی بینکنگ سسٹم، اسٹاک ایکسچینج وغیرہ ۔ جہاں تک قدرتی عوامل اور قدرتی آفات کا تعلق ہے تو قبل از تاریخ اور تاریخ کے اعتبار سے ہمیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھنڈرات کی صورت میں ایسے آثار قدیمہ دکھائی دیتے ہیں جو قدرتی عوامل اور قدرتی آفات کے سبب تباہ ہوئے۔

انہی کھنڈرات میں بعض ایسے بھی ہیں جو غیر قدرتی عوامل جیسے جنگوں اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے برباد ہو گئے۔ جہاں تک تعلق قبل ازتاریخ کا ہے تو اس پر بھی تحقیق کر کے بہت سی قدیم تہذیبوں کی خوشحالی سے لے کر تباہی تک کے واقعات اور اسباب معلوم کئے گئے ہیں مگر ان میں ان شخصیات کے بارے میں بہت ہی کم اور مبہم انداز کی معلومات سامنے آتی ہیں جو اس تہذیبی عمل اور ارتقا کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کے حوالوں سے اہم رہی ہوں۔

تاریخی اعتبارسے جائزہ لیں تو جب سے انسان نے حروف تہجی ایجاد کئے اور لکھنا شروع کیا تو اس نے اپنی تاریخ کو تحریر کی صورت دے کر سماجی عمل اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی سماج میں ہونے والی منفی اور مثبت تبدیلوں کے ساتھ ان شخصیات کو بھی تاریخی ریکارڈ میں محفوظ کر لیا جو ان تبدیلیوں کے محرک ثابت ہوئے ۔ دنیا کے مختلف خطوں اور معاشروں میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں میں اگرچہ پورے معاشرے کے افراد کا کسی نہ کسی لحا ظ سے حصہ ہوتا ہے لیکن کوئی ایک واضح، یا نمایاں کردار ادا کرنے کی وجہ سے راہنما کہلاتا ہے، اسی راہنما ئی میں شخصیات کے حوالے سے دو شعبے اہم ہوتے ہیں۔

ایک مفکرین یا دانشوروں کا اور دوسرا ان مفکرین کے وہ نظریات جن کو عملی جامہ پہنا کر محرک شخصیت جو سماج میں عملی طور پر تبدیلی لاتی ہے اور لیڈر کہلا تی ہے، چونکہ تبدیلی کی ساری کمانڈ اس کے ہاتھ میں ہو تی ہے اس لیے مفکرین یا دانشور وں کا نام قدرے پس منظر میں رہ جاتا ہے، پھر اکثر معاشروں میں تبدیلیوں کے اعتبار سے ایک ہی دانشور یا مفکر کی بجائے وقت کے تسلسل کے لحاظ سے ایک سے زیادہ مفکرین یہ فرائض انجام دیتے ہیں اس لیے بھی مفکرین زیادہ نمایاں نہیں ہوتے، مگر انسانی تاریخ اس بات کی گواہی بھی دیتی ہے کہ کوئی مفکر بڑا انقلابی نظریہ پیش کرتا ہے جس کی بنیاد پر سماجی تبدیلی انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو پھر محرک شخصیت (لیڈر) کے ساتھ یا اس سے بھی کہیں زیادہ شہرت مفکر یا دانشور کو حاصل ہوتی ہے۔

جس کے نظریات کے سبب معاشرے میں تبدیلی کے لیے عوام کے اذہان تیار ہوئے ہوتے ہیں، انسانی تہذیبی ارتقا میں اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہی انسان پر احسان فرمایا اور اسے علم دیا اور وہ کچھ بتا یا جو وہ اس سے قبل نہیں جانتا تھا۔ یوں اللہ تعالیٰ کے پیغامات اور احکامات نبیوں اور رسولوں کے ذریعے آئے اور اس کے بعد جب یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا تو پھر دنیا میں انہی بنیادوں پر اس علم کا اعتراف کرتے اور بعض مفکرین کے حوالے سے اعتراف نہ کرتے ہوئے سماجی ارتقائی عمل کے لیے فکر و دانش کا عمل جاری رہا اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔

اس عمل میں نیکی و بدی یا مثبت اور منفی لحاظ سے دو صورتیں متوازی رہی ہیں۔ دنیا میں سادہ سما ج نے انیسویں صدی عیسوی میں سائنس و ٹیکنالوجی کو نمایاں طور پر اپنا نا شروع کیا اور یہ صورت تیز رفتاری سے مغرب خصوصاً یورپ میں سامنے آئی، اس کا تاریخی پس منظر بہت طویل ہے، یہاں صرف ایک صدی یعنی1918 سے 2018 ء تک کا جائزہ لینا مقصود ہے، اس دوران پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہوئیں، روس میں اشتراکی انقلاب آیا ، دنیا میں جنگ کے سات ساتھ امن کی کوششیں بھی ہو ئیں اور لیگ آف نیشنز ’’اقوام عالم‘‘ کے ادارے کی ناکامی کے بعد 1945 میں ’’یواین او،، اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا، پھر سرد جنگ ہوئی جس میں کوریا اور ویتنام کی جنگیں اہم رہیں۔ کیوبا میزائل بحران کی وجہ سے روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا ہوئے، عرب اسرائیل اور پاک بھارت تین تین جنگیں ہوئیں، امریکہ کے ایٹمی قوت بننے کے بعد 1964 تک روس، برطانیہ، فرانس اور چین ایٹمی قوت بنے، اس کے بعد 1998 میں بھارت اور پاکستان بھی ایٹمی قوت بن گئے۔

ایران میں انقلاب رونما ہوا، افغا نستا ن میں سابق سوویت یو نین نے جارحیت کی اور 1990ء تک نہ صرف سوویت یونین کو شکست ہوئی بلکہ خود سوویت یونین ہی ٹوٹ گئی اور عملی طور پر مشرقی یورپ سمیت تقریباً پوری دنیا ہی سے اشتراکی نظام رخصت ہوا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہوئے بس اتنا کا فی ہو گا کہ یہ کہہ دیا جائے کہ جتنے واقعات اور تبدیلیاں اس ایک صدی میں ہوئی ہیں اتنے بڑے واقعات اور تبدیلیاں پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوئیں۔ اس دور میں جو مفکرین اہم ترین رہے ان میں سے اکثر اس صدی سے چند برس قبل رہے ان میں اہم ترین کارل مارکس، ولٹیئر، روسو وغیرہ رہے۔

اور جو لیڈر سامنے آئے ان میں روس کے ولادی میر لینن، جوزف، سٹا لن، امریکہ کے صدور، وڈرو ویلسن 1913-21 ترکی کے مصطفی کمال پاشا، افغانستان کے بادشاہ غازی امان اللہ، ہندوستان کے موہن داس گاندھی اور قائد اعظم محمدعلی جناح اہم تھے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی نمایاں ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم ہی تاریخِ انسانی کا وہ اہم واقعہ ہے جب ایک جنگ نے کسی نہ کسی اعتبار سے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ اس عمل کا نتیجہ تھا جس کے آغاز میں 1492ء میں اسپین سے مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکو مت کے خاتمے کے ساتھ اسی سال امریکہ دریافت ہوا تھا اور اس کے چند برس کے اندر پوری دنیا کا مکمل نقشہ دنیا کے لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا۔

نوآبادیاتی نظام جلد عالمی تجارتی اقتصادی نظام سے مربوط ہوکر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوا۔ پھر دنیا دو گروہی اتحاد کی صورت میں واضح ہو ئی جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اول ہوئی اور اس کے اختتام پر سب سے زیادہ نقصان اسلامی ممالک کو ہوا۔ جنگ عظیم اول کے بعد سے 1945ء یعنی دوسری جنگ عظیم تک دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ایسے تھے جو آزاد کہلاتے تھے، حجاز مقدس جس کو اس لیے برائے نام آزاد رکھا گیا تھا کہ عالمی سطح پر مسلمان مشترکہ طور پر شدید ردعمل کا مظاہرہ نہ کر بیٹھیں ، افغانستان جو روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان حائل ریاست، بفر اسٹیٹ کے طور پر تھا کہ کہیں دو بڑی قوتیں براہ راست آپس میں نہ ٹکرا جائیں، اور صرف ترکی ایک ایسا اسلامی ملک تھا جس کو مصطفٰی کمال پاشا نے برطانیہ سے جنگ کے بعد آزاد کروایا تھا جو ترکی جمہوریہ اور قدرے نیشنلسٹ اور سیکو لر ملک بن گیا تھا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں تحریک خلافت، طویل جد وجہد کے بعد ہندوستان میں سیاسی سماجی لحاظ سے سبق حاصل کرکے خاموش ہوگئی تھی اور علامہ اقبال نے اس مایوس صورتحال میں دنیا کے مسلمانوں سے کہا تھا۔

اگر عثمانیوں پہ کوہ ِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

پہلی جنگ عظیم کے صرف ایک سال بعد تیسری برطا نوی افغان جنگ 1919 میں ہوئی اگرچہ یہ جنگ چند روزہ تھی مگر اس میں پہلی بارکابل پر برطانوی ہندکی فضائیہ نے بمباری کی اور جنگ کے بعد افغانستان نے نہ صرف مکمل خود مختاری حاصل کر لی بلکہ اس نے روس کی مدد سے اپنی فضائیہ بھی بنانے کا آغاز کر دیا مگر تھوڑے عرصے بعد ہی افغانستان میں برطانوی سازش کے ذریعے وہاں کے مقبول بادشاہ غازی امان اللہ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اس کے بعد 1939 تا 1945ء دوسری جنگ عظیم جاری رہی اس دوران اور اس کے فوراً بعد جو لیڈر شپ عالمی سطح پر سامنے آئی ان میں امریکی صدرو فرینک ڈی روزولیٹ، 1933-45 ہیری ایس ٹرو مین 1945-53 اسٹالن، ونسٹن چرچل، ڈیگال، قائد اعظم محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو، ماؤزے تنگ،چواین لائی اور تھوڑے عرصے بعد ملائیشیا کے تنکو عبدالرحمان، انڈونیشیا کے سکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر، چیکو سلواکیہ کے مارشل ٹیٹو شمالی کو ریا کے کم آل سنگ، اور ویتنام کے ہیوچی می شامل تھے۔ جنگ عظیم کے بعد مرحلہ وار نو آبادیاتی نظام ختم ہو رہا تھا البتہ سرد جنگ کے آغاز کے بعد ہی سے عالمی سطح پر مربوط معاشی اقتصادی نظام کا نقشہ دوسری جنگ عظیم سے دو تین سال پہلے ہی انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ ’’آئی ایم ایف‘‘ اور پھر ورلڈ بنک کی صورت میں اور سیاسی سطح پر اقوام متحدہ اور خصوصاً اس کی سکیورٹی کونسل کی تشکیل کے ساتھ 1943 تا 1945-46 بنیادی ڈھانچے کی صورت تشکیل پا چکا تھا۔ 1947ء سے پچاس کی دہائی کے وسط تک اس بدلتی ہوئی صورتحال کو مسلم دنیا میںصرف پاکستان، مصر اور انڈونیشیا، کی لیڈر شپ سمجھتی تھی۔

پاکستان میں قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علیٰ خان کی شہادت کے بعد ہماری قیادت نے اس صورتحال کے مقابلے کے بجائے مفاہمت کی پالیسیوں کو اپنا یا، قائد اعظم کو آزادی کے بعد جو پاکستان ملا اس نئی مملکت کو جہاں اقتصادی، معاشی مسائل درپیش تھے وہاں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت، بھارت کی جانب سے اثاثوں کی تقسیم اور ملک میں اعلیٰ فوجی و سول بیورو کریسی میں مسلمانوں کا کم ہونا شامل تھا مگر ان تمام مسائل کے باوجود کشمیر میں مجاہدین اور پاک فوج کی بھارت کے خلاف جنگ میں آدھا کشمیر آزاد کرانا ایک اہم ترین کارنامہ تھا۔ جنگ عظیم اول اور دوئم کا زمانہ ایسا دور ہے کہ اس میں دنیا جنگ کے نام پر عا لمی سطح پر دوگروہوں میں دو مرتبہ تقسیم ہوئی، سات کروڑ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

یہ سیاسی نوآبادیاتی نظام کے جبر کا عالمی ، علاقائی اور مقامی سطحوں پر شدید ردعمل تھا جس نے نہ صرف عالمی سطح کے اجتماعی مفادات کا ٹکراؤ پیدا کیا بلکہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں بڑی لیڈر شپ کو جنم دیا اور ان لیڈروں نے معاشروں میں اپنی ساکھ بنا کر قوم وملک پر اعتبار قائم کرکے جدوجہد کے ذریعے آزادیا ں حاصل کیں اور کہیں اپنی آزادی کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے قومی وقار کو بلند کیا، اپنی خوشحالی اور ترقی کو پائیدار بنایا۔ نظریات کی بنیادوں پر سابق سوویت یونین، چین اور پاکستان اہم تھے اور قائد اعظم اس لحاظ سے منفرد تھے کہ انہوں نہ صرف دو قومی نظریے کے ساتھ 1916ء کے میثا ق لکھنو میں ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کی جلد اور یقینی آزادی کا قابل عمل فارمولہ دیا اور جب اس پر کانگریس کی بد نیتی کو بھانپ لیا تو 1940ء کی قرارداد ِ پاکستان کے صرف سات سال کے اندر پاکستان قائم کر کے دکھا دیا۔

جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کی دوسر ی دہائی تک بیشتر ملکوں میں جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی لیڈر شپ رہی تھی، البتہ اس دور میں امریکہ کے جان ایف کینڈی اہم ترین رہے مگر تیسری دہائی میں جب سرد جنگ عروج پر پہنچی تو اس میں سوویت یونین کے خروشیف، برزنیف،کوسیگن، امریکہ کے صدور ، رچرڈ نکسن، جیرالڈ فورڈ اور جمی کارٹر اہم رہے جب کہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا میں جو لیڈر شپ ابھری وہ بہت اہم تھی، ان میں پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو، سعودی عرب کے شاہ فیصل، شام کے صدر اسد، لیبیا کے صدر کرنل معمر قدافی، عراق کے صدر صدام ، افغانستان کے صدر داؤد، ایران کے امام خمینی اہم تھے۔ قائد اعظم کے بعد آج کے پاکستان میں سب سے زیادہ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی تبدیلیاں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں اور ان تبدیلیوں کے اثرات کسی نہ کسی حوالے سے پوری دنیا پر بھی مرتب ہو ئے جس طرح پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں روس، اسلامی دنیا اور امریکہ میں منفی اور مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں۔ اسی طرح کی صورتحال 1971 سے 1981 تک رہی۔

1971ء کی پاک بھارت جنگ نے بھارت سوویت یونین اتحاد پر چین، امریکہ اور پاکستان مختلف انداز سے مستقبل قریب کی پالیسیوں، منصوبہ بندیوں اور حکمت عملیوں کو ترتیب دینے لگے۔ اس صورتحال میں قدرے مختلف پہلوؤں سے اُس وقت اضافہ ہوا جب 1973ء کی تیسری عرب اسرئیل جنگ ہو ئی۔ ان دونوں جنگوں سے اسلامی ممالک میں امریکہ اور سوویت یونین سے تعلقات کے لحاظ سے اعتماد و اعتبار میں کمی واقع ہوئی جس کے ردعمل میں 1974ء میں پہلی بار بار مقصد اور قدرے حقیقی اتحاد کی صورت مسلم ممالک میں پیدا ہوئی اور اس کا فائدہ بھٹو نے حاصل کیا اور لاہور میں کامیاب اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کرائی، بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کی۔

پاکستان کو دولت مشترکہ سے نکال لیا، انہوں نے ایک جانب امریکہ اور برطانیہ سے باوقار اندازمیں تعلقات قائم کئے تو ساتھ ہی ان کو سیاسی اور عسکری قوت کے لحاظ سے متوازن رکھنے کے لیے چین اور سوویت یونین سے بھی تعلقات استوار کئے، عرب اور خلیجی ممالک سے بہتر تعلقات اور دوستی کی وجہ سے جب ان ملکوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہو تو پاکستان سے تقریباً 35 لاکھ افراد ان خلیجی ریاستوں اورعرب ملکوں میں گئے جہاں انہوں نے جب مستقل بنیادوں پر کروڑوں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھیجنا شروع کیا تو اس کی وجہ سے ملک اور معاشرے کے بہت سے شعبوں میں واضح انداز میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک جانب تو پاکستان مالی اور اقتصادی اعتبار سے خصوصاً امریکہ اور مغربی ملکوں کے دباؤ سے کا فی حد تک آزاد ہو گا تو دوسری جانب پاکستانی معاشرے میں جہاں صنعتی اور زرعی اصلاحات سے طبقاتی طور پر ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی تھی وہاں جب ہمارے دیہی علاقوں سے لاکھوں نوجوان روز گار کے لیے عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں گئے تو وہاں ان کی آمدنیاں ملک میں اجرت کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ تھیں اور یوں جن کو صدیوں سے کمی کمین یعنی کمتر کہا جاتا تھا ان لوگوں نے محنت نہ کرنے والے بڑے اور درمیانے درجے کے زمینداروں کے گھروں کے سامنے بڑے اور پختہ مکانات بنائے۔

یوں یہ تبدیلی سماجی ، سیاسی اور اقتصادی تبدیلی تھی جس کا مضبوط اور پائیدار تسلسل بدقسمتی سے جاری نہ رہا بلکہ معاشر ے میں آبادی اور سماجی ساخت میں منفی تبدیلیوں کا سلسلہ اسی کی دہائی سے شروع ہو گیا جس کی وجہ سے خصوصاً جب سردجنگ کے اختتام 1990ء کے گیا رہ سال بعد نئی طرز کی جنگ شروع ہوئی جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ اس دوران خصوصاً اسلامی دنیا کے بہت سے ممالک امریکہ اور دیگر ممالک کے زیرِعتاب رہے، اس دوران تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں اور معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یوں پاکستان پر بھی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا اور بد قسمتی سے ملک میں کرپشن کسی وبا کے انداز میں شدت اور تیز رفتاری سے بڑھی اور اس کی وجہ سے ملک بحران کا شکار ہوا اور وقت کے ساتھ اس دو پہلوہی بحران میں میڈیا وار یا پروپیگنڈے سے پاکستانی عوام میں مایوسی بڑھنے لگی۔

یہ صورت 2006-07 سے بڑھتی ہوئی 2014 تک رہی مگر اس کے بعد پاکستانی فوج نے آپریشنوں کے ذریعے اس دہشت گردی کی جنگ کے خلاف غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس دوران جب2007 ء دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مرکز اور صوبہ سندھ میں برسر اقتدار آئی تو اس کے ساتھ ہی ملک میں جمہوری عمل شروع ہوا اور بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں جو میثاق جمہوریت طے پایا تھا پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت ملک کے صدر آصف علی زرداری نے اس معاہدے کی پاسداری کی۔ باوجود اسکے کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے ان پر اور پیپلز پارٹی کی حکومت اور ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر پیپلز پارٹی نے اس دوران پارلیمنٹ سے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کروا لی اور پھر باوجود اس ترمیم اور مسلم لیگ ن سے مفاہمت کے پی پی پی 2013 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن سے شکست کھا گئی مگر اس دوران طویل عرصے بعد ملک میں ایک تیسری قوت پاکستان تحریک انصاف نہ صرف میدان عمل میں آئی بلکہ اس جماعت نے ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لیے نو جوانوں کو اپنی جانب کھینچا۔

پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ ن کے بعد مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ لیئے تھے مگر قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں پیپلز پارٹی سے کچھ کم تھیں اور پنجاب میں قومی اور صوبائی حلقوں میں اکثر حلقوں میں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی ۔

ان انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے انتخابات میں مسلم لیگ ن پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے اور احتجاجی تحریک شروع کی گئی جو کسی نہ کسی اعتبار سے 2018 کے انتخابات تک جاری رہی۔ اس دوران جب عالمی سطح پر پا نامہ لیک سامنے آئیں تو شریف خاندان پر اربوں ڈالر کی کرپشن اور ان رقوم کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات شروع ہوئے تو دوسری جانب 2008 سے 2018 تک قائم رہنے والی گذشتہ دونوں حکومتوں کی داخلی اور خارجہ پالیسیاں ہی ناکام نہیں رہیں بلکہ نواز حکومت نے تو اقتصادی بحران کے دوران اداروں کے درمیان تصادم کی پالیسی کو اختیار کرکے اپنے اقتدار اور اپنے اور اپنے خاندان کو مقدمات سے بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور یوں ملک انتہائی شدید نوعیت کے سیاسی و اقتصادی بحران کا شکار ہوا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا سیاسی اقتصادی بحران ہے۔

پہلا بحران قیام پاکستان کے ساتھ ہی نمودار ہوا تھا جب کانگریس اور انگریزوں کی کو شش تھی کہ پاکستان کی نئی ریاست ناکام ہو جائے جس کو قائد اعظم نے باوجود جسمانی ناتوانی کے اپنی زندگی کے آخری ایک سال میں90% کم کردیا تھا، دوسرا بحران زیادہ شدید تھا جب 16 دسمبر1971ء کو ملک دولخت ہو گیا تھا اور آج کے پاکستان کا بھی تقریباً پانچ ہزار مربع میل رقبہ بھارت کے قبضے میں تھا، بھارت کے پاس نوے ہزار جنگی قیدی تھے اور پاکستان کے خزانے میں سر کاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی صرف تین مہینوں کی رقم تھی، 20 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو صدر مملکت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے حوالے کر دیا تو ان کی ساکھ عوام میں بطور ایماندار محب وطن اور ذہین لیڈر کے بہت مستحکم تھی اور عالمی سطح پر خصوصاً اُن کی خارجہ پالیسی اور حکمت عملی کو دشمن بھی تسلیم کرتے تھے اور اپنی ان صلاحیتوں کو انہوں نے بطور وزیر خارجہ دنیا سے منوایا تھا۔

یہ حیرت انگیز حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی ان خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر صرف دو برسوں میں ملک کو سیاسی و اقتصادی بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کردیا، آج پاکستان اپنی 71 سالہ تاریخ کے تیسرے اور بڑے بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس میں بھی ملک کو اپنی سالمیت،کے ساتھ اقتصادی، سیاسی، خارجی اور دفاعی مسائل کا سامنا ہے۔ 1947-48 میں اس وقت دنیا کا نوآبادیاتی نظام ختم ہونا شروع ہی ہوا تھا اور چین جیسے ملک سمیت دنیا کے تقریباً 70 سے زیادہ ملک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال وغیرہ کی نو آبادیات سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے تھے اس لیے قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کو امریکہ کی جانب جھکنا پڑا، مگر بھٹو نے1962ء کی بھارت چین جنگ کے بعد ہی چین سے تعلقات کو بہتر کرنے کی حکمت عملی سے صدر ایوب خان کو آگاہ کرتے ہوئے امریکہ کے مقابلے ایک توازن قائم کر نے کی کامیاب کوشش کی تھی اور بعد میں اس صورتحال میں مزید بہتری آتی رہی۔دسمبر 1971ء کے دوسرے بحران میں جس میں ملک دو لخت بھی ہو گیا بھٹو نے کامیابی سے ملک کو باہر نکال لیا تھا۔

اب اس تیسرے بحران میں اگرچہ مسائل تقریباً وہی ہیں یعنی اقتصادی، سیاسی، خارجی اور دفاعی مگر آج دنیا کی صورتحال بہت بدل چکی ہے اب سرد جنگ کے بعد کی جنگ جس کو نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کی جنگ کا نام دیا گیا ہے اس جنگ کو بھی اب 17 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کو اب تک کامیابی یا کامیابی کی وہ سطح حاصل نہیں ہوئی ہے جو اسے پہلی ، دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد سرد جنگ کے اختتام 1990 تک حاصل ہوئی۔ اب امریکہ کے مقابلے میں اس جنگ کے حوالے سے پراکسی لڑائیاں جاری ہیں جو مجموعی طور پر سرد جنگ کی طرح ہی عالمی سطح پر لڑی جانے والی جنگ ہے۔ اب اس جنگ میں بھارت ، چین ، ایران ، روس، امریکہ اور دوسرے ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی اس جنگ کا دورانیہ غالباً امریکہ کے مقرر ہ وقت سے زیادہ ہو چکا ہے اور جب جنگ طویل ہو جائے تو اس کے اخراجات کو طویل مدت تک برداشت کرنا عوام کو طویل مدت تک خصوصاً جارحانہ انداز کی جنگ میں شامل رکھنا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔

دفاعی جنگ دشمن کی جانب سے مسلط کی جاتی ہے اور کو ئی بھی قوم اپنے وطن کے دفاع کے لیے یہ جنگ لڑتی رہتی ہے مگر اگر کوئی قوم کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جنگ لڑے تو پھر طویل مدت تک قوم کو اس جنگ میں شامل رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، اس کا تلخ تجربہ امریکہ کو ویتنام کی جنگ میں ہو چکا ہے اور اگر حالات افغانستان میں زیادہ خراب ہوتے ہیں تو شائد امریکہ افغانستان میں مزید ٹھہر نہ سکے، اور اب یہاں مستقبل قریب میں ایسے حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں، اس وقت پاکستان، چین، روس اور بہت سے ممالک یہ چاہتے ہیں کہ اب یہ مسائل بات چیت کی بنیادوں پر حل کر لیئے جائیں، لیکن اگر امریکہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو پھر حالات انسانی تصور سے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔

اس وقت عمران کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی حکومت جس نے ابھی ایک ماہ کی مدت پوری نہیں کی ہے ان بیرونی محاذوں پر ماضی کے مقابلے میں باوجود گمبھیر اقتصادی بحران کے اصولی موقف پر ٹھہری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اندرونی مسائل اور ان مسائل کے حل کے لیے کئے جانے والے وعدوں کا بوجھ بھی پی ٹی آئی پر ہے مگر ایک چیز جو ملک کی تاریخ میں تیسر ی مرتبہ کسی قیادت کو حاصل ہے وہ عمران خان سے نوجوان نسل کا عشق کی حد تک لگاؤ ہے اور کروڑوں افراد فی الحال عمران خان سے جذباتی انداز میں پیار کرتے ہوئے اِ ن کی شخصیت پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔

ان سے قبل یہ اعزاز قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل رہا اور ان دونوں قومی ہیروز نے قوم و ملک سے مثالی وفا کی اور قوم کی محبت اور اعتماد کا بھرم قائم رکھا، ان تینوں شخصیات سے قوم کی محبت اور اعتماد کی بنیادی وجہ ان کا ایماندار ہو نا اور اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کسی قوت کے آگے نہ جھکنا ہے۔

اب اگر قائد اعظم اور بھٹو کے ادوار میں بااثر عالمی شخصیات اور اس عہد میں ان کے کردار کو مدنظر رکھیں، جس کا مختصراً جائزہ لیا جا چکا ہے تو آج صورتحال بہت نازک اور دلچسپ بھی ہے، اگر چہ 1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے آج 2018 ء میںدہشت گردی کے خلاف جنگ تک بنیادی چیزیں یا مسائل وہی ہیں جنہوں نے سوسال پہلے عالمی سطح پر اس وقت کی دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کو متاثر کیا تھا۔ دنیا کے وسائل اور دولت پر قبضہ اور اقتصادی طور پر اجارہ داری پہلی جنگ عظیم میں اس عالمی طرز عمل کے نتیجے میں اشتراکیت نے جنم لیا، دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا مگر اقتصادی نوآبادیاتی نظام سرد جنگ کے ساتھ پھیلنے لگا، 1990 میں جس سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا اس میں اشتراکیت کو شکست ہو ئی اور وہ دنیا سے تقریباً ختم ہو گئی۔

اِ س کے بعد سے جو جنگ جاری ہے اُسے پروپیگنڈ ے کے اعتبار سے عالمی قوتیں کوئی بھی نام دے کر ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات لگاتی ہیں، اب اس جنگ کو اعلانیہ طور پر 17 سال مکمل ہو چکے ہیں، پہلی جنگ عظیم کے 21 سال بعد دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور چھ برس میں ختم ہو گئی اس کے بعد سرد جنگ شروع ہوئی جس نے 45 برس کی مدت لی، یہ اس لحاظ سے واقعی سرد جنگ تھی کہ اس کا میدان ترقی پزیر ممالک تھے رفتار اور شدت کم تھی اس لیے اس جنگ کے خاتمے پر ہی سابق اشتراکی ممالک دو چار سال کے لیے اقتصادی بحران کا شکار ہو ئے، لیکن یہ جنگ جس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔

یہ آج تک کی دنیا میں ہو نے والی تمام جنگوں سے مختلف ہے اس کے فریقین اعلانیہ طور پر دنیا کے سامنے نہیں ہیں، یہ جنگ ملکوں کی سرحدوں کی بجائے عموماً ان کے شہروں میں پراکسی انداز میں جاری ہے لیکن سرد جنگ کے برعکس دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے اقتصادی بحرانوں میں اضافہ ہوا ہے اس کی ایک وجہ تو بڑی قوتوں خصوصاً امریکہ کی جانب سے بعض ملکوں پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ عالمی اقتصادی پابندیاں ہیں اور دوسری اہم وجہ اُن ملکوں میں جہاں دہشت گردی ہے دہشت گردی سے سہم کر سرمایہ اور سرمایہ کار سکڑتا رہا ہے یا وہاں سے ہجرت کرتا رہا ہے، یوں عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے سکڑنے یا بہت کم مدت میں ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہونے کی وجہ سے بھی سیاسی،اقتصادی، تجارتی اور سب سے اہم پیداواری مسائل پوری دنیا میں شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور یہی عالمی ردعمل ہے کہ اب دنیا کے اہم ممالک میں پہلی دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے خاتمے کی طرح کی لیڈر شپ عالمی سیاسی منظر نامہ پر نمودار ہو تی دکھائی دے رہی ہے۔

جو امید افزا بھی ہے اور خطرناک بھی۔ امید افزا یوں ہے کہ اب ایک جانب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی کوششیں ماضی کے مقابلے میں بہت تیز ہو گئیں ہیں اور امریکہ اور نیٹو ممالک کے حاکمانہ طرز عمل کو بھی ترقی پذیر ممالک نے دلائل اور توجیہات کی بنیاد پر چیلنج کر دیا ہے اگر چہ فی الحال امریکہ اور مغربی ممالک نے اپنی عالمی اقتصا دی برتری اور قوت سے ا سے دبانے کی کوشش کی ہے جس کی واضح مثال ترکی کی کرنسی کی قدر کو گرانا اور ایران پر شدید اقتصادی پابندیوں کا دوبارہ نافذ ہونا اور اپنے معاہدوں سے یک طرفہ طور پر مکر جانا، اور پاکستان کے کولیشن سپورٹ فنڈز کے 80 کروڑ ڈالر کا روک لینا ہے، اس صورتحال میںخصوصاً اگر امریکہ کا جائزہ لیا جائے تو سرد جنگ کی کامیابی میں رونالڈ ریگن اہم رہے اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکی صدور بش سینئر اور جو نیئر دونوں اہم رہے، مگر آج شائد دنیا کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس وقت امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ وہ 14 جون 1946ء کی پیدائش کے مطابق 72 سال کے ہیں۔

ان کی اہلیہ میلانیا ان کے مقابلے میں48 برس کی ہیں ان کی شادی 13 سال پہلے ہو ئی تھی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس 3.1 ارب ڈالر کی دولت ہے اور یہی ان کی شہرت کی وجوہات ہیں، صدر ٹرمپ کے بعد اب عمران خان کے بطور اہم لیڈر اس عہد ے کے دوسرے رہنماؤں سے موازانہ کریں تو اہم ترین ولادی میر پوٹن ہیں جو7 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے، ان کی عمر 66 سال ہے وہ بھی اسپورٹس مین ہیں اور جوڈو کراٹے میں بلیک بیلٹ ہیں وہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے اہم عہدیدار تھے وہ گذشتہ اٹھارہ برسوں سے روس میں برسراقتدار ہیں۔ اس بار مارچ 2018 میں پو ٹن 76% ووٹ لے کر دوبارہ 2024 تک روس کے صدر منتخب ہوئے ہیں، اور مشرق وسطیٰ ، ایران ، ترکی، سینٹرل ایشیا اور افغانستان کی صورتحال پر ان کے کردار اور روس کی پالیسی نے انہیں دنیا کا ایک اہم لیڈر بنا دیا ہے۔

اسی طرح چین جو آج دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے یہاں شی جنگ پینگ صدر ہیں اور وہ بھی دوبارہ منتخب ہوئے ہیں، وہ 15 جون 1953 کو پیدا ہوئے اور اس وقت ان کی عمر 65 سال ہے اور اس وقت وہ نہ صرف چین جیسے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑے ملک کے سربراہ ہیں جو اب اقتصادی استحکام کے بعد عالمی سطح پر دفاعی اعتبارسے بھی ایک بڑی قوت بن رہا ہے اور اس وقت اس کے تابناک مستقبل کی ضمانت دنیا کے بیشتر ماہرین دے رہے ہیں ۔ ملائشیا کے سربراہ مہاتیر محمد کا ذکر یہاں اس لیے ضروری ہے کہ وہ طویل عرصے تک ملائشیا کے سربراہ رہنے کے بعد ازخود اقتدار سے دستبردار ہو گئے تھے، مگر ان کے بعد کی لیڈرشپ نے کرپشن سے ملک کی ترقی کو متاثر کیا تو وہ حال ہی میں دوبارہ برسرِ اقتدار آئے اور ملائشیا کی معیشت کو دوبارہ سنبھالا۔ مہاتر محمد 1925 میں پیدا ہوئے ان کی عمر اس وقت 93 سال ہے۔

وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تقریباً ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ دنیا کے اہم ماہر معاشیات تصور کئے جاتے ہیں اور ایک بار پھر ملائشیا کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسلامی قوت اور دوستی کے علاوہ مجموعی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کی خصوصی اہمیت رہی ہے اور گذشتہ دو برسوں سے سعودی عرب میں بھی اقتدار میں تبدیلی کے ساتھ بنیادی طور پر ان کی پالیسیوں میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے اور داخلی طور پر بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان برسر اقتدار ہیں اور بادشاہ کے ساتھ شہزاد ہ سلمان بہت اہم ہیں، بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی عمر 83 سال ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان جو31 اگست 1985 کو پیداہوئے تھے۔

اس وقت 32 سال کے ہیںاور یہ امید ہے کہ وہ مستقبل میں طویل عرصے تک حکمرانی کریں گے۔ اِ س وقت سعودی عرب یمن جنگ کے حوالے سے فیصلہ کن موقف اختیار کرچکا ہے، اور یہاں امن، یمن میں ایسی حکومت کے قیام پر ہی قائم ہوتا نظر آتا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو مستقبل میں کسی طرح کی کو ئی پریشانی یا اندیشہ نہ ہو، اسی صورتحال پر وہ ہمسایہ ملک قطر سے بھی اختلافات رکھتے ہیں، اندرونی طور پر شہزادہ محمد بن سلمان نے کر پشن کے خلاف کاروائیاں کی ہیں اور سابق شاہی اور اہم عہدیداروں سے اربوں ڈالر کی رقوم واپس لی ہیں، پاکستان کے سعودی عرب سے مراسم دفاعی اعتبار سے بھی بہت اہم ہیں۔

ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور گذشتہ دس برسوں میں دونوں ملکو ں کے درمیان بعض امور پر ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی دکھائی دی، چین ، روس، ملائیشیا ، سعودی عرب کی طرح ایران میں بھی سیاسی قیادت مستحکم نظر آتی ہے۔ یہاں صدر حسن روحانی گذشتہ سال منتخب ہوئے ہیں، وہ 12 دسمبر 1948 کو پیدا ہوئے اور اس وقت ان کی عمر 69 سال ہے، وہ سابق اعلیٰ فوجی افسر رہے، ایران، عراق جنگ میں انہوں نے شجاعت کی بنیاد پر ایرانی فوج کے اعلیٰ ایوارڈ حاصل کئے، 1989 میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے ریٹائر ہو کر پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے اور اب ایران کے ساتویں اور مقبول صدر ہیں، لیکن بھارت اور افغانستان جن سے پاکستان کے مسائل طے پانے ہیں یہاں کی قیادت کو جلد انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تاریخ پیدائش 17 ستمبر 1950 ہے یعنی وہ اس وقت 68 سال کے ہیں، گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں انہوں نے دو بنیادوں پر شہرت حاصل کی، ایک مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے انہیں دہشت گرد کہا گیا، دوئم یہ کہ انہوں نے صوبہ میں بے مثال ترقیاتی کام کئے، تقریباً ڈیڑھ لاکھ ڈیلے ایکشن ڈیم بنا کر نہ صرف زیرِزمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو دوبارہ مستحکم کردیا بلکہ یہاں پائیدار خوشحالی اور ترقی کی بنیاد رکھی مگر ان کے عہد میں کشمیری تحریکِ آزادی میں ماضی کے مقابلے میں بہت تیزی اور شدت آگئی اور اب خود بھارتی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، مودی کو آئندہ سال انتخابات کا سامنا ہے۔

اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بحالی پاکستان میں مداخلت اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے مودی تیار ہوتے ہیں یا انتخابات کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں لیکن یہاں خطے میں بدلتی صورتحال بھی اہم ہے، افغان صدر اشرف غنی جو21 ستمبر 2014 کو بہت متنازعہ صورتحال میں صدر منتخب ہوئے تھے آئندہ سال ان کو بھی دوبارہ انتخابات کا سامنا ہوگا، ان کو افغانستان میں نہ صرف اندرونی و بیرونی شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے بلکہ ان کے ہاں کرپشن اور دہشت گردی میں کمی کی بجائے اٖضافہ ہوا ہے، اس پورے تناظر میں دیکھیں تو عمران خان جو 5 اکتوبر 1952 کو پیدا ہوئے اور ابھی 66 برس کے ہیں، عالمی شہرت یا فتہ کرکٹر اور سوشل ورکر ہیں، سماجی خدمات اور کرکٹ میں مثالی کارکردگی کے بعد میدانِ سیاست میں آئے اور ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر اس وقت ملک کے مقبول لیڈر کے طور پر وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، ان کو پاکستان کے گمبھیر اقتصادی مسائل کے ساتھ اندرونی طور پر بہت مضبوط حزب اختلاف اور طاقتور بیوروکریسی کا مقابلہ بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستانی سماج میں اِن کی مقبولیت ایماندار، مستقل مزاج ، باہمت اور ا نسان دوست کی حیثیت سے اسی انتہا پر دکھائی دیتی ہے جو پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو نصیب ہوئی تھی، البتہ اب عمران خان کو بطو ر اہم سیاسی لیڈر اپنے آپ کو منوانا ہے، بھٹو کے مقابلے میں ان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دینا کی ساتویں ایٹمی قوت کے وزیر اعظم ہیں مگر بھٹو نے جس طرح اقتدار میں آتے ہی ملک کے گمبھیر مسائل کو بہتر خارجہ تعلقات کی بنیاد پر حل کیا تھا وہ عمران خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، بھٹو کو سرد جنگ کے اس وقت کے تناظر میں دنیا کے دو قوتی اور قدرے متوازن منظر نامے اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا اور انہوں نے ایک تیسرا اسلامی بلاک بنانے کی کو شش کی تھی۔

جس سے پاکستان کو اقتصا دی طور پر بہت فائدہ پہنچا تھا، بھٹو دور میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر صاحبزادہ یعقوب خان تھے جب کہ وزارتِ خارجہ کا قلمدان خود بھٹو نے اپنے پاس رکھ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ ان کی خارجہ پالیسی ملک کی تاریخ کی بہترین خارجہ پالیسی تھی، اگرچہ شاہ محمود قریشی بطور وزیر خارجہ بہترین انتخاب ہیں اور اس وقت بہتر یہ ہے کہ فوج اور جمہوری حکومت دونوں میں خارجہ ،داخلہ اور دفاعی امور کے اعتبار سے ہم آہنگی اور مشاورت کی بنیاد پر مستحکم منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کی یکساں سوچ کی عکاسی بھی ہو تو دوسری جانب اب نائن الیون کو 17 سال ہو چکے ہیں اور افغانستان میں اب بھی ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں اور یہاں امن کی بحالی جس کا دعویٰ امریکہ نے کیا تھا باوجود لاکھوں جانوں کے ضیاع کے پورا نہیں ہو سکا، عمران خان نے ایران، سعودی عرب کے درمیان امن کے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کا کہا ہے، بھارت سے مذاکرات اور خطے میں امن کی بحالی پر زور دیا ہے اور بھارت پر زور دیا ہے کہ اگر وہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو وہ دو قدم آگے آئیں گے۔

افغانستان کے امن کو نہ صرف افغانستان کے لیے ضروری قرار دیا ہے بلکہ اس کو پاکستان کے امن اور ترقی کے لیے بھی اہم قراردیا ہے، ان تمام امور میں امریکی تعلقات مرکزی اور بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، اور عمران خان کو اقتدار میں آتے ہی اس چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ امریکی صدر پہلے آئی ایم ایف سے پاکستان کے قرضے کی مخالفت کر چکے اور اب جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو اور جنرل 5 ستمبر کو اسلام آباد آرہے تھے تودو روز قبل امریکہ نے سپورٹ فنڈز کے 30 کروڑ ڈالر روک لئے ہیں اس سے قبل 50 کروڑ ڈالر چند ماہ پہلے روکے تھے۔

اس کے باوجود عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باوقار انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا ہے،7 ستمبر کی شام وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خصوصاً بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیمز بنانے اور قرضوں کی واپسی کے لیے امداد کر یں اور ڈالر بھیجیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کی بطور لیڈر ساکھ کتنی مضبوط ہے اس کا اندازہ چند دنوں میں اس وقت ہو جائے گا جب ان کی اپیل کے ردعمل پر قوم ان کی اور نئے پاکستان کی مدد کرکے اس کی تعمیر نو کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔