وکلا کی ٹارگٹ کلنگ اور ہڑتالیں

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  منگل 4 جون 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

پرویز حکومت سے شروع ہونے والا ٹارگٹ کلنگ کا لامتناہی سلسلہ آج بھی جاری ہے اور مزید سائنٹیفک انداز اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کبھی شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے تو کبھی ڈاکٹر اور وکلا کی ٹارگٹ کلنگ بڑھ جاتی ہے۔ 2007 میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع ہونے کے بعد سے وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں سیکڑوں وکلا، ان کے رشتے دار اور کلائنٹس تک اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ میں وکلا کی ہلاکتوں کی شرح دیگر پیشہ ور افراد کی ٹارگٹ کلنگ سے زیادہ ہے۔ جس کے رد عمل میں وکلا تنظیموں کی جانب سے ہڑتالوں کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے، جس سے سائلین اور عوام الناس کے ساتھ خود وکلا کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔

توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کے پس پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ ذاتی دشمنیوں، کلائنٹس کے عتاب یا سیاسی، مذہبی و لسانی وابستگیاں تو پہلے بھی موجود تھیں اس وقت ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا؟ پرویز مشرف کے آمرانہ حکومتی اقدامات کے خلاف جب وکلا تنظیموں نے آئین کی بالادستی، عدلیہ کے تحفظ اور آزادی اور گڈگورننس کی بحالی کی جدوجہد کا آغاز کیا تو ایک طرف تو ان کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور دوسری جانب وکلا تنظیموں کے انتخابات میں حکومتی عناصر کی کھلی مداخلت دیکھنے میں آئی جس کے تحت حکومت نے من پسند نتائج کے لیے عہدوں، نوازشات اور پیسے کے بے دریغ استعمال کی نئی روایت ڈالی اور اس پر اربوں روپے خرچ کیے، حکومت وکلا اور ان کی تنظیموں کو تقسیم کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ جس کا اظہار بعض معاملات پر وکلا نمایندوں کے احتجاج کے موقعوں پر ہوتا ہے۔

حکومت کی مفاہمت پالیسی بھی ٹارگٹ کلنگ کی بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے عمل، ردعمل اور سیاسی، لسانی و مذہبی جماعتوں میں مسلح گروہ رکھنے اور ٹارگٹ کلنگ کلرز کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کے بدلے میں ایک دوسرے کے قاتلوں کو نظرانداز کرنے کی روایت پڑ چکی ہے جب ٹارگٹ کلنگ حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وزیر داخلہ یا صدر کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیا جاتا ہے، تمام اتحادی اور متحارب جماعتیں اس میں شرکت کرتی ہیں، کچھ اعلانات اور فری ہینڈ دینے کی باتیں ہوتی ہیں اس کے بعد ایسے واقعات میں وقتی طور پر کمی آ جاتی ہے۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ ٹارگٹ کلنگ پر خاموشی سے نئی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گی بے چہرہ قاتلوں کو سب جانتے ہیں سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ذمے داریاں نبھائی جائیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کون کس کو کس لیے مار رہا ہے، قاتل کہاں سے آتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں؟ لیکن ایک تو پولیس کو خود تحفظ حاصل نہیں ہے دوسرے اس کی تمام تر کوششیں سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔

اپنے فرائض کی ادائیگی میں سیکڑوں پولیس اہلکار بھی دہشت گردی کا نشانہ بن کر اپنے اہل خانہ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے؟ جہاں بھائی بھائی کے اور باپ بیٹے کے قاتل کو محض اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان و مال کے خوف سے شناخت کرنے سے انکار کر دے اور یہ قاتل چند دنوں یا چند ہفتوں میں تھانوں، جیلوں اور عدالتوں سے Re-Charge ہو کر نت نئی توانائیوں کے ساتھ پھر قتل و غارت گری کرنے میں آزاد گھوم رہے ہوں۔ عدالتوں کی بارہا تنبیہہ کے باوجود پولیس چالان، شہادتیں اور رپورٹس پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے جس کا تمام تر فائدہ مجرموں کو پہنچتا ہے اور زیادہ تر چالان اے کلاس ہو جاتے ہیں جن میں کوئی شہادت نہیں ہوتی۔

آج کل تفتیش و تحقیق کی جدید سہولیات، لیبارٹریز، ویڈیو کلپس، جگہ جگہ ویڈیو کیمرے اور ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں کا جال بچھا ہوا ہے، پھر اس قسم کی وارداتیں ہونا اور مجرموں کا کیفر کردار تک نہ پہنچنا قابل غور ہے۔ اس منظم قسم کی اور خاص تناسب سے ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں جن میں چار چار بھائیوں، باپ، چچا، بھتیجے اور معصوم بچوں تک کا قتل کسی انتقامی شخص یا چھوٹے موٹے گروہ کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ بعض موقعوں پر ایجنسیوں کے بندھے ہاتھوں کا مظاہرہ منظر عام پر بھی آ جاتا ہے۔ سندھ سیکریٹریٹ کے نزدیک قتل ہونے والے باپ، چچا اور بھتیجے پر فائرنگ کرنے والے موٹر سائیکل سوار واردات کے دوران سڑک پر گر گئے تھے لیکن موٹرسائیکل اٹھا کر فرار ہو گئے، عینی شاہدین کے مطابق جائے واردات کے بالکل نزدیک ہی پولیس اور رینجرز موجود تھے لیکن انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ ایسے واقعات حکومت کی نا اہلی بلکہ مجرموں کی پشت پناہی ثابت کرتے ہیں۔

وکلا تو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے کسی بھی فرد کو قانونی معاونت فراہم کرتے ہیں، ایک مجرم یا ملزم شخص کو بھی قانون اور شرعاً اپنے دفاع کا حق دیتے ہیں ہاں اگر کوئی وکیل کسی مجرم کو تحفظ دینے کے لیے غیر قانونی یا غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے تو وہ یقیناً قابل مذمت ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ منفی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ وکلا مجرموں کو آزاد کراتے ہیں، وکلا اور ان کی تنظیموں کو یہ تاثر زائل کرنا چاہیے۔ اپنے احتجاج کے دوران شائستگی، تحمل اور قانونی حدود اور عوام الناس اور خود وکلا اور عدالتوں کو پیش آنے والی مشکلات کا احساس کرنا چاہیے اور روز کی ہڑتالوں اور بائیکاٹ جہاں خود وکلا کے لیے پریشانی کا سبب بنتی ہیں وہیں عوام میں بھی وکلا اور عدالتوں کے امیج کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

اچانک ہڑتالیں اور بائیکاٹ جہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ ہزاروں نہیں شاید لاکھوں افراد کو متاثر کرتی ہیں وہیں ان سے کچھ لوگوں کو اتنے نقصانات پہنچتے ہیں جن کا ازالہ ناممکن ہوتا ہے۔ وکلا کو سوسائٹی کی کریم کہا جاتا تھا، ہر وکیل پوسٹ گریجویٹ ہوتا ہے لہٰذا ان کا احتجاج بھی اسی سطح کا ہونا چاہیے۔ جنرل باڈی کے تعزیتی اجلاس میں قرارداد مذمت کی منظوری، حکومت سے مطالبات کہ ذمے داروں کا تعین اور فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے، متاثرہ خاندان کی کفالت و معاوضے کا اعلان کیا جائے، کسی وکیل کی ٹارگٹ کلنگ میں بار ایسوسی ایشن اپیل کے ذریعے تمام وکلا سے اس کیس میں وکالت نامے جمع کروائیں۔ سماعت کے موقعے پر تمام وکلا عدالت یا اس کے باہر جمع ہوں، کسی بھی سماعت پر کوئی بھی وکیل مقدمے کی کارروائی چلائے تا کہ ٹارگٹ بننے والے وکیل کا وکیل بھی کسی دباؤ یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نہ بنے۔ پراسیکیوشن، وکلا اور سرکاری وکلا کے تحفظ کسی حادثے کی صورت میں ان کی انشورنس اور کیریئر پلاننگ کے سلسلے میں حکمت عملی وضع کر کے متعلقہ اداروں اور حکومت سے گفت و شنید کی جائے۔

خوش قسمتی سے ہر سیاسی جماعت اور حکومت میں وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کلیدی، با اختیار اور با اعتماد عہدوں اور حیثیتوں کے مالک ہوتے ہیں جن سے بغیر کسی سیاسی نسبت کے محض وکلا کے مفاد اور مستقبل سے متعلق امور پر بات چیت کر کے یاد دہانیوں اور یقین دہانیوں سے وکلا برادری کے اخلاقی دباؤ سے بہت سے مسائل حل کرانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں کیونکہ حکومتی عہدیدار وکلا عام طور پر پریکٹسنگ لائر ہوتے ہیں جو حکومت میں آنے سے پہلے بھی وکالت کر رہے ہوتے ہیں اور وہاں سے فارغ ہونے کے بعد بھی وکالت ان کا پیشہ ہوتا ہے، وہ اقتدار کے نشیب و فراز بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، ان پر وکلا کا اخلاقی دباؤ بھی رہتا ہے۔ وکلا نمایندوں اور تنظیموں کو ہڑتالوں اور بائیکاٹ کی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لے کر مربوط و موثر پالیسی اختیار کرنے پر غور و خوض کرنا چاہیے جس سے وکلا اور عوام بھی متاثر نہ ہوں اور وکلا اور عدلیہ اور سب سے بڑھ کر انصاف پر عوام کا اعتماد بحال رہے اور اس پیشے کی حرمت پامال نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔