- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
- ایف بی آر سے کرپشن کے خاتمے کیلیے خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دیدیا گیا
- کاکول ٹریننگ کیمپ؛ اعظم خان 2 کلومیٹر ریس میں مشکلات کا شکار
- اسٹاک ایکسچینج؛ 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- بجلی ایک ماہ کیلیے 5روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی
- کھلاڑیوں کی ادائیگیوں کا معاملہ؛ بورڈ نے فیکا کے الزامات کو مسترد کردیا
- پی ٹی آئی (پی) کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن حکام فوری ہائیکورٹ طلب
- حساس ادارے کے دفترکے گیٹ پرحملہ، پی ٹی آئی کارکنان دوبارہ زیرحراست
- اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کے فضائل و محاسن
- معرکۂ بدر میں نوجوانوں کا کردار
- غزوۂ بدر یوم ُالفرقان
- ملکہ ٔ کاشانۂ نبوتؐ
- آئی پی ایل2024؛ ممبئی انڈینز، سن رائزرز حیدرآباد کے میچ میں ریکارڈز کی برسات
- عورت ہی مجرم کیوں؟
ویل ڈن چیف جسٹس
بظا ہر ایسے لگتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کا دور کارکردگی کے لحاظ سے ناکام ترین دور ہے، کیونکہ میاں صاحب کی 20 ماہ کی مدت کے دوران سپریم کورٹ میں پہلے سے زیر التوا مقدمات میں تقریباً 8000 کیسز کا اضافہ ہوا۔ عدالت عظمیٰ کی گزشتہ پانچ سال کی عدالتی کارکردگی کے جائزے کے تحت 2013 سے 2018 تک مقدمات کے التوا کی شرح دگنی ہوگئی، 2013 میں مجموعی طور پر 20480 مقدمات زیر التوا تھے، جن کی تعداد 15 اگست 2018 تک 40540 تک پہنچ گئی، جو سو فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں عوام کا عدالتوں پر اعتماد بڑھا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ رحجان مقدمات کے اندراج میں اضافے کا سبب بنا اور یوں زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا۔ علاوہ ازیں ججز کی ناکافی تعداد، عدالتی اصلاحات کا نہ ہونا بھی زیر التوا مقدمات میں اضافے کا سبب بنا۔ مزید براں میاں ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ کی کارکردگی شاندار رہی، جس کا واضح ثبوت ضابطہ دیوانی 1908 میں 118 سال کے بعد 74 ترامیم کی منظوری ہے، ان ترامیم سے نہ صرف عوام الناس کو براہ راست فائدہ ہوگا، بلکہ تمام شعبہ جات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک اور بڑا کارنامہ جو جناب ثاقب نثار صاحب نے سرانجام دیا، جس کے بارے میں معتبر سیاستدان بجا طور پر فرما رہے ہیں کہ یہ ان کے کرنے کا کام نہیں، وہ ڈیمز کی تعمیر کے فنڈز کا قیام ہے۔ دراصل حقیقت یہی ہے کہ یہ ان کے کرنے کا م نہیں ہے، یہ کام گزشتہ حکومتوں کو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا، مگر وہ جمہوریت کو بحال کروانے اور بعدازں جمہوریت کو دوام بخشنے میں مشغول رہیں اور ملک بحران کی طر ف بڑھتا رہا، اور اس سے پہلے کہ ہم مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتے اللہ رب العزت نے آرمی چیف کے ذریعے قوم کو خواب غفلت سے جگایا اور انہوں نے بیان دیا: ’’اگلی جنگ پانی پر ہوگی۔‘‘
اس کے بعد تو گویا جاگ اٹھا ہے سارا وطن والی کیفیت تھی، نوجوانوں نے شوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی اور پاکستان کے مسیحا معزز چیف جسٹس سے ایکشن لینے کی اپیل کی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تو آپ سب جانتے ہیں۔ اب جبکہ وہ مردہ گھوڑے میں جان ڈال چکے ہیں اور وہ لوگ جن کو یہ کام کرنا چاہیے تھا وہ ناداستہ طور پر ملک کے وسیع تر مفاد میں چیف کی حوصلہ شکنی کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر اس سے پہلے کہ چیف مایوس ہوجائیں، آئیے ہم سب چیف کا بازو بن جائیں، کیونکہ یہ چیف کا ساتھ نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان کا ساتھ ہے۔
پاکستان کے نام نہاد ہردلعزیز سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ آپ بجا فرمارہے ہیں کہ یہ چیف جسٹس کے کرنے کا کام نہیں، بلکہ یہ آپ کے کرنے کا کام تھا جو آپ نہیں کر پائے۔ لہٰذا اب آپ چیف کو یہ ڈیم بنانے دیں، کیونکہ یہ ڈیم بنجر ہوتے پاکستان کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا جیسا ہے۔
ہمیں ابھی اور مزید ڈیمز کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھیں اور ڈیمز بنا کر پاکستان کی خدمت کریں۔ جیسے آج نصف صدی گزرنے کے باوجود جب بھی تربیلا ڈیم کا ذکر آتا ہے قوم ایوب خان کو یاد کرتی ہے، اسی طرح آپ بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔