سانحہ کارساز: ایک چشم دید آپ بیتی

مختار احمد  جمعرات 18 اکتوبر 2018
ملکی اور بین الااقوامی رہنماؤں نے اس واقعے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک جرأتمند خاتون اور باحوصلہ لیڈر قرار دیا۔ (فوٹو: فائل)

ملکی اور بین الااقوامی رہنماؤں نے اس واقعے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک جرأتمند خاتون اور باحوصلہ لیڈر قرار دیا۔ (فوٹو: فائل)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور وطنِ عزیز پر مکمل سیاسی جمود طاری تھا۔ ملک کا نظام ٹیکنوکریٹس کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جارہی تھی جسے دیکھتے ہوئے طویل جلاوطنی کاٹنے والی سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے وطن واپسی کا عندیہ دیا۔ یہ خبر سن کر چور دروازوں سے حکو مت اور سیاست میں شامل ہوجانے والوں پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا اور انہوں نے محترمہ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی۔ مگر جرأت کی داستانیں رقم کر نے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی نے، جسے جرأتمندی ورثے میں ملی تھی، ان رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کا اعلان کردیا۔

اس پر حکو متوں میں بیٹھے لوگوں نے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کردیئے جبکہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنی قائد کے استقبال کےلیے زور شور سے تیاریاں شروع کردیں۔ چونکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا تھا، لہذا کارکنان نے پورے شہر کو دلہن کی طرح سجادیا۔ شہر بھر کی عمارتوں پر رنگ برنگے برقی قمقمے جگمگانے لگے جبکہ تمام سڑکوں، شاہراہوں، گلی کو چوں میں پیپلز پارٹی کے سہ رنگے پر چم لہرانے لگے۔ شہر میں جابجا بڑے بڑے ہورڈنگز نصب کردیئے گئے جن پر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تصاویر نمایاں تھیں۔

ان کی آمد سے دو روز قبل ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پورے ملک سے عوام ان کے استقبال کےلیے کراچی آ گئے ہیں جس کے تحت ہوٹلوں، موٹلوں اور مسافر خانوں میں لوگوں کی رہائش کےلیے جگہ نہ رہی جبکہ کھانا اور چائے بھی وقت سے پہلے ختم ہونے لگا۔ جن کارکنوں کو ہوٹلوں اور موٹلوں وغیرہ میں جگہ نہ ملی، انہوں نے پارکوں اور فٹ پاتھوں پر ڈیرے ڈال لیے اور اپنی قائد کے والہانہ استقبال کی تیاریاں کرنے لگے۔

بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور 18 اکتوبر کا وہ دن آن پہنچا جب جلا وطن قائد کو پاک سرزمین پر قدم رکھنا تھا۔ اس دن پورے شہر میں جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگادیئے گئے جہاں لگے ساؤنڈ سسٹم سے پیپلز پارٹی کا نغمہ ’’بجاں تیر بجاں…‘‘ کی آواز سنائی دے رہی تھی اور کارکنان، جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، ان نغمات پر والہانہ رقص کررہے تھے جبکہ استقبا ل کےلیے ایئرپورٹ جانے والی ہزاروں گاڑیوں پر سوار کارکنان ’’جئے بھٹو، جئے بینظیر‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس طرح یہ کارکنان ایئرپورٹ پہنچ گئے اور بے صبری کے ساتھ اپنی قائد کا انتظار کرنے لگے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے طیارے نے ٹھیک ساڑھے تین بجے ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور غیر ملکی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو اس موقعے پر قومی پرچم سے مشابہ سبز شلوار قمیص اور سفید دوپٹے میں ملبوس تھیں۔ وہ جیسے ہی اپنی ہمشیرہ صنم بھٹو اور دوسرے رہنماؤں کے ساتھ قرآن کے سائے میں باہر آئیں تو چا روں طرف ’’وزیراعظم بینظیر‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ انہوں نے وطن کی مٹی پر قدم رکھتے ہی نہ صرف شکرانے کا سجدہ ادا کیا بلکہ دعا بھی مانگی اور پھر انہیں اس موقعے کےلیے بنائے گئے خصوصی بلٹ پروف فلوٹ پر سوار کرا دیا گیا، جس کے چاروں طرف ان کی تصاویر کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نعرے درج تھے۔ اس طرح یہ قافلہ انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھنے لگا۔

ہجوم بہت زیادہ ہونے کی بناء پر یہ قافلہ چیونٹی کی رفتار سے چل رہا تھا لہذا اس نے ایئرپورٹ سے اسٹارگیٹ تک کا فا صلہ 4 گھنٹے میں طے ہوا۔ اس موقعے پر کارکنان کی خوشی دیدنی تھی، ہر ایک کا چہرہ اپنی قائد کو دیکھ کر جگمگا رہا تھا۔ اسٹارگیٹ سے یہ قافلہ ناتھا خان گوٹھ کے راستے، شاہراہِ فیصل سے ہوتا ہوا، شاہراہ قائدین کی جا نب بڑھنے لگا۔ لگ بھگ تمام گاڑیوں سے پیپلز پارٹی کے نغمات گونجنے کے ساتھ ساتھ نعرے گونج رہے تھے جس کے سبب کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جب یہ قافلہ انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھتا ہوا کارساز کے علاقے میں داخل ہوا تو غالباً یہ 7 بج کر 12 منٹ کا وقت تھا۔

اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی، اور کیونکہ میں بھی فلوٹ کے پیچھے چلنے والی تیسری گاڑی میں تھا جس میں میرے ہمراہ ملکہ برطانیہ کی کونسل کے رکن بیرسٹر صبغت اللہ راشدی، حبیب جان و دیگر رہنما بھی موجود تھے، لہذا ہم سب فوراً ہی گاڑی سے نیچے اتر آئے اور محترمہ بینظیر کے فلوٹ کی جانب بڑھے تاکہ محترمہ کی خیر و عافیت کے بارے میں جان سکیں۔ وہاں ہمیں لوگوں نے بتایا کہ یہ کسی گاڑی کا ٹائر پھٹنے کی آواز تھی لہذا ہم سب اطمینان سے واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے مگر پھر اچانک، ٹھیک سوا 7 بجے ایک اور دھماکا ہوا جس کی آواز پہلے والے دھماکے سے کچھ زیادہ تھی۔ لیکن اس دھماکے کے بعد کارساز کا علا قہ، جو روشنیوں سے جگمگا رہا تھا، اچانک ہی مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا اور ہر جانب سے آہ و بکا کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔

اب ہم پھر محترمہ کی خیریت پوچھنے کےلیے ان کے فلوٹ کی طرف بڑھے تو وہاں آگ بھڑک رہی تھی جبکہ چاروں طرف دھواں چھایا ہوا تھا۔ ایسے میں ہمیں یہ نظر آیا کہ محتر مہ بینظیر بھٹو، جو اس دھماکے سے محفوظ رہی تھیں، انہیں دوسری گاڑی میں سوار کرا کر فوری طور پر لے جایا جارہا ہے۔ ان کی بحفاظت روانگی کے بعد جب ہم نے اطراف میں نظریں دوڑائیں تو کسی کی جلی ہوئی لاش نظر آئی تو کوئی دم توڑ رہا تھا۔ سڑکوں اور گرین بیلٹ پر کارکنان کے کٹے ہوئے ہا تھ، پیر اور دیگر اعضاء نظر آرہے تھے۔ یہ منظر ہم سے دیکھا نہیں جارہا تھا مگر وہاں موجود چند لوگ زندہ بچ جانے والوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

ایسے میں اچانک ایمبولینسوں کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں۔ تقریباً ہر سماجی ادارے کی ایمبولینسیں لوگوں کی نعشیں اور زخمیوں کو اٹھانے کا کام کررہی تھیں جنہیں جناح اسپتال پہنچایا جارہا تھا۔ ہم نے بھی جناح اسپتال کا رخ کیا جہاں ہلاک ہو نے والوں کی فہرستیں لگائی جا رہی تھیں جنہیں دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس سانحے میں 156 افراد ہلاک جبکہ 800 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں متعدد کارکنان لاپتا ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کارکنان جانثاران بینظیر تھے جنہوں نے اپنی قائد کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں اور ان کی لاشوں کے بجا ئے صرف ان کے اعضا ملے ہیں۔

آفرین پیپلز پارٹی کی اس قائد پر جو اتنی بڑی دہشت گردی سے بچ جانے اور دہشت گردی کے منڈلاتے خطرات کے باوجود خاموش نہیں بیٹھی بلکہ اس نے دھماکے کے دوسرے دن ہی اسپتال جا کر زخمیوں کی عیادت کی، ہلاک ہونے والے کارکنان کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتی رہی اور ان ہی حالات میں اس حوصلہ مند قائد نے میڈیا سے بھی اپنا رابطہ بر قرار رکھا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو تفصیلات سے آگاہ کرتی رہیں۔ ان کی اس جرأتمندی پر نہ صرف ملک اور قوم نازاں ہیں بلکہ بین الااقوامی رہنماؤں بشمول سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون، صدر فرانس نیکولس سرکوزی، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ و دیگر نے انہیں ایک جرأتمند خاتون اور باحوصلہ لیڈر قرار دیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی کارساز کے سانحے میں ہلاک اور زخمی ہوجانے والوں کے خاندانوں سے نہ صرف تعزیت اور دکھ کا اظہار کیا بلکہ ان کی ہر طرح اور ہر ممکن مدد بھی کی جس کی وجہ سے بے سہارا ہوجا نے والے خاندان آج بھی ان کےلیے دعا گو ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھی سانحہ کارساز میں متاثر ہو نے والے خاندانوں کو اب تک نہیں بھو لی، یہی وجہ ہے کہ اس نے کارساز میں ٹھیک اسی مقام جہاں پر یہ دھما کا ہوا تھا، ایک ’’یاد گار شہداء‘‘ قائم کی ہے جہاں ہر سال 18 اکتوبر کو دِیے جلاکر ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما آصف راہی نے پیپلز سیکریٹریٹ میں ایک شہداء گیلری بھی بنا رکھی ہے جہاں جمہوریت کی راہ میں قربانیاں دینے والے دیگر کارکنان کے ساتھ ساتھ 18 اکتوبر کے شہداء کی تصاویر بھی ان کے ناموں کے ساتھ نمایاں ہیں اور اس گیلری میں بھی پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت حاضری دے کر جمہوریت کے راستے میں قربانیاں پیش کرنے والے ان کارکنان کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے جبکہ وقتاً فوقتاً ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں شہداء گیلری سجائی جا تی ہے جہاں ملک بھر سے آئے ہوئے کارکنان اپنی قائد کی حفاظت کےلیے لازوال قربانیاں پیش کرنے پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔