غربت عوام کا مقدر نہیں ہے
پاکستان کے عوام کو روٹی کا غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔
جو لکھاری اپنی تحریر میں صرف عوامی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی نظر میں شخصیات اور جماعتیں زمینی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان کی 71 سالہ سیاسی تاریخ کرپشن اور اقربا پروری کی تاریخ ہے، اس پورے دور میں صرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ برسر اقتدار رہی جن کا پورا دور کرپشن اور اندھی لوٹ مار سے بھرا ہوا ہے۔ اس اربوں روپوں کی کرپشن سے جہاں ملکی معیشت متاثر ہوئی وہیں سب سے زیادہ ملک کے عوام متاثر ہوئے۔
1947ء سے 1971ء تک عوام کی زندگی عوام کے شب و روز میں کوئی فرق نہ آیا۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ روٹی، روزگار رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں مساوات کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عوام صرف دو وقت کی روٹی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ صدیوں سے انھیں، روٹی کی دوڑ ہی میں الجھاکر رکھ دیا گیا ہے ،جبتک انسان بہتر اورآسودہ زندگی گزارنے کو اپنا حق نہیں سمجھتا صرف روٹی کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔
اس ملک کے 21 کروڑ غریب عوام کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف ملکی دولت کے پیدا کرنے والے نہیں بلکہ ان کی پیدا کردہ دولت کے سب سے بڑے حصے دار اور مالک بھی ہیں۔ ہماری اشرافیہ نے جو سماجی اونچ نیچ کا نظام رائج کیا ہے، اس میں بڑی چالاکی سے اس نفسیات کو فروغ دیا ہے کہ اونچ نیچ غربت اور امارت سب مقدرکے کھیل ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام جب تک تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں ہوتے انھیں اپنے حقوق کا احساس نہیں ہوتا، اس خوف سے اشرافیہ نے غریب عوام کو تعلیم سے محروم کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں بار بار یہ خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ ہمارے دیہی علاقوں میں وڈیرے اور ان کی طبقاتی برادریوں نے بچوں کے اسکولوں کو اپنے مویشی خانوں میں بدل کر رکھا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے میڈیا میں آتی ہیں کہ وڈیروں کی ذاتی جیلوں سے ہاریوں اور ان کے خاندانوں کو رہا کرایا گیا۔ اکیسویں صدی کی اس جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں آزاد انسانوں کو وڈیرے اپنی ذاتی جیلوں میں بند کر کے رکھتے ہیں اور ان محبوس مردوں، عورتوں اور بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ یہ خبریں عام لوگ بھی پڑھتے ہیں، حکام بھی پڑتے ہیں اور عدلیہ کے اکابرین بھی پڑھتے ہیں لیکن کسی طرف سے نہ احتجاج کی صدا بلند ہوتی ہے نہ اس ظلم کو روکنے کے لیے کوئی موثر کوششیں کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے میڈیا میں یہ دلچسپ خبریں آتی ہیں کہ آج فلاں وڈیرے کی نجی جیل سے 10 آدمیوں پر مشتمل ایک خاندان کو آزاد کرا دیا گیا اور عدلیہ نے انھیں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق دے دیا۔ ان خبروں میں یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ ہاریوں کو قید رکھنے والوں کو کتنی سزا دی گئی؟
ہاریوں کی سزا کا قصہ بیچ میں اس لیے آگیا کہ لکھنے کے دوران ہماری نظر وڈیروں کی جیل سے ہاری خاندان کی رہائی پر پڑی اور ہمیشہ کی طرح اس خبر میں بھی یہ نہیں بتایاگیا کہ اپنی ذاتی جیل میں ہاریوں کے خاندان کو قید رکھ کر ان سے جبری مشقت لینے والے وڈیروں کے ساتھ کیا ہوا، انھیں کتنی سزا دی گئی؟ اکیسویں صدی میں سیکڑوں سال پہلے کے غلامی کے نظام کی تجویز پر پتہ نہیں متعلقہ حضرات کو شرم آتی ہے یا نہیں۔
پاکستان کے اکیس کروڑ عوام بھی ایک کھلی جیل میں قید ہیں۔ جیل میں رہنے والے قیدیوںکو بھی محنت کرو تب روٹی دی جاتی ہے۔ کھلی جیل میں رہنے والوں کو بھی سخت محنت کے بعد دو روٹی نصیب ہوتی ہے۔ اگر یہ ظلم ہے تو ظلم کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں ہوتی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جبتک مظلوموں کو ظلم کا احساس نہیں ہوتا وہ بھلا مزاحمت کیسے کریںگے؟ اس نا منصفانہ دور ظلم پر مبنی کلچر کے فروغ میں بدقسمتی سے غریب طبقات ہی سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام کو روٹی کا غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔ ان کے ذہنوں میں کسی طرف سے یہ بات نہیں آتی کہ وہ روٹی کے غلام نہیں بلکہ ایک آسودہ زندگی کے حق دار ہیں اور یہ حق عوام کو اوروں سے زیادہ اہمیت اس لیے رکھتا ہے کہ وہ اس ملکی دولت کے پیدا کردہ ہیں جس پر 71 سال سے اشرافیہ قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
یہ قبضہ ناجائز ہے اور ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا عوام کا حق ہے اس حق سے عوام کو آگاہ کرنے کی ذمے داری عام طور پر اہل سیاست کی ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اہل سیاست کا عمومی تعلق اشرافیہ ہی سے ہے اور وہ 71 سال سے ملکی سیاست اور اقتدار پر قابض ہے۔ لہٰذا یہ توقع رکھنا کہ وہ اس طبقاتی ظلم اور نا انصافی سے عوام کو آگاہ کرے گی خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔
اب عمران خان اقتدار کی منزل تک پہنچا ہے اور اس تبدیلی پر اشرافیہ انگاروں پر لوٹ رہی ہے اور ہر طرح کی سازشیں کر رہی ہے کہ اس مڈل کلاس کو ہر قیمت پر اقتدار سے باہر کرے۔ کھربوں کے قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا عمران خان عوام کے لیے کیا کر پائے گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس ملک کے 21 کروڑ غریب عوام اگر عمران خان کی طاقت بن جائیں تو شاید عمران خان غریبوں کی غربت اور مہنگائی کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے میں کامیاب ہو سکے۔