دنیا بھر کی خواتین میں شرح زچگی نصف رہ گئی، تحقیق

ویب ڈیسک  اتوار 11 نومبر 2018
سال 1950ء میں زچگی کی شرح 4.7 فیصد تھی جو اب گھٹ کر 2.4 فیصد رہ گئی ہے (فوٹو : فائل)

سال 1950ء میں زچگی کی شرح 4.7 فیصد تھی جو اب گھٹ کر 2.4 فیصد رہ گئی ہے (فوٹو : فائل)

محققین نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کی بچے پیدا کرنے کی اوسط تعداد نصف رہ گئی ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔

سائنسی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والے تازہ تحقیقی جائزے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چند افریقی اور ایشیائی غریب ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں شرح ولادت نصف رہ گئی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کے بچے پیدا کرنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے جس کے باعث نصف سے زائد ممالک میں ’بے بی بسٹ‘ کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

کسی بھی ملک میں بچے پیدا کرنے کی شرح 2.1 سے کم ہونے لگے تو ایسے ملک کی کل آبادی کم ہونا شروع ہوجائے گی ایسی صورت حال کو بے بی بسٹ کہا جاتا ہے۔ اس لیے ممالک میں بچوں کی ولادت کی شرح، شرح اموات سے زیادہ رکھنی چاہیے۔

اس تحقیق میں 1950ء سے 2017ء تک ہر ملک کے اعداد و شمار اور رجحانات کو جمع کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ 1950ء میں خواتین اپنی زندگی میں اوسطًا 4.7 بچے پیدا کرتی تھیں جب کہ گزشتہ برس یہ شرح خطرناک حد تک گھٹ کر محض 2.4 تک رہ گئی ہے۔

اس خطرناک صورت حال کا سامنا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو ہوا جہاں برطانیہ میں فی ماں 1.7 بچے پیدا کررہی ہے لیکن دوسری جانب پسماندہ ممالک جیسے مغربی افریقا میں یہ شرح اپنی انتہائی حد تک یعنی 7.1 ہے یعنی امیر ممالک میں فی ماں 1 سے 2 بچے پیدا کر رہی ہے جب کہ غریب ممالک کی ماں کے یہاں 6 سے 7 بچوں کی پیدائش معمول کی بات ہے۔

سروے میں خبردار کیا گیا ہے کہ جن ممالک کو بے بی بسٹ کا سامنا ہے وہ معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی مسائل کا شکار ہوجائیں گے اور ایسے معاشرے میں دادا دادی کی تعداد پوتے پوتیوں سے زیادہ ہوجائے گی۔

ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کے بچے پیدا کرنے کے رجحان میں کمی کے باعث مقامی آبادی کم ہونے پر اس خلاء کو غیرفطری آبادی سے پُر کیا جائے گا اور یوں ہجرت کرکے آنے والوں کی ثقافت اور تہذیب مقامی معاشرت پر حاوی ہوجائے گی۔

ترقی یافتہ ممالک میں بچے پیدا کرنے کی شرح میں کمی کی وجہ ماؤں کا اپنی فٹنس کو برقرار رکھنے کی حد درجہ خواہش ہے اور وہ اپنی مرضی سے کم بچے پیدا کرتی ہیں جب کہ متوسط ممالک میں سہولیات اور آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ’خاندان‘ میں نئے اراکین کی تعداد کا تعین کیا جاتا ہے۔

مالی وجوہات کے بعد جس وجہ سے خواتین کم بچے پیدا کرنا پسند کرتی ہیں اُن میں خواتین میں تعلیم حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ راستہ چننے کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہے۔ علاوہ ازیں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات تک بآسانی رسائی بھی ایک مضبوط وجہ ہے۔

شرح زچگی میں کمی اپنی جگہ لیکن ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بچے پیدا کرنے کی شرح میں کمی اچھی بات ہے۔ اس سے آبادی کنٹرول میں رہے گی اور دنیا کے کم ہوتے وسائل کے استعمال میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے کے خدشے میں کمی آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔