پاکستان پر یلغار

غلام محی الدین  ہفتہ 24 نومبر 2018
اورکزئی ایجنسی میں اور چینی قونصل خانے پر دہشت گردی پاکستانیوں کے اتحاد اور پاکستان کی ترقی کے سفر پر حملہ ہے۔ فوٹو: فائل

اورکزئی ایجنسی میں اور چینی قونصل خانے پر دہشت گردی پاکستانیوں کے اتحاد اور پاکستان کی ترقی کے سفر پر حملہ ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز میں بتدریج امن و امان کی صورت حال میں بہتری کے سلسلے کو اورک زئی ایجنسی کے جمعہ بازار اور کراچی میں چینی قونصل خانے کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے واقعات سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد جب آپ ایک خاص فضاء قائم کرنے کا تاثر پیدا کرلیتے ہیں تو ایسے میں دہشت گردی کا ایک واقعہ بھی عوام کے اندر پیدا ہونے والے اعتماد کو گہری ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ پاکستانی عوام کو اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے انتہائی نامساعد حالات اور مشکل ترین پہاڑی علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس نئی لہر کو بھی کام یابی سے ناکام بنادیں گے۔

ان دونوں واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہشت گرد آسان ہدف یعنی اورکزئی کے جمعہ بازار میں تو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کام یاب رہے لیکن نسبتاً مشکل ہدف یعنی چینی قونصل خانے پر ان کا حملہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں پورے طور پر ناکام رہا۔ حفاظت پر مامور فورسز کے جوان تو ہمیشہ خطرے میں ہوتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کی کارروائی کو ناکام بنایا۔ خدا ناخواستہ قونصل خانے پر دہشت گردی کی کارروائی کام یاب ہوجاتی تو یہ دشمنوں کے لیے بڑی کام یابی ہوتی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ان دونوں حملوں کا نشانہ ہماری مذہبی اور قومی فالٹ لائینز تھیں‘ اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان کے حالات میں بہتری پاکستان کے دشمنوں کو کسی طور گوارا نہیں اور دہشت گردی کی حالیہ کارروائیاں نہایت عجلت میں کی گئیں، کیوںکہ فوری پیغام دینا مقصود تھا۔ اس وقت ہمارے خطے کے مجموعی منظرنامے پر اُبھرنے والی سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’جو کئی دہائیوں سے مسلسل روبہ زوال تھا‘ اس کے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا یقین پیدا ہوگیا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے ماضی قریب میں جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں ان میں سب سے نمایاں بات دہشت گردی پر قابو پانے میں غیرمعمولی کام یابی کا حصول ہے۔ یہ تاثر تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے کہ پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پانے کی پوزیشن میں آچکا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو مسائل اور بحرانوں میں اُلجھائے رکھنے کے مقصد پر سرمایہ کاری کرنے والے پاکستان کے دشمنوں کے لیے مستقبل میں غیرموافق صورت حال کے خدوخال نمایاں ہو رہے ہیں۔

2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے انتہائی سرعت کے ساتھ ملک کو درپیش مالی بحران کو حل کرنے کے اقدامات کا آغاز کیا اور اس میں خاطر خواہ کام یابی بھی حاصل کر لی۔ حالاںکہ ماضی میں محض کام چلانے پر اکتفا کیا گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ برس کے اختتام تک ملک اپنے مالیاتی بحران پر مکمل قابو پالے گا۔ ظاہر اس کے بعد ہر آنے والا دن ملک کو مزید استحکام کی طرف لے کر جائے گا۔ بدقسمتی سے ماضی میں برسراقتدار رہنے والی حکومتوں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر پاکستان کے لیے بھارت کی حامی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کا احترام کیا ہے۔

بھارت اور اس کے حامی بارسوخ ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان کو ایسی حالت میں معلق رکھا جائے جس میں وہ اپنے اندرونی معاملات میں اس بُری طرح سے الجھا رہے کہ وہ خطے کی سیاست میں متحرک اور بااثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے بحران اس حد تک نہ جائیں کہ ریاست ہی گِر جائے، اور دوسری طرف بحران سے مکمل چھٹکارا پانے کی کسی کوشش کو کام یاب بھی نہ ہونے دیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ریاست کا سانس چلتا رہے۔ نئی حکومت کے اقدامات کے بعد یہ نظر آنے لگا ہے کہ پاکستان پوری سنجیدگی سے بحرانوں پر مکمل قابو پانے کے راستے پر چل نکلا ہے‘ یہ صورت حال دشمن قوتوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔

ایک اور اہم بات یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کو ناکام بنانے کی کوئی قابل عمل صورت بھارت کو نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جانے کے بعد اس تحریک کی کیا شکل و صورت بنے گی‘ یہ خیال ہی بھارت کے لیے انتہائی ہول ناک ہے۔ کشمیری حریت پسندوں کی تحریک کو بزور کُچلنے میں کام یابی کی شرط اول یہی ہے کہ پاکستان کو اس بری طرح سے اُلجھا دیا جائے کہ وہ اپنی بقاء کی فکر ہی سے باہر نہ آ سکے‘ لہٰذا بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو داخلی سطح پر اُلجھائے رکھا جائے۔

تیسری اہم بات افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال ہے جہاں امریکی فوجی قیادت بھی اب اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ طالبان کے خلاف فیصلہ کن کام یابی حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس بڑھتی ہوئی مایوسی نے جھنجھلاہٹ کو جنم دیا جس کا اظہار چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ایک غیرذمہ دارانہ بیان دے کر کیا۔ گو کہ بعد میں پینٹاگون نے اپنے صدر کے بیان سے ہونے والے نقصان کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی ’کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ افغانستان سے واپسی بھی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں‘ لیکن یہ صاف ہو گیا کہ امریکی اپنی ناکامی کی وجہ پاکستان کو گردانتا ہے۔

اس تاثر کے زیراثر افغانستان میں یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ وہاں عام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کو پاکستان کی کارروائی قرار دے کر پاکستان کے خلاف عوامی نفرت کو ہوا دی جائے، حالاںکہ درحقیقت پاکستان افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے جس کا ایک تازہ ثبوت پاکستان پولیس آفیسر طاہر داوڑ کا افغانستان میں قتل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی خالص عسکری کارروائیوں کے علاوہ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھی درحقیقت امریکی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔

چوتھے اہم نکتے کا تعلق سی پیک سے ہے۔ سی پیک کی کام یابی بھی درحقیقت پاکستان کے اپنے استحکام کے ساتھ وابستہ ہے، جس قدر پاکستان اپنے داخلی مسائل پر قابو پاکر مستحکم ہوتا چلا جائے گا اسی قدر سی پیک منصوبے کو تقویت ملے گی اور اس پر کام کی رفتار تیز ہوتی چلے جائے گی۔ ملک میں کرپشن کی بیخ کنی کی لیے جاری اقدامات کی کام یابی بھی سی پیک اور اس سے منسلک دیگر منصوبوں کو تقویت دے گی جب کہ ملک کے اندر سرمایہ کاری کے لئے حالات بھی سازگار ہوں گے۔ سی پیک منصوبے پر کام کی رفتار اسی لیے تسلی بخش نہیں رہی، کیوںکہ اس عظیم منصوبے پر بیرون ملک سے اثرانداز ہونے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

حالیہ دھماکے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ پاکستان مسائل کی دلدل سے باہر نکلنے والا ہے اس صورت حال میں ہماری حکومت اور عوام دونوں کا یہ فرض ہے کہ کسی بھی طور کم زوری کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ دشمن کی منصوبہ بندی یقیناً یہی ہے کہ دہشت گردی کی جس عفریت پر ہم نے قابو پایا ہے اسے پھر پاکستان پر مسلط کردیا جائے۔ یعنی مستقبل میں دہشت گردی کی مزید کارروائیوں کی منصوبہ بندی بھی یقیناً موجود ہوگی۔

لہٰذا ہماری حکومت اور عوام دونوں کا فرض ہے کہ کسی بھی قسم کی کم زوری کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔ ایسا تاثر کسی صورت پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے مقاصد سے دور کرنے میں کام یابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ موجودہ علاقائی صورت حال کے تناظر میں ایک دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت نے سکھ یاتریوں کے لیے کرتارپورہ کاریڈور کھولنے کی پاکستانی پیشکش کا مثبت جواب دے دیا ہے اور اس ماہ کی 28 تاریخ کو وزیراعظم عمران خان کاریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ بھارتی رویے میں یہ ڈرامائی تبدیلی بھی معنی خیز ہے، کیوںکہ قبل ازیں ایسے ہر موقع پر بھارتی فوج ہی آڑے آئی اور قومی سلامتی کے بہانے پنجاب کی سیاسی حکومتوں کے ارادوں کو ناکام بناتی رہی ہے۔ سکھوں کے اس دیرینہ مطالبے کی قبولیت کے پیچھے بھی غالباً افہام و تفہیم کی ایسی فضاء پیدا کرنا مقصود ہے۔

جس کی آڑ میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز کیا جا سکے۔ ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عین ممکن ہے کرتاپورہ کا ریڈور کے کُھلنے سے پہلے ہی بھارت میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجائے اور بھارتی حکومت اور میڈیا یہ چیخ و پکار کرتا پایا جائے کہ ’’ہم نے تو اپنے سکھوں کی بات مان لی تھی لیکن پاکستان ہی امن قائم نہیں ہونے دیتا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔