’سقوط ڈھاکہ‘ قومی ہزیمت کے لمحات کبھی نہیں بھولنے چاہئیں

غلام محی الدین  اتوار 16 دسمبر 2018
باوقار قومیں تاریخ مسخ کرنے کے بجائے اپنے لہو سے دوبارہ تاریخ رقم کیا کرتی ہیں۔ فوٹو: فائل

باوقار قومیں تاریخ مسخ کرنے کے بجائے اپنے لہو سے دوبارہ تاریخ رقم کیا کرتی ہیں۔ فوٹو: فائل

ممتاز دانشور اور فلسفی ابن خلدون نے کہا تھا:

’’جن معاشروں میں علم و حکمت سے شناسائی کا فقدان ہو وہاں غلطیوں پر احساس زیاں ناپید ہو جاتا ہے۔

جن معاشرں میں احساس زیاں ناپید ہو جائے وہاں دانائی کا گزر نہیں ہوسکتا اور جہاں دانائی کا کوئی وجود نہ ہو وہاں زندگی بے معنی ہوجاتی ہے‘‘۔

علامہ اقبال نے ابن خلدون کے اسی خیال کو یوں شعری قالب میں ڈھالا تھا۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم خود بالکل اسی صورتحال کا شکار چلے آرہے ہیں۔ ہمارے ہاں انفرادی سطح پر نقصان یا نقصان کا اندیشہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن قومی سطح پر اجتماعی سود و زیاں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا اور یہی قومی سطح پر انحطاط کی بدترین حالت ہوسکتی ہے۔

سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کو پاکستان سے علیحدہ ہوئے۔ 47 برس گزر چکے۔اس قومی سانحے پر بہت کچھ کہا سنا جاچکا لیکن اصل بات یہ ہے کہ آیا قومی سطح پر احساس زیاں بیدار کرنے کی کس قدر سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ کسی بھی قوم کو اپنا تشخص اور وجود برقرار رکھنے کے لیے اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں سے سبق حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہاں بعض حلقے جان بوجھ کر منصوبہ بندی کے تحت اس کوشش میں ہیں کہ ایسے معاملات کو ماضی کو دھول میں گم کردیا جائے تاکہ قوم میں اپنی شکستوں سے پیدا ہونے والے احساس زیاں اور اس کے ازالے کا جذبہ ہی نہ پیدا ہونے پائے۔

ایسی کوششیں اپنی سطح پر جاری ہیں اور دشمن اپنے تمام تر ذرائع اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان میں جھونک رہا جو اس نے سابقہ مشرقی پاکستان میں استعمال کی تھی۔ گو کہ دشمن کی اس حکمت عملی میں اس کا ساتھ دینے پر آمادہ عناصر ملک میں موجود ہیں لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ 1971ء کے واقعے کے اثرات ملک میں بہت سی مثبت تبدیلیوں کا باعث بھی بنے ہیں۔

ملک میں قومی سطح پر مثبت انداز فکر کی ترویج کے لیے ضروری ہے کہ کارواں کے دل میں احساس زیاں کی آنچ میں اضافے کا اہتمام ہوتا رہے، شکست کے داغ کو مندمل نہ ہونے دیا جائے۔ اپنی اس اشاعت خصوصی میں ہم تین ایسی شخصیات کے خیالات کو پیش کررہے ہیں جو مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی سیاسی و عسکری صورتحال کے عینی شاہد تھے، اب یہ ہمارے قارئین پر ہے کہ وہ ان اقتباسات سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔

سید شاہد حسین پاکستان کی افسر شاہی کا حصہ رہے۔ انہوں نے قبائلی علاقے سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اہم عہدوں پر کام کیا جن میں چیف سیکرٹری بلوچستان اور سیکرٹری واٹر اینڈ پاور کے عہدے بھی شامل تھے۔ وہ 1971ء کے پُر آشوب ایام میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں تعینات تھے۔ وہ اپنی کتاب What was Once East Pakistan میں لکھتے ہیں:

٭ ’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان انتخابات کی وجہ سے ٹوٹا، ان لوگوں میں ایک زمانے میں ملک کے اہم ترین انگریزی روزنامے پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری بھی شامل ہیں جنہوں نے 1988ء میں نیشنل ڈیفنس کالج میں اپنے لیکچر میں یہی دعویٰ کیا تھا۔ حقائق کے ساتھ یہ کیسا گھناؤنا مذاق ہے۔ درحقیقت پاکستان انتخابات کی وجہ سے نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس لیے ٹوٹا کیونکہ انتخابات کے نتائج حکمرانوں کے لیے قابل قبول نہ تھے‘‘۔

٭ ’’میں پہلی مرتبہ 1966ء میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) گیا۔ سول سروس میں شامل ہونے کے بعد 39 افسروں کے ایک گروپ کو ملک کے مشرقی صوبے میں 3 ماہ کے لیے بھیجا گیا تاکہ وہ وہاں کے معاملات سے ہم آہنگی پیدا کرلیں۔

میں نے ایک ماہ کو میلا کی رورل ڈیویلپمنٹ اکیڈمی میں گزارا، ایک ماہ ضلع میمن سنگھ میں اٹیچمنٹ پر رہا جبکہ باقی ایک ماہ صوبے کے مختلف علاقوں کے سفر پر رہا۔

ایک روز میں رورل ڈویلپمنٹ اکیڈمی کی پہلی منزل پر ورانڈے میں اپنے ایک مشرقی پاکستانی ساتھی افسر عبدالقیوم ’جو فارن سروس سے تھا‘ کے ساتھ کھڑا رات کے اندھیرے میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ عبدالقیوم نے مزاحیہ سے انداز میں کہا ’’شاید مستقبل میں یہ عمارت ہماری سول سروسز اکیڈمی ہو‘‘ اس نے اپنے فقرے میں بس بنگلہ دیش کے لفظ استعمال نہیں کیا۔ میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوسکتا ہے۔ کسی نے اس بات کا احساس نہیں کیا کہ ہمارے فوجی حکمرانوں نے بنگالی عوام کے دل و دماغ کو کتنے گہرے صدمات سے دوچار کیا اور ان کے جمہوری حقوق سے پہلو تہی نے ملک کے سیاسی ڈھانچے پر کیسے تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔‘‘

اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی پاکستان کے بالادست طبقات کے رویے نے بہت برس پہلے ہی ہر سطح پر بنگال کے لوگوں کو متحدہ پاکستان سے متنفر کر دیا تھا۔ سید شوکت حسین آگے لکھتے ہیں:

’’مشرقی پاکستان کے اپنے اس پہلے دورے کے دوران ریل کے ایئرکنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ سے دیکھا ہوا ایک منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا جو آج بھی مجھے دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ سفر کے دوران آشوردی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی ڈائننگ کار سے کھانا پیش کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ٹرین کے ڈبے کے سامنے نیم برہنہ بھوکے لڑکے لڑکیوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ جب ملازم ہمارے چھوڑے ہوئے ٹرے اُٹھا کر ڈبے سے پلیٹ فارم پر اُترا تو بچے اس کی طرف دوڑ پڑے۔ پہلے تو میں کچھ نہیں سمجھ پایا، لیکن پھر فوراً ہی بات واضح ہوگئی کہ یہ بھوکے بچے ہمارا چھوڑا کھانا حاصل کرنے کے لیے لپکے ہیں۔ لیکن ویٹر نے بچا کھچا کھانا انہیں دینے کے بجائے یہ کہتے ہوئے گندے پلیٹ فارم پر پھینک دیا کہ انہیں دینے کے بجائے کتوں کو ڈال دینا بہتر ہے۔ مجھے یہ منظر کبھی نہیں بھولتا کہ بھوکے بچے کس طرح زمین پر پڑے ہوئے کھانے کی طرف لپکے تھے تاکہ کتوں کے آنے سے پہلے جو کچھ ممکن ہوسکے اُٹھا لیں۔ وہ بیئرر بہاری تھا اور اُس کا رویہ بنگالی بہاری باہمی تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے کافی تھا۔ بہاری ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ ہم ان سے ہمدردی کا اظہار کریں‘‘۔

شاہد حسین لکھتے ہیں ،’’اگلی مرتبہ میرا مشرقی پاکستان جانا ملک کے دونوں حصوں کے درمیان افسران کے تبادلے کے پروگرام کے تحت ہوا تھا۔ اس پروگرام کے تحت مغربی پاکستان کے افسران کو مشرقی حصے میں جبکہ مشرقی پاکستان کے افسران کو مغربی حصے میں لازمی خدمات انجام دینا ہوتی تھیں۔ اسی پروگرام کے تحت 1969ء میں میرا تبادلہ دو برس کے لیے مشرقی پاکستان کردیا گیا۔ آغاز میں یہ سلسلہ بڑی کامیابی کے ساتھ چلتا رہا لیکن بعد میں مغربی پاکستان کی طاقتور بیورو کریسی کے دباؤ پر یہ پروگرام ختم کرنا پڑا کیونکہ یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹوں کو ایک دور دراز علاقے میں خدمات انجام دینا پڑیں۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کے افسروں نے اس پروگرام کو بڑی گرمجوشی کے ساتھ قبول کیا۔ وہ سب اس انتظام پر بہت خوش تھے۔ ادھر ہمارے افسروں کا یہ حال تھا کہ میرے بیچ کے ایک افسر کا جب مشرقی پاکستان کے بندربن سب ڈویژن میں تبادلہ کیا گیا تو وہ وہاں سے اس لیے بھگوڑا ہوکر بھاگ نکلا کہ جگہ کا نام ’’بندر‘‘ کے نام پر ہے۔ اس افسر کے تعصب اور بغض کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنی گھڑی بنگال کے مقامی وقت کے مطابق ایک گھنٹہ آگے کرنے کے بجائے مغربی پاکستان کے وقت کے مطابق ہی رہنے دی تھی۔‘‘

شاہد حسین کی اس بات سے مجھے اپنی زندگی کا ایک بیش قیمت تجربہ یاد آرہا ہے جس کا ذکر یہاں بے محل نہ ہوگا۔

جن دنوں میں کوئٹہ میں صحافتی خدمات انجام دے رہا تھا مجھے تحصیل موسیٰ خیل میں کچھ دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔ میں وہاں اپنے انتہائی عزیز دوست سرور جاوید کا مہمان تھا جو ان دنوں موسیٰ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے۔ مجھے وہاں سرکاری دفاتر جیل اور مجسٹریٹ کی عدالت دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ لوگوں کے لیے یقینا اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگا کہ 1990ء کی دہائی میں بھی موسیٰ خیل میں بجلی نہیں تھی۔ رات 7 بجے سے 10 بجے تک ڈیزل جنریٹر سے بجلی فراہم کی جاتی تھی لیکن اگر کسی دن ڈیزل نہ پہنچے تو اس رات 3 گھنٹے کی یہ عیاشی بھی میسر نہ تھی۔ وہاں پتہ چلا کہ کوئی بھی سرکاری ڈاکٹر اُدھر رہنے کو تیار نہیں لہٰذا لوگ ڈاکٹر کے بغیر ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مجسٹریٹ کی عدالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ کچی عمارت کی چھت میں باہر کی جانب ابھرا ہوا حشت پہلو روشندان تھا جس کی وجہ سے سارا دن سورج کی روشنی مجسٹریٹ کی میز پر مرکوز رہتی تھی۔ بجلی میسر نہ ہونے کا حل انہوں نے اس طرح نکالا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مجسٹریٹ سمیت تمام عملہ ہمہ وقت وہاں موجود رہتا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آج سے سو، سوا سو برس پہلے بھی وہاں انگریز مجسٹریٹ ڈیوٹی دیتا تھا جو 6207 کلو میٹر دور اپنے وطن سے آکر یہاں فرائض انجام دیتا تھا، اور موسیٰ خیل یا برصغیر کے ایسے ہی دیگر علاقوں کی نسبت اس کے ملک کے ماحول اور سہولیات میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن پھر بھی انگریز اہلکار اپنے گھر سے دور پوری دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کرتے تھے یہی وجہ کہ وہ دنیا کے 85 ملکوں پر حکمرانی کرتے تھے اور ان کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ ہمارے ملک کے اندر ہی فاصلے ہمیں خوش نہیں آتے۔ آگے چل کر ایک اور جگہ مصنف لکھتے ہیں:

٭ ’’نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد کو ڈگری جاری کرنے کے اختیار کے ساتھ ایک مکمل یونیورسٹی کا درجہ حاصل۔ اس کے قیام کا مقصد اہم ترین ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے اعلیٰ فوجی قیادت تیار کرنا ہے جبکہ کچھ سول افسران کو بھی اس یونیورسٹی میں کورس کے لیے چُنا کیا جاتا ہے۔ مجھے بھی اس یونیورسٹی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ میں نے جس کورس میں شرکت کی تھی اس کے مضامین کا تعلق قومی معیشت اور طرز حکمرانی کے ذریعے ریاستی قوت کے اظہار کے ساتھ تھا۔ اپنے اس کورس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمیں ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کرائے گئے۔ لیکن پورے کورس میں آئین پاکستان اور قومی زندگی میں اس کے کردار کے بارے میں ایک لفظ بھی شامل نہ تھا۔ آئین کے بارے میں لاعلمی کا یہ عالم تھا کہ ہمارے ساتھ کورس میں شامل ایک بریگیڈیئر صاحب اس بات پر مُصر تھے کہ آئین پاکستان کے مطابق سول سروسز میں ریٹائرڈ فوجی افسروں کے لیے 10 فیصد کوٹہ مختص ہے اور دلیل دینے کے باوجود وہ اصل صورتحال کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اب سے چند برس قبل تک (سید شاہد حسین کی کتاب 2010 میں شائع ہوئی) نیشنل ڈیفنس کالج کی نو تعمیر شدہ یونیورسٹی کی وسیع و عریض لائبریری میں آئین پاکستان کی ایک بھی جلد موجود نہ تھی‘‘۔

میجر جنرل (ر) حکیم ارشد قریشی مرحوم 1971ء میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں تعینات تھے۔ وہ باغیوں کے خلاف آپریشن اور بعدازاں جنگ کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ 26 فرنٹیئرفورس کو کمان کر رہے تھے اور دنیاج پور۔ رنگ پور کے علاقے میں تعینات تھے۔ ان کی دلیری اور پیشہ وارانہ برتری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا کہ پاک فوج کے ہتھیار ڈال دینے کے تین دن بعد تک بھی دشمن دنیاج پور میں داخل نہ ہوسکا تھا۔ اپنی کتاب

THE 1971 INDO-PAK WAR A SOLDIER’S NARRATIVE میں اس قومی حزیمت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

٭ ’’پاکستان ٹوٹنے کے واقعہ کو ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس پر بحث مباحثہ کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے بودے اور بے بنیاد دلائل گھڑے جاتے ہیں جنہیں آدھے سچ پر مبنی دلیل سے تقویت دی جاتی ہے اور اس عمل کے باعث اصل مدعا خلط ملط ہوجاتا ہے۔ حقائق کا سامنا کرنے سے راہ فرار اختیار کرنے کی غرض سے ہم نے یہ وطیرہ اختیار کرلیا ہے کہ تلخ سوالات کو مسخ کرنے کے لیے ہم تاریخ کی من چاہی تعبیر اس انداز میں کرتے ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والا تجزیہ ہمارے رویے اور نقطہ نظر سے مطابقت رکھتا ہو۔ حالانکہ ایک باوقار طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کو ہم اپنے لہو سے دوبارہ رقم کرتے۔

اپنے ان تجربات کو رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جائے۔ اس سے یہ اُمید پیدا ہوتی ہے کہ آنے والی نسلیں مستقبل میں کسی ایسی مشکل صورتحال میں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں جس سے ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاریخ کا وطیرہ ہے کہ جو اس سے سبق نہ سیکھیں ان کے لیے خود کو دھراتی رہتی ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمن کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے لوگ محض اس کوشش میں مصروف رہے کہ کسی طرح ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیں۔ رپورٹ آنے کے بعد حکومت کے اقدامات بے سمت اور منشتر تھے۔ جہاں ایوب خان کا تختہ الٹنے کی سازش کے ملزمان کو سرکاری سماعت کے ذریعے فارغ کردیا گیا وہیں کچھ ایسے لوگ ’جن کو کمیشن نے کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی تھی‘ انہیں کمیشن کی تضحیق کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا گیا۔ (ہماری عدالتیں بہرحال اس معاملے میں بدنام رہی ہیں کہ ان سے بااختیار اور طاقت ور لوگوں کے خلاف فیصلے نہیں آتے)۔

٭ ’’اگست 1970ء کو ترقی ملنے کے بعد مجھے حکم ملا کہ مشرقی پاکستان کے علاقے سیدپور میں تعینات فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی 26 ویں بٹالین کی کمان سنبھالوں۔ مشرقی پاکستان کے حالات کے پیش نظر مجھ سے کہا گیا تھا کہ مسلح محافظوں کے بغیر سفر نہ کروں لیکن میں تنہا رنگ پور جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوگیا۔ جدھر نظر جاتی تھی نیم برہنہ لوگوں کا ایک سمندر تھا۔ یہ لوگ اپنے اردگرد سے بے نیاز سرگرداں نظر آتے تھے۔ ان کی غربت چھپائے نہیں چھپتی تھی، ان کی حالت قابل رحم تھی، صاف نظر آتا تھا کہ برطانیہ سے آزادی ان کے لیے محض ایک سراب ثابت ہوئی ہے، جس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ میں یہ سب دیکھ کر لرز کر رہ گیا۔ ریل کی کھڑکی سے باہر جہاں تک نظر جاتی سبز کھیت لہلہاتے تھے جو اس زمین کی زرخیزی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ اس منظر میں پائے جانے والے نظم و ضبط کے برعکس ریل کے اندر کی صورتحال یہ تھی کہ جس مسافر نے جہاں کہیں اُترنا ہوتا تھا وہ زنجیر کھینچ کر اُترجاتا تھا۔ ریل کے عملہ کو یہ فکر نہ تھا کہ آیا کسی نے ٹکٹ لیا ہے یا نہیں۔

الیکشن:۔

٭ ’’دسمبر میں پاک فوج کو انتخابات میں امن و امان کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میرے زیر کمان 26 ایف ایف کو ضلع دنیاج پور میں انتخابات کی نگرانی کا کام سونپا گیا جس کی آبادی 25 لاکھ تھی۔ ہماری اعلیٰ قیادت کی طرف سے جو احکامات ہمیں دیئے گئے تھے ان کے مطابق ایک طرف تو انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا تھا لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ احکامات بھی دیئے گئے تھے کہ فوج اس وقت تک پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل نہ ہو جب تک الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے ایسا کرنے کی درخواست نہ کی جائے۔ یہ احکامات محض اس مفروضے کی بنا پر دے دیئے گئے کہ بنگالی سول حکام ووٹنگ کے دوران اپنی غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے مکمل دیانت داری سے فرائض انجام دیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ الیکشن کے عملے کو من مانی کی اجازت دے دی جائے۔

عوامی لیگ نے اپنی ’’مکمل فتح‘‘ کو کس طرح ممکن بنایا؟ کیا ایک شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن میں ایک پارٹی باقی پارٹیوں کا مکمل صفایا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی؟ ایک ایسا معاشرہ جو اندر سے تقسیم تھا اور جس کے حزب اختلاف میں مولانا بھاشانی جیسے سیاسی رہنما شامل تھے ایک ہی رات میں ایک نقطے پر متحد ہوسکتا تھا؟ یا پھر یہ نتائج دھونس دھاندلی کے زور پر حاصل کیے گئے؟ بنگالی سول انتظامیہ نے اس ڈرامے میں اپنے اثر و رسوخ اور سرپرستی کے ذریعے کیا کردار ادا کیا؟ کچھ سوالات کے جوابات تو سب جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ نے پہلے ہی مولانا بھاشانی کے 1400 فعال کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ بعد میں مولانا بھاشانی انتخابات سے دستبردار ہوگئے تھے۔

مسلم لیگ کے پارٹی فنڈز منجمد کردیئے گئے تھے جس سے اسے شدید دھچکا پہنچا۔ جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کا عوامی لیگ کے غنڈوں نے ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ ایک بات جسے ہمیشہ نظر انداز کردیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ الیکشن فوج کی عمومی نگرانی میں ہوئے لیکن ووٹنگ اور گنتی کا عمل مقامی سول انتظامیہ کے ہاتھ میں تھا۔ یہ سول انتظامیہ ہی تھی جس نے عوامی لیگ کے عسکری ونگ کے کارندوں کے ساتھ مل کر ’’مکمل فتح‘‘ کو یقینی بنایا۔ یہاں ایک تسلیم شدہ کہاوت کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ’’جمہوریت محض ایک فرد ایک ووٹ کا نام نہیں، اس کا دار و مدار اکثر اس بات پر ہوتا ہے کہ ووٹ کی گنتی کون کرتا ہے۔

بظاہر ہم نے اپنے ذاتی مفادات کے ہاتھوں عوامی لیگ کے کارکنوں اور مقامی سول انتظامیہ کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ہم ان کے غلبے کے خلاف ردعمل دینے سے قاصر رہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمیں ظاہر داری قائم رکھنے کی فکر مارے جارہی تھی حالانکہ ہمیں اپنے طرز عمل کے حقیقی مقصد کی فکر کرنی چاہیے تھی۔ ہم اپنے ناک سے آگے دیکھنے سے قاصر رہے، ہم نے خود کو صورتحال کے اصل حقائق سے الگ تھگ کرلیا اور اس بات کی آزادی دے دی کہ انتخابی ’’فتح‘‘ کے قانونی اور مبنی برحق ہونے کے نام نہاد دعویٰ پر مہر تصدیق ثبت کردی جائے۔ فوج اور عدلیہ کو باہم ملا کر ایک ایسا نظام وضع کیا جا سکتا تھا جس کے ذریعے آزادانہ اور غیر جانبدانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جانا ممکن ہوتا۔ مارشل لاء کی مشنری کا حصہ ہونے کے باعث ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم انتخابات میں شفافیت کو یقینی بناتے۔ لیکن ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔‘‘

میجر جنرل شوکت رضا پاک فوج کے ان افسروں میں شامل تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ اپنی کتاب The Pakistan Army 1966-71 میں لکھتے ہیں:

٭ ’’ہمارے ہاں یہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ آمرانہ حکومتیں اہل اور دیانتدار اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔ درحقیقت آمرانہ حکومتوں کے ڈھانچے میں ایک بنیادی سقم پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں عوامی احتساب کا کوئی خوف نہیں ہوتا جبکہ اس کی حیثیت ریاست کے لیے ایک دفاعی حصار جیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے آمریتوں میں کرپشن تیزی سے پنہپتی ہے۔ ول ڈیورنٹ نے کہا تھا، ’’اختیار اور طاقت کا نشہ کرپٹ کرنے سے کہیں زیادہ ذہنی خلل اور خلفشار کا باعث بنتا ہے جس کے سبب بلاسوچے سمجھے عجلت میں فیصلہ سازی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دور اندیشی کا حفاظتی حصار کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔‘‘

مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ان کا تجزیہ کچھ اس طرح سے ہے:

٭ ’’1971ء کا برس پاکستان کے لیے اندروہناک رہا۔ ممتاز جرمن ماہر عسکری امور کارل وان کلازویٹنر نے کہا تھا ’’جنگ اپنی پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کا ایک دوسرا ذریعہ ہوتی ہے‘‘ پاک فوج 1971ء کی جنگ میں یوں اس قول فیصل کا شکار ہوئی کہ اس نے ایک ایسی صورتحال میں کُود پڑنے کا فیصلہ کیا جس سے عہدہ برا ہونا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہم اس زعم باطل کی بنیاد پر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں فوجی آپریشن کی فاش غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے کہ وہاں کے شہریوں کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ ہم وہاں کے لوگوں اور جغرافیہ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ہم وہاں کے عوام اور فوجیوں پر مسلسل جبر سے پیدا ہونے والے ردعمل کا اندازہ لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں بھارت کے متوقع ردعمل کی تمام جہات اور شدت کو قبل ازوقت سمجھنے میں بھی مکمل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ہم نے اپنی فوج کی بہترین افرادی قوت کو انتہائی بے دردی کے ساتھ برباد کیا اور اسے ایک ایسے راستے پر روانہ کردیا جس کا اختتام عسکری حزیمت پر طے شدہ تھا۔

1971ء کے پر آشوب واقعات سے اگر کچھ سیکھا جاسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ جنگ کے ذریعے اپنے پالیسی مقاصد کا حصول صرف فاتح کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ مفتوح کی کوئی پالیسی نہیں ہوتی، اسے صرف عسکری ہزیمت کو قبول کرنا پڑتا ہے۔‘‘

٭٭٭

ہمارے ہاں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر کئی طرح کے نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ کچھ دانشور یہ استدلال کرتے ہیں کہ دونوں حصوں کی ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دوری ایسی کمزوری تھی جس کے باعث پاکستان کا متحد رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ پاکستان میں بسنے والے بھارت نواز دانشور اسے بھارت ہی کی طرح دو قومی نظریے کے ابطال کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دی بن جانے پر اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔‘‘

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اس بات کو فراموش کر دینا چاہئے، اس کا ذکر کرنے پر بھی پابندی ہونی چاہئے تاکہ نئی نسل کو ہر قیمت پر بھارت سے دوستی پر آمادہ کیا جا سکے اور بہت سے حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے واقعے کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ اس سانحے کے درست اور بے لاگ تجزیے پر ہی مستقبل کا مضبوط پاکستان اُبھر کر سامنے آ سکتا ہے اور یقینا باوقار قومیں اسی نقطہ نظر کو لے کر آگے بڑھتی ہیں کیونکہ شکست انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ آج جو اقوام دنیا کی بڑی، طاقتور اور اہم قومیں شمار ہوتی ہیں سب کبھی نہ کبھی شکست کے تجربے سے گزر چکی ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ کوئی قوم کتنی دیانت داری اور خلوص کے ساتھ شکست کے اسباب کا تجزیہ کرتی ہے اور کتنی شدت کے ساتھ خود کو شکست خوردگی کے احساس سے نکال کر نئے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اس وقت دنیا پر سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھنے والے مغربی بلاک جس طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لئے میڈیا کو استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کسی بالکل معمولی صورت حال کو غیرمعمولی بنا کر پیش کرنا ان کے لئے کوئی مشکل بات نہیں۔ میڈیا کے ذریعے بڑے سے بڑے ظلم اور بربریت کو دبا دینا اور اپنے مقاصد کے لئے کسی معمولی سی بات کو پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بنا کر پیش کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

عراق پر امریکی حملے کا جواز گھڑنے میں بھی مغربی میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ فلسطین کے معاملے پر بھی یہ طرزعمل اختیار کیا جاتا ہے اور کشمیر میں بھارتی بربریت کے باوجود الٹا بھارت ہی کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ ابھی چند دن قبل پاکستان کے وزیرخزانہ اسد عمر کے بی بی سی کو انٹرویو کو نشر کرنے سے پہلے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے بارے میں پاکستانی وزیرخزانہ کے دلائل پر مبنی حصوں کو کاٹ دیا گیا حالانکہ پراپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ مغربی میڈیا سچ کی سربلندی کے لئے کسی کی پروا نہیں کرتا۔ 1971ء کے بحران کے دوران بھی مغربی میڈیا نے یہی کردار ادا کیا تھا۔

حیران کن امر یہ ہے کہ 1971ء کے بحرانی دنوں میں اسلام آباد میں امریکی سفیر بظاہر پاکستان کے استحکام اور سالمیت کی حمایت پر کمربستہ نظر آتا تھا جبکہ ڈھاکہ میں امریکی قونصلیٹ جنرل عوامی لیگ کی حمایت اور پاک فوج کی مخالفت کی حکمت عملی پر گامزن تھا۔ اب بھی ہم اس دوغلی پالیسی کا شکار ہیں۔ ہمیں مغربی میڈیا کی حکمت عملی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنی افواج اور انٹیلی جنس اداروں پر فخر ہے۔ ہمارے عسکری اداروں نے ہمیشہ غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں دنیا کی دس بہترین مسلح افواج اور دس بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن پر اکتفاء کر لینے کے جھانسے میں آنے کے بجائے اپنے تجزیے، تجربے اور محنت پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ غیرجانبداری سے دیکھا جائے تو اپنے ملک اور قوم کے لئے بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ انہوں نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنے دشمن ملک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں نکل آنے پر آمادہ کیا اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، اس سے زیادہ کسی فوج سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں اس معاملے کے تمام نقطہ ہائے نظر سے قطع نظر اگر یہ دیکھا جائے کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے سے خطہ کی کیمسٹری میں کیا تبدیلی آتی ہے تو اصل میں یہ ہوا ہے کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر کے بھارت کسی امکانی جنگ کی صورت میں اپنے عسکری وسائل کو دو بالکل متضاد سمتوں میں بٹے محاذوں پر تقسیم کرنے کی تباہ کن صورت حال کے اندیشے سے محفوظ ہو گیا ہے۔ پاکستان کو قدرتی طور پر بھارت کو جنگ میں دو محاذوں پر الجھا لینے کی جو قوت نصیب ہوئی تھی اسے کھو دیا گیا۔

ذہنی سطح پر مغربی برتری کی اسیر ہماری قیادت نے غلام ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مغربی مفروضے پر تکیہ کئے رکھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر اب یہ ہوا ہے کہ بھارت کے خلاف جو جغرافیائی برتری ہمیں رب تعالیٰ نے عطا کی تھی، بھارت نے اپنی محنت سے یہ برتری خود حاصل کر لی ہے اور ہمارے لئے ایک کے بجائے دو متضاد سمتوں میں پھیلی طویل سرحدوں پر خطرات کھڑے کر کے فوجی قوت کو تقسیم کر دیا ہے۔ اگر اب بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں اور ہم اپنی کھوئی ہوئی برتری کے لئے میدان عمل میں نہیں اُترتے تو پھر آنے والا وقت انتہائی مشکل ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔