کشمیر کو نظرانداز کرنا حماقت ہے
قسمتی سے اس 71 سالہ تنازعہ کے بامعنی حل کے حوالے سے کوئی خبر نہیں۔
کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال کا عرصہ ہو رہا ہے، اس عرصے میں جانے کتنی بار دنیا تباہ ہوئی، جاندار پیدا ہوئے اور مٹ گئے۔ اس عرصے میں جانے کتنی جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں میں کتنے انسان جان کی بازی ہارگئے۔
اس سوال کا جواب حاصل کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن اس لیے ہے کہ کرۂ ارض پر انسان کی معلوم تاریخ بارہ، پندرہ ہزار سے زیادہ عرصے پر محیط نہیں ہے، ویسے انسان کا کرۂ ارض سے تعلق لاکھوں برسوں سے مانا جاتا ہے۔
ہمارے محققین نے کرۂ ارض کے اہم مسائل پر بے پناہ تحقیق کی ہے اور کرۂ ارض کے انسانوں کو اس حوالے سے بے پناہ معلومات بھی فراہم کی ہیں لیکن کرۂ ارض پر جنگوں اور قتل و غارت کی مستند تاریخ شاید دنیا میں نہیں ہے اور اس تاریخ کا دستیاب ہونا اس لیے ممکن نہیں کہ کرۂ ارض کی معلوم تاریخ مشکل سے بارہ پندرہ ہزار سال پر مشتمل ہے۔
آج اس موضوع پر بات کرنے کا خیال یوں آیا کہ آج کے اخبارات میں کشمیر کے حوالے سے بہت ساری خبریں موجود ہیں لیکن بد قسمتی سے اس 71 سالہ تنازعہ کے بامعنی حل کے حوالے سے کوئی خبر نہیں۔ کشمیر کا تنازعہ بنیادی طور پر جہل اور جبر سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ معلوم کرنا تو دورکی بات ہے کہ کشمیر کی تاریخ کتنی پرانی ہے لیکن یہ بات البتہ بڑے وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ اس تنازعہ کا آغاز بظاہر قیام پاکستان کے ساتھ شروع ہوا، انسان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے کرۂ ارض پر اشرف المخلوقات کا اعزاز بخشا گیاہے ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی جو انسان کو اشرف المخلوقات کا اعزاز بخشے لیکن قدیم دنیا سے جدید دنیا تک انسان نے جہل کے ایسے کارنامے ضرور انجام دیے ہیں جو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی نفی کرتی ہیں۔ مثلاً زمانہ قدیم میں وحشیانہ جنگوں کا سلسلہ اور دور حاضر میں دو عالمی جنگوں کے علاوہ کوریا، ویت نام، کمبوڈیا کی جنگیں اور حال میں افغانستان، یمن، عراق، شام وغیرہ کی جنگیں۔
جنگیں بنیادی طور پر جہل کا پروڈکٹ ہیں لیکن یہ کیسی دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ بہت ساری مشہور جنگیں بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی لڑی گئیں اور لڑی جا رہی ہیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ اگرچہ کہ جنگوں کے محرکات کو عموماً قومی مفادات کا نام دیا جاتا ہے، لیکن جنگیں کسی بھی حوالے سے لڑی جائیں آج کا انسان اسے جہل کا نام ہی دیتا ہے کیونکہ دنیا میں آج تک کوئی مسئلہ ایسا نہیں دیکھا گیا جو بات چیت کے ذریعے حل نہ ہو۔
یہ جدید دور کے قدیم انسان کی جبلت اور جہالت ہے کہ وہ ایسے تنازعات کے حوالے سے جنگیں لڑتا آیا ہے جنھیں انسان آسانی سے بات چیت کے ذریعے حل کر سکتا ہے۔ ایسے ہی مسائل میں دور جدید کا ایک مسئلہ کشمیر ہے اور جب تک مہذب جہل عقل و شعور پر حاوی رہے گا کشمیر کی جنگیں جاری رہیںگی اور بے گناہ انسان لاکھوں کی تعداد میں مرتے رہیں گے اور انسان کے کالے منہ کو گورا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
دنیا میں کوئی ایسا ملک موجود نہیں جہاں جرائم نہ ہوتے ہوں، پسماندہ ملکوں میں جرائم کی وجہ غربت، بیروزگاری ہے، ایک غریب کو جب کام نہیں ملتا تو اسے اجرت نہیں ملتی، جب اسے اجرت نہیں ملتی تو اس کی فیملی کو بھوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے بہر حال غذا درکار ہوتی ہے اور غذا کے لیے پیسہ چاہیے ہوتا ہے۔ جب ایک فرد غذا خریدنے سے مایوس اور ناکام ہوتا ہے تو وہ اپنے اطراف اور اپنے سرکل پر نظر ڈالتا ہے کہ کیا کسی دوست، کسی رشتے دار سے کچھ پیسے ادھار مل سکتے ہیں اور اسے کوئی دوست کوئی رشتے دار ایسا نظر نہیں آتا کہ وہ اس کی مدد کرے تو اس کی نظریں جرائم کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ چھوٹی موٹی چوری کرتا ہے یا کوئی ایسا جرم کرتا ہے جس سے اس کے گھر کی بھوک کا انتظام ہو سکے۔
وہ چوری، بھیک وغیرہ کو برا سمجھتا ہے لیکن جب اس کی نظروں میں بھوک سے بلبلاتے بچے گھوم جاتے ہیں تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی جرم کر لیتا ہے۔ جب وہ مجبوری میں پہلا جرم کرتا ہے تو اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ جس راستے پر چل پڑا ہے وہ راستہ اسے ایک بڑا مجرم بھی بنا سکتا ہے اسے خیال آتا ہے کہ وہ اس راستے پر نہ چلے جو اسے ذلت و خواری کی طرف لے جاتا ہے لیکن چونکہ چوری یا اسی قسم کا کوئی کام کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا سو وہ پہلا جرم کر بیٹھتا ہے لیکن اس جرم پر اس کا ضمیر اسے بہت ملامت کرتا ہے۔ اس وقت تک وہ ایک سخت کشمکش میں پھنسا ہوا ہوتا ہے لیکن بیوی بچوں کی بھوک کا خیال اسے جرائم کے راستے پر دھکیل ہی دیتا ہے وہ چوری بڑی احتیاط سے کرتا ہے لیکن پکڑ لیا جاتا ہے۔
پولیس کا سپاہی اسے ڈراتا دھمکاتا ہے لیکن چونکہ اس کا چوری کیا ہوا پیسہ بہت کم ہوتا ہے لہٰذا وہ پولیس والوں کو رشوت دے سکتا ہے یا بچوں کے لیے خوراک خرید سکتا ہے اس کی چوری میں اس کی مرضی شامل نہیں ہوتی صرف جبر شامل ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو مجرم نہیں سمجھتا مجبور سمجھتا ہے۔ مجبوری میں اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم اسے جرائم کی دنیا تک پہنچا دیتا ہے۔ بیوی بچوں کی بھوک کا احساس اسے اپنی مرضی کے خلاف چوری کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
پولیس کے سپاہی سے وہ اپنی تمام مجبوری بتاتا ہے لیکن پولیس کا سپاہی اس کی مدد جس طریقے سے کرنا چاہتا ہے وہ جرم کا طریقہ ہے وہ پولیس کے سپاہی کو رو رو کر بتاتا ہے کہ وہ ایک ایماندار انسان ہے اب تک وہ محنت سے روٹی حاصل کرتا آیا ہے لیکن ادارے کے مالکان چاہتے تھے کہ ملز کی آمدنی میں اضافہ ہو اس کا ایک آسان ذریعہ یہی تھا کہ مزدوروں کی چھانٹی کر دی جائے، مل مالک ملز سے 30 مزدوروں کو نکال دیتا ہے۔
مزدوروں کومالک نوکریوں سے نہ نکالے تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہو گا لیکن زیادہ منافعے کی ہوس اسے تیس مزدوروں کی چھانٹی پر مجبور کر دیتی ہے، اسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ 30 مزدور اپنے خاندان کے ساتھ کیسے گزراوقات کریں گے۔