وقت کی قدر

راحیل گوہر  جمعـء 4 جنوری 2019
’’ وقت مثلِ شمشیر ہے اگر تُو اسے نہیں کاٹے گا تو وہ تجھے کاٹ دے گا۔‘‘ فوٹو : فائل

’’ وقت مثلِ شمشیر ہے اگر تُو اسے نہیں کاٹے گا تو وہ تجھے کاٹ دے گا۔‘‘ فوٹو : فائل

انسان اس دنیا میں دو بنیادوں کے تحت زندگی بسر کر تا ہے۔ ایک اس کی اپنی ذات ہے جس کی بقا و سلامتی کے لیے اسے دنیاوی اسباب و وسائل درکار ہوتے ہیں، جن کو استعمال کرکے وہ اپنے لیے خوراک، لباس، رہائش اور دیگر بنیادی سہولتیں حاصل کرتا ہے۔ اور دوسرے اسے اپنے اخلاق و کردا رکے تزکیے اور اپنی تہذیب و تمدن کی آبیاری اور نشوو نما کے لیے مذہب کے سہارے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ البتہ ہر انسان کے مذہب اور اس کی اپنی ذات کے حوالوں سے جو قدرِ مشترک ہے، وہ ہے وقت۔

تاریخ خود کو دہراتی ہے، اس اعتبار سے ہر چیز لوٹ کر ضرور آتی ہے، صحت چلی جائے تو بر وقت علاج سے پھر حاصل ہوجاتی ہے، دولت ضایع ہوجائے تو اچھی منصوبہ بندی اور محنت سے پھر ہاتھ میں آجاتی ہے۔ طوفان اور زلزلے بڑی بڑی عمارتوں کو زمین بوس کر دیتے ہیں مگر مادی وسائل، فنی مہا رت اور افرادی قوت سے بلند بالا عمارتیں پہلے سے اور بہتر حالت میں بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ لیکن وقت اگر گزر جائے تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

رسول مکرم ﷺ نے وقت کی اہمیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس وقت ہر دن یہ اعلان کر تا ہے کہ اگر آج کوئی بھلائی کر سکتا ہے تو وہ کرلے، آج کے بعد میں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔‘‘(بہ حوالہ: جمع الجوامع عن علّامہ سیوطیؒ)

وقت، برف کی مانند ہے جو اگر بر وقت فروخت نہ ہو تو آہستہ آہستہ پگھل کر ختم ہوجاتی ہے اور اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ وقت کو اپنی گرفت میں نہ رکھا جائے تو وہ مٹھی میں دبی ریت کی طرح پھسل جاتا ہے اور پھر انسان کو سوائے پچھتاوے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وقت کا ہر گزرتا ہوا لمحہ انسان کو موت سے قریب کر تا رہتا ہے۔ وقت کی قدر نہ کی جائے اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے تو وقت بڑی بے رحمی کا مظاہرہ کر تا ہے اور اپنی قدر نہ کرنے والوں کو بڑی کڑی سزا دیتا ہے۔ کسی دانا کا قول ہے: ’’ وقت مثلِ شمشیر ہے اگر تُو اسے نہیں کاٹے گا تو وہ تجھے کاٹ دے گا۔‘‘

اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو ہر اس کام سے بچنے کی راہ دکھاتا ہے جو دین و دنیا کے زیاں سے جُڑا ہوا ہو۔ اگر انسان غفلت میں پڑ کر دنیا کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا اور عزت و خود داری کی زندگی بسر کرنے کے قابل نہ بن سکا تو یہ احساسِ محرومی اسے سر اٹھا کر جینے نہیں دے گا۔ دنیوی بکھیڑوں اور گھمبیر مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ عزت نفس مجروح ہوگی، ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی، اپنے اطراف کی رنگا رنگی دیکھ کر کڑھن کا احساس دل میں جنم لے گا۔ اپنے سے بہتر زندگی بسر کرنے والوں سے حسد، کینہ، بغض و عداوت اور نفرت کا رویہ خرمن اخلاق کو جھلسا کر رکھ دے گا اور یہی بات اسلام کے مزاج کے قطعی منافی ہے۔ کیوں کہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام لے کر دنیا میں آیا ہے ورنہ اسلام کی آمد سے قبل اس کائنات میں یہی کچھ تو ہورہا تھا۔ جو دولت و طاقت کا مالک تھا وہ کم زوروں اور مفلس لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا اور ہر سو فسادِ آدمیت برپا تھا۔

دنیا اور آخرت کے مابین جو مہلت عمر انسان کو دی گئی ہے، وقت کی جو دولت ہر مؤمن و کافر، نیک و بد کو خالق کائنات کی طرف سے بخشی گئی ہے، اس مہلت اور وقت میں کیے گئے ہر عمل کا حساب ایک دن ہر و ناکس کو دینا ہوگا۔ حدیث میں ایسے پانچ سوالات کا ذکر ہے جن کا جواب دیے بغیر انسان اپنے قدم نہیں ہلا سکے گا، مفہوم : ’’ اپنی عمر کن کاموں میں صرف کی؟ جوانی کہاں گزاری؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور اسے کن کاموں میں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا تھا اس پر کتنا عمل کیا؟ یہ تمام کام انسان اس وقت اور مہلت عمر میں ہی انجام دیتا ہے جو اس کو اﷲ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ یہ دنیا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے اور نہ لہو و لعب کی خرمستیاں کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور اس میں دیے ہوئے وقت میں ہر انسان اپنے کردار و عمل سے اپنا اعمال نامہ خود لکھ رہا ہے اور اﷲ کے کارکنانِ قضا و قدر ہر ایک کے عمل اور اس کی نشست و برخواست کا جائزہ لے رہے ہیں۔

علّامہ ابن القیم الجوزیؒ نے فرمایا ہے: ’’ انسان کا وقت ہی اس کی زندگی ہے اور وقت ہی مستقبل کی تلخی یا مٹھاس کا سبب بنتا ہے۔ اس کی رفتار ہواؤں سے اڑنے والے بادلوں کی دوڑ سے بھی تیز ہوتی ہے۔ خدا کی عبادت و ریاضت میں گزرنے والا لمحہ ہی انسان کو جینے کا استحقاق عطا کر تا ہے۔ اس لیے ایک غافل اور بے فکر شخص کے لیے زمین پر بوجھ بننے سے بہتر ہے کہ وہ زمین کے اندر چلا جائے۔‘‘

انسان کا ہر لمحۂ زندگی اس کے فنا کی تمہید اور اس کے عدم کی انتہاء ہے۔ لہٰذا عدم و فنا طاری ہونے سے پہلے فائدہ اٹھا لینا ہی عقل مندی ہے۔ اگر اﷲ کی طرف سے دی ہوئے مہلت ختم ہوگئی تو ایک ساعت کا بھی اس میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ ہر شخص کا اصل سرمایہ وقت ہی ہے، جو دبے پاؤں کھسک رہا ہے۔ جو لمحہ بیت گیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ ہمارا آج، کل ہمارا ماضی بن جائے گا۔ اور ماضی ہر صورت میں درد ناک ہوتا ہے۔ خوش گوار ماضی کی یادیں انسان کی آنکھیں نم کر دیتی ہیں اور تکلیف دہ ماضی کی چبھن وجود میں چنگاریاں دوڑا دیتی ہیں۔

رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’ دو حقیقتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک صحت اور دوسرے فراغت۔‘‘ (بخاریؒ، ترمذیؒ)

اس حقیقت پر جس کا یقین کامل ہو کہ وقت ہی اس کی متاع حیات اور اصل اثاثہ ہے وہی ایک کام یاب انسان ہے، اور جس نے وقت کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کا نہ ادراک کیا اور نہ اس پر عمل پیرا ہوا وہ خسارے میں پڑگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔