دلکش دھنوں کا خالق ، کریم شہاب الدین

یونس ہمدم  ہفتہ 5 جنوری 2019
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

موسیقارکریم شہاب الدین جس نے ڈھاکہ کی اردو فلموں سے شہرت پائی اور پھرکراچی ٹی وی اور لاہورکی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگیا تھا، اس سے پہلے کہ میں اس کی دلکش دھنوں اور دلنوازگیتوں کا تذکرہ کروں ، اس کی ابتدائی کہانی سناتا ہوں جو اس نے مجھے سنائی تھی ۔کریم شہاب الدین بمبئی کی ایک بزنس فیملی سے تعلق رکھتا تھا، اس کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ بڑا ہوکر اس کا بزنس میں ہاتھ بٹائے گا مگر اسے بچپن ہی سے موسیقی سے پیار ہوگیا تھا۔ وہ ایک دن باپ سے ضد کرکے گٹار خرید لایا اور پھر صبح شام وہ ہوتا تھا اور اس کا گٹار ۔ پھر وہ گٹار پر مشہور فلمی گانوں کی دھنیں بجانے لگا ۔ جیسے جیسے اسے شعور آتا گیا ، موسیقی اس کی رگ رگ میں سرائیت کرتی چلی گئی ۔

وہ موسیقار نوشاد ، لکشمی کانت پیارے لال اورکلیان جی آنند جی کا دیوانہ تھا اور زیادہ تر اپنے گٹار پر موسیقی کے فنکشنوں میں ان کی دھنوں کو بجا کر داد حاصل کیا کرتا تھا ۔ پھر وہ بمبئی کے آغا خان میوزک آرکسٹرا میں شامل ہوگیا اب وہ ایک ماہرگٹارسٹ بن چکا تھا۔ ایک دن ایک فلمی میوزیشن دوست کی وساطت سے اس کی ملاقات موسیقارکلیان جی آنند جی سے ہوگئی ۔کریم شہاب الدین نے اپنے گٹار پر ان کی کچھ دھنیں بجاکر ان کو سنائیں تو وہ بڑے خوش ہوئے اور بولے’’ کریم تم بہت پرفیکٹ گٹارسٹ ہو، ایک دن تم ضرور موسیقار بنوگے۔ میری آیندہ کسی فلم میں مجھے گٹارکی ضرورت پڑی تو میں تم کو ضرور بلاؤں گا۔‘‘ کریم بہت خوش ہوا اور پھر بات آئی گئی ہوگئی ۔

اب بمبئی کے میوزک پروگراموں میں کریم شہاب الدین کی بڑی مانگ ہونے لگی تھی پھر یوں ہوا کہ کریم شہاب الدین کے والد بزنس کی غرض سے بمبئی سے ڈھاکہ چلے گئے اور پھر ڈھاکہ ہی میں اپنا بزنس شروع کردیا۔ کریم شہاب الدین نے بھی ڈھاکہ میں میوزک کو ہی اپنا پروفیشن بنالیا اور بطور میوزک ارینجر۔ یہ بنگالی فلموں میں بیک گراؤنڈ میوزک دینے لگا، اسی دوران اس کی ملاقات موسیقار روبن گھوش سے ہوئی ان دونوں کی آپس میں گہری دوستی ہوگئی۔

پھر جب ڈھاکہ میں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو روبن گھوش، بشیر احمد اور موسیقار کریم شہاب الدین تینوں بحیثیت موسیقار معروف ہوتے چلے گئے یہ وہ دور تھا جب لاہور سے اکثر گلوکاروں، گلوکاراؤں کو اردو گیت گوانے کے لیے ڈھاکہ بلایا جاتا تھا اور اس دوران سلیم رضا، مالا، ناہید نیازی، احمد رشدی ، مسعود رانا اور مجیب عالم کی آوازوں میں گیت ریکارڈ کیے جاتے تھے ۔ کریم شہاب الدین نے کئی فلموں کے لیے سپرہٹ دھنیں ترتیب دی تھیں ان میں خاص طور پر فلم ’’کیسے کہوں‘‘ اور ’’چاند اور چاندنی‘‘ کے گیتوں نے ڈھاکہ سے لاہور تک ایک دھوم مچا دی تھی ۔ فلم ’’چاند اور چاندنی‘‘ 1968ء کی فلم تھی۔ اس فلم کے چند گیت جو مشہور ہوئے وہ مسعود رانا، مالا اور احمد رشدی نے گائے تھے اور شاعر سرور بارہ بنکوی نے لکھے تھے اور وہ گیت تھے۔

یہ سماں موج کا کاررواں

ساتھ ہے ہم سفر لے چلا ہے کہاں

……

جان تمنا خط ہے تمہارا

پیار بھرا افسانہ‘ دل لے لو نذرانہ

……

تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے

اِک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے

فلموں کے علاوہ کریم شہاب الدین کی موسیقی میں کئی میوزک البم بھی بڑے سپرہٹ ہوئے تھے، ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں۔ ان البم کے ذریعے ہی شہناز بیگم، رونا لیلیٰ اور عالمگیر کو شہرت ملی تھی۔

٭متوا ترو ترو (رونا لیلی)

٭گھٹا سب جانے (رونا لیلیٰ)

٭سونا سونا آسماں (عالمگیر)

٭پریم نگر دور نہیں (گلشن آرا سید)

٭مجھے پیار نہ کرو اتنا (گلشن آرا سید)

٭بیسٹ آف عالمگیر (عالمگیر)

٭میں پیاسی مرا من پیاسا (شہناز بیگم)

یہ سارے البم بڑے ہٹ ہوئے تھے۔ موسیقار کریم شہاب الدین کی شہرت اسے ڈھاکہ سے کراچی لے آئی ۔ کراچی میں اس نے پہلے ٹیلی ویژن پرکام کیا ، پھر ایک فلم ’’بولی اینڈ جولی‘‘ کی موسیقی دی ۔ یہ فلم تمام نئے چہروں کے ساتھ کراچی میں فلم بند کی گئی تھی اور اس فلم کے لیے ایک ڈوئیٹ گلوکارہ ناہید اختر اور عالمگیر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول تھے:

ایسا نشہ تیرے پیار نے دیا

سوچا نہ تھا

اسی فلم میں کریم شہاب الدین نے ایک گیت گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا تھا جس کے بول تھے:

ٹوٹ گیا سپنا دیکھے بنا سجنا

پیار تمہارا دیکھ لیا ہے

یہ دونوں گیت فلم اسٹوڈیو کے بجائے ای ایم آئی گرامو فون کمپنی میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ فلم ’’بوبی اینڈ جولی‘‘ نئی کاسٹ کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی، پھرکریم شہاب الدین لاہور آگیا تھا۔ لاہور میں پہلے کچھ میوزیکل پروگرام پروڈیوسر رفیق وڑائچ کے ساتھ کیے جن میں ’’سر ساگر‘‘ کے نام سے ایک پروگرام میں نے بھی لکھا۔ اسی دوران کریم شہاب الدین کو ہدایت کار اقبال اختر کی فلم ’’شرمیلی‘‘ میں موسیقی دینے کا موقع ملا جس میں ندیم اور ممتاز مرکزی کردار میں تھے اور فلم کے مکالمے اسکرین پلے اور تمام گانے میرے لکھے ہوئے تھے ۔ یہ فلم اپنے دلکش گیتوں کی وجہ سے چلی تھی اور اس فلم میں پہلی بار نئے گلوکار اے نیر کو ایک سولوگیت گوایا گیا تھا۔ اس فلم کے مندرجہ ذیل گیت بڑے مشہور ہوئے تھے:

٭جی رہے ہیں ہم تنہا‘ اور تیرا غم تنہا (اے نیر)

٭تو سامنے ہے میرے تجھ سے ہی زندگی ہے (احمد رشدی)

٭میں نہ جاؤں گی سسرال میرا میاں کمائے نہ (مہ ناز)

٭دل دے بیٹھی نادانی میں، آگ لگا دی یوں پانی میں (ناہید اختر)

٭بھیگے بھیگے موسم میں ساتھی میرے آجا ، آجا (احمد رشدی)

٭مجھے تو اچھا لگتا ہے، میری سانسوں میں بستا ہے (مالا)

فلم ’’شرمیلی‘‘ کے بعد کریم شہاب الدین کو لاہور میں ایک فلم اور ملی تھی۔ ’’انتقام کے شعلے‘‘ اس فلم کے ہدایت کار عارف خان تھے مگر یہ فلم فلاپ ہوگئی تھی اور اس فلم کے فلاپ ہونے سے کریم شہاب الدین بڑا دل برداشتہ ہوا تھا، پھر لاہور میں گروپ بندی نے بھی کریم شہاب الدین کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔ دراصل کریم شہاب الدین لاہور فلم انڈسٹری کے ماحول میں خود کو بڑا اجنبی محسوس کرتا تھا اور وہ خود کو کسی صورت میں جب وہاں ایڈجسٹ نہ کرسکاتو لاہور سے واپس کراچی چلا گیا تھا۔ پھر کچھ دنوں بعد جب میں کراچی گیا تو وہاں گلوکار اے نیر بھی کراچی گیا ہوا تھا تو ای ایم آئی گرامو فون کمپنی نے اے نیر کی کراچی میں موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک میوزک البم تیار کرایا جس کی موسیقی کریم شہاب الدین نے دی تھی اور اس کے سارے گیت میں نے ہی تحریر کیے تھے۔ اس میوزک البم کے چند گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جن کے بول تھے:

٭چاند تارے گھٹا، پھول شبنم ہوا

٭ہرکسی کو دل دینے کا وعدہ نہ کرو

٭آہستہ چلو یہ سفر ہے نیا

٭جھیل کنارے اک لڑکی

٭موسم ہے موقع موڈ کیا ہے

اس میوزک البم کی ریکارڈنگ کے بعد میں اے نیر اور میں واپس لاہور چلے گئے تھے۔ پھر مجھے کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ کریم شہاب الدین اپنی فیملی کے ساتھ امریکا شفٹ ہوگیا ہے۔ میں جب امریکا آیا تو میری خواہش تھی کہ اس سے ملاقات کرتا مگر یہاں مجھے اس کے انتقال کی خبر ملی تھی اور میں کئی دنوں تک سو نہ سکا تھا۔ اس کے ساتھ میں نے کراچی ٹیلی ویژن، لاہور ٹیلی ویژن، گراموفون کمپنی اور لاہور کی فلموں کے لیے ان گنت گیت لکھے تھے وہ بہت ذہین موسیقار تھا، ہماری فلمی دنیا نے اس کی قدر نہیں کی کاش وہ کچھ اور عرصہ زندہ رہتا مگر خدا کو منظور نہیں تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔