سندھ کی دھماکا خیز صورت حال

پیپلز پارٹی اور عبداللہ شاہ کو یہ اطمینان ہے کہ سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت کی وجہ سے ان کا قلعہ محفوظ ہے


رفیق پٹیل January 09, 2019

جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے درمیان کھلی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما علی الاعلان مراد علی شاہ کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جواب میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کا کہنا ہے کہ وفاق سندھ میں کسی بھی غیرآئینی مہم جوئی سے باز رہے، اپنی توجہ حکومت کی آمدنی اور محصولات پر مرکوز رکھے اور تحریک انصاف خود مرکز میں اقلیتی حکومت کو بچانے کے انتظامات کرے ۔

اس طرح دونوں جانب سے لفظی گولہ باری نے شدید تناؤکی فضا پیدا کردی ہے۔ پیپلز پارٹی اور عبداللہ شاہ کو یہ اطمینان ہے کہ سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت کی وجہ سے ان کا قلعہ محفوظ ہے۔ دوسری طرف پی پی میں اندرونی اختلافات اور نئی گروہ بندی کی خبریں بھی گردش میں ہیں ۔ آئینی طور پر سندھ حکومت کی تبدیلی کے لیے عدم اعتمادکی تحریک کا کامیاب ہونا یا وزیراعلیٰ کا مستعفیٰ ہوناضروری ہے۔ ایک اور صورت وزیراعلیٰ کی نااہلی بھی ہوسکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھاری اکثریت رکھنے والی حکومت کئی مرتبہ اقتدار سے محروم ہوچکی ہیں۔ جمہوریت کا کھیل عددی اکثریت کے گرد گھومتا ہے۔ اعلیٰ عہدے کے حصول کے لیے گروہ بندی اور فارورڈ بلاک بننا بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔

سابق صدر پاکستان غلام اسحقٰ خان نے جب بے نظیر بھٹوکی حکومت کو برطرف کیا تھا تو اس وقت لندن سے جام صادق علی کو بلوایا گیا اور جام صادق نے اپنی ایک نشست پر سندھ میں حکومت تشکیل دے دی اور اراکین اسمبلی کا اعتماد حاصل کرلیا ۔ایک امکان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر سے ہی ایک گروپ کسی رکن کو مراد علی شاہ کے مقابلے میں لے آئے اور مراد علی شاہ کی وزارت اعلیٰ کا خاتمہ ہو جائے ۔ دوسری صورت یہ ہے مرکز اور صوبے کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ ہو یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف مقدمات کا کوئی ایسا نتیجہ سامنے آئے جس سے پارٹی کی سیاست متاثر نہ ہو اور نظام کاروبار اسی طرح چلتا رہے۔ حالات جو رُخ اختیار کر رہے ہیں اس میں مرکز اور صوبے کے درمیان کشیدگی میں وقتی طور پر کمی آسکتی ہے ۔ مستقل طور پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کا کوئی امکان نہیں ہے۔

کراچی میں گزشتہ چند روز میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے امن وامان کا مسئلہ سوالیہ نشان بن رہا ہے۔ پانی کی کمی اور ٹریفک کی بد نظمی بھی عوام کو متاثرکر رہی ہے۔ ان مسائل کی شدت میں اضافے کی صورت میںامن و امان کا نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے سندھ حکومت کے لیے اس طرح کے بحران سے نمٹنا مشکل ہوگا ۔

ایک امکان یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے معاملے سے پیچھے ہٹ سکتی ہے، یہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جبتک سندھ حکومت کے خلاف بڑا عوامی ردِ عمل سامنے نہیں آتا ۔ عوامی مسائل میں اضافے کی صورت میں تحریک انصاف اور سندھ حکومت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ یقینی ہے۔ لہٰذا سندھ میں دھماکا خیز صورت آج نہیں توکل ضرور ہوگی۔ سندھ کے مسائل بھی تقریباََ وہی ہیں جو پاکستان کے دیگر صوبوں کے مسائل ہیں ۔ تحریک انصاف اپنی تمام کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود مثبت سوچ رکھتی ہے اور بہتری کی خواہاں ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ اب تک سامنے نہیں آسکا ہے، لہٰذا وہ اپوزیشن کی تنقید کی زد میں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ کمزور حکومت ہے، تحریک انصاف نے حکومت ضرور حاصل کر لی ہے لیکن خود تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔ وفاق اور پنجاب میں اس کی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر قائم ہے۔ حکومت حاصل کرنے کے باوجود تحریک انصاف کے کرتا دھرتا رہنما پاکستان کے مسائل کی شدت اور بحرانی کیفیت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ وہ پاکستان کے عوام کو اس بارے میں آگاہ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان کا اصل بحران ہی '' اچھی حکمرانی سے محرومی'' ہے۔ دنیا میں صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے جس سے ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف جاتے ہیں وہ '' اچھی حکمرانی '' ہے ۔ ترقی اورخوشحالی کی جانب گامزن ممالک میں چین سر فہرست ہے۔ اس کے بعد مغربی ممالک ، امریکا ، ملائیشیا ، سنگا پور وغیرہ ہیں۔ اسی طرح دبئی کی ترقی بھی ایک مثال ہے۔ ان ممالک میں قدر مشترک اچھی حکمرانی نظم وضبط اور قوانین پر عملدرآمد ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور میڈیاکی توجہ اصل مسائل کی جانب کم ہے اور فروعی مسائل پر خوب بحث ومباحثہ کیا جاتا ہے۔ ہماری دلچسپی اس میں زیادہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر کیا الزام لگا رہی ہیں، کس نے کتنا سخت بیان دے دیا۔ سندھ میں نیا وزیراعلیٰ آئے گا یا نہیں آئے گا۔ نیا نام کس کا ہوگا۔ دوسری جانب ترقی یافتہ دنیا ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات سے استفادہ کر رہی ہے۔ وہاں آیندہ چند سالوں میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا انتہائی سستا اور جدید نظام متعارف ہونے والا ہے۔ جس کی تیاری جاری ہے۔ یہ خودکار گاڑیاں ہیں ، اس گاڑی میں کوئی ڈرائیور نہیں ہوگا ۔ اس میں سے بیشتر گاڑیاں بجلی سے کام کریں گی ۔ ٹرانسپورٹ کا خرچہ نصف سے بھی بہت کم ہوجائے گا۔ سڑکوں کواسی انداز سے تیار کیا جا رہا ہے۔ بڑے ٹرک اور ٹرالر بھی بغیر ڈرائیور ہوں گے۔ لوگوں کوذاتی گاڑی رکھنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ وہ اپنے فون سے گاڑی منگوا کر انتہائی کم خرچ میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔

اگلے مرحلے میں ہوائی جہاز بھی خود کار ہوں گے۔ پاکستان اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک کے پاس سڑکوں کا ایسا نظام بنانے کے لیے بہت بڑا عرصہ درکار ہے۔ لہٰذا ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان مزید خلیج بڑھے گی ۔ پاکستان میں محض سندھ حکومت کی تبدیلی یا اس کے برقرار رہنے سے کوئی اثر نہیں ہوگا، یہاں مسائل کی نوعیت اس قدر شدید ہے کہ اس کے لیے بھر پور اقدامات کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، پانی کی کمی ، غربت ، بے روزگاری، جنگلات کا تسلسل سے خاتمہ ، زرعی پیداوار میں کمی، برآمدات میں کمی،درآمدات میں اضافہ ، تعلیمی اداروں کی کمی، ناقص تعلیمی نظام ، صحت کی سہولیات کی کمی، اسپتالوں کی خستہ حالی ، صفائی کا ناقص نظام ، سمندری آلودگی، دریاؤں کی آلودگی، ناقص ٹرانسپورٹ، خراب سڑکیں، ٹریفک کی بدنظمی ، منشیات کی فروخت ، بدعنوانی ، پولیس کے نظام کی خرابی ،بے ایمانی، لوٹ مار اور بدامنی سمیت بے شمار مسائل بدترین شکل اختیار کر رہے ہیں جس میں اصلاح کا کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

ان مسائل کا حل بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے عوام میں شعور اور تحریک پیدا کرنی ہوگی۔ بڑے اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیا بحیثیت قوم ہم اپنے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ ایک اہم سوال ہے ذمے داری حکمران طبقات اور ملک کی اشرافیہ پر ہے اگر ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو خوشحالی اور ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔

مقبول خبریں