نواز شریف اور آصف زرداری اتحاد کی نئی راہ
مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے لیے اور پیپلزپارٹی آصف زرداری کے لیے اعلیٰ عدالت سے دیانت داری کا سرٹیفکیٹ چاہتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد بڑی مدت تک ملک اچھی حکمرانی سے محرومی نہ ہوتا ، توآج پاکستان میں کم از کم تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ ہوتی، بجلی، پانی اورگیس کا بحران نہ ہوتا، صاف ستھری سڑکیں اورگلیاں ہوتی، ہر طرف درختوں کی بہار ہوتی، جنگلات کا خاتمہ نہ ہوتا ، زرعی پیداوار ضروریات سے زیادہ ہوتی، برآمدات سے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ حاصل ہوتا، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان دنیا میں اپنا لوہا منوا چکا ہوتا، بہترین تعلیمی ادارے، صاف ستھری اور آرام دہ ٹرانسپورٹ سے لوگ مستفیض ہوتے، صنعت اور تجارت میں ہم بہت آگے ہوتے، ہماری آبادی 15کروڑ سے زیادہ نہ ہوتی، پولیس اور عوام میں زبردست تعاون ہوتا، ٹریفک کے قوانین کا احترام ہوتا، مجموعی طور پر قانون کی حکمرانی ہوتی ، پاکستان دفاعی،سیاسی اور معاشی طور پر ایک انتہائی طاقتور ملک ہوتا، جو تنخواہ لوگ آج حاصل کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں ہر شخص کی آمدنی 3گنا ہوتی ، بد عنوانی اور رشوت ستانی یا ناجائز آمدنی کے راستے مکمل بند ہوتے، بد قسمتی سے ہم مجموعی طور پر اچھی حکمرانی سے محروم رہے۔
دشمن نے بھی ہماری کمزوریوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور ہمیں انتشار سے دوچارکرتا رہا ۔ آج ملک کی معیشت و سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ ہماری ماضی کی مسلسل غلطیوں کا نتیجہ ہے اب ملک میں تین بڑی جماعتیں پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر حاوی ہیں۔
عمران خان کی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں اتحادی جماعتوں سے مل کر معمولی اکثریت سے حکومت قائم کی، پنجاب میں بھی یہی صورت ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو اب بھی امید ہے کہ آنے والے وقت میں وہ عمران خان کی حکومت کو گرا دیں گے۔ اسی امید میں وہ اقتدار کے حصول کی مختلف راہوں کی تلاش میں ہے، تاکہ نواز شریف کو بدعنوانی کے مقدمات سے بری کرا کے اپنی مرضی کا وزیرِ اعظم لایا جائے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورکے خلاف جاری تحقیقات کے نتیجے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انھیں آنے والے دنوں میں گرفتارکیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کو خدشہ لاحق ہے کہ وہ سندھ حکومت سے بھی محروم ہو سکتی ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر پارٹی میں مختلف آپشن پر غور کیا جا رہا ہے ۔ پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دے دی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو ختم کرسکتے ہیں ۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بچانے کے لیے سر گرم ہے۔
اسی لیے ایک وسیع اپوزیشن اتحاد تشکیل دینے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مفاہمت کا ایسا فارمولا تلاش کیا جا رہا ہے جس میں رقوم کی ادائیگی کے بعد نواز شریف کو مقدمات سے رہائی مل جائے۔ اسی طرح آصف زرداری کے معاملے میں بھی معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے لیے اور پیپلزپارٹی آصف زرداری کے لیے اعلیٰ عدالت سے دیانت داری کا سرٹیفکیٹ چاہتی ہے۔ یہ شرط مفاہمتی معاہدے میں اہم رکاوٹ ہے ، جب کہ جس رقم کی ادائیگی کی پیش کش کی جا رہی ہے اسے ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس کی تردید کر چکی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں جو کچھ سامنے نظر آتا ہے۔ پس پردہ اس کے برخلاف ہوتا ہے لہذا ان اطلاعات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
پیپلز پارٹی نے اعلیٰ قیادت کی ممکنہ گرفتاری سے پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے صف بندی شروع کر دی ہے، بلاول بھٹو جار حانہ بیانات دے رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا ایک اہم حلقہ جو اداروں سے محاذآرائی کا مخالف ہے وہ بلاول کے جارحانہ بیانات کو پارٹی کے لیے خطرہ تصورکر رہا ہے۔
اس سیاسی منظرنامے میں در پردہ ایک کوشش یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجودہ حکومت کے خلاف تحریک کا مشترکہ لائحہ عمل طے ہو جائے تاکہ اپوزیشن کا ایک بڑا اتحاد بنا کر عمران خان کی حکومت کو نکال باہر کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کو خدشہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی بھی مفاہمت کا پنجاب میں منفی اثر ہوگا اور اس کی عوامی حمایت پر منفی اثرات ہوں گے۔ اس کے علاوہ قابل عمل مفاہمتی فار مولا بھی سامنے نہیں ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر اعتماد بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما حکومت سے رابطہ بھی رکھے ہوئے ہیں اور انھیں تعاون کی یقین دہانی بھی کرانے سے گریز نہیں کرتے، پیپلز پارٹی کے لیے یہ بات زیادہ پریشان کن ہے ۔ وہ سندھ حکومت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ کسی بحرانی صورت میں سندھ حکومت کی تبدیلی کا امکان برقرار ہے ۔ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت کرکے پی پی سندھ حکومت کو بچانے اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ جس کی کامیابی کا فی الحال امکان نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست کے دو اہم کردار نواز شریف اور آصف علی زرداری اقتدار میں شراکت کا فار مولا طے کرنے کے بعد عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی تحریک کوکیسے کامیاب بنا سکتے ہیں یہ ابھی غیر واضح اور قبل از وقت ہے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کا دوبارہ اقتدارکس طرح ممکن اور قابل قبول ہو گا؟ دونوں جماعتیں اگر حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔ ایسی صورت میں قبل از وقت انتخابات بھی ہوسکتے ہیں۔
نئی صف بندی ہوسکتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے مزید گروپ بن سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی میں بھی بڑی بغاوت ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر بھاری اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے، لیکن پاکستان کی سیاست میں انتخابی عمل دو دھاری تلوار بھی بن جاتا ہے۔ نتائج سارا کھیل بگاڑ سکتے ہیں ۔ نئی سیاسی صف بندی بھی ہوسکتی ہے۔ اس وقت سیاسی رسہ کشی کا یہ کھیل جاری ہے اس کھیل میں عوام کے اصل مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کو مسائل کی شدت کا احساس نہیں ہے ۔ ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی موجودہ وسائل کی نسبت خطرے کے نشان سے آگے جا چکی ہے اور بہبود آبادی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔
شہروں میں کچی آبادیاں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ جہاں غربت جرائم ، منشیات اور گندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ دیہاتوں میں پسماندگی ہے۔ صفائی ، صحت اور تعلیم کا موثر نظام نہیں ہے۔ ملک بھر میں صاف پانی کی کمی کی وجہ سے گندے پانی سے پیدا ہونے والی خوفناک بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ جنگلات اور زرعی اراضی کم ہو رہے ہیں، زرعی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے، زرعی مصنوعات اور دیگر برآمدات تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ شہروں میں ٹریفک کا دباؤ بڑھ رہا ہے، بے ہنگم ٹریفک نے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر رکھا ہے۔
غیر قانونی ذرایع سے دولت حاصل کرنے والے امراء پورے نظام پر حاوی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد طاقتور اور امیر لوگوں کے سامنے بے بس ہیں ۔ اندرون خانہ دشمن قوتیں جدید جنگی حکمت عملی کے تحت سرگرم ہیں جو ان مسائل کی شدت میں اضافہ اور ہر اس سرگرمی کو تیز کرنا چاہتی ہیں۔ جس سے انتشار بڑھے، ملک اندر سے کمزور ہوکر خانہ جنگی کے ذریعے بکھرجائے، سوائے چند فکرمند لوگوں کے کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ہم مجموعی طور پرکس کیفیت میں ہیں۔ اس بے حسی سے نکلنا ہوگا ، بہتری کی راہ تلاش کرنی ہوگی، چاہے وہ انتہائی مشکل اورکٹھن کیوں نہ ہو۔ بے حسی ہم سب کو برباد کر سکتی ہے۔