حکومتوں کی تبدیلی

پچھلے پانچ ماہ سے اشرافیہ نے خوب زور لگا لیا کہ کسی طرح عوام کو سڑکوں پر لایا جائے۔


Zaheer Akhter Bedari February 08, 2019
[email protected]

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگرچہ کئی بحران آئے اور مارشل لا لگے، لیکن عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد اپوزیشن نے جو سیاسی ابتری پھیلائی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اپوزیشن کی اس ہڑبونگ نما تحریک میں موضوع تو عمران خان کے 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کو بنایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس انارکی اور ہڑبونگ کا مقصد عدالتوں میں چلنے والے کیسوں کو فیصلوں کی طرف جانے سے روکنا ہے۔

ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں پر اربوں کی نہیں، اس سے زیادہ کرپشن کے الزامات ہیں اور میڈیا میں اس کرپشن کے ان الزامات کی تفصیل مع مبینہ ثبوتوں کے پیش کی جا رہی ہے، اس حوالے سے شہباز شریف کے خریدے ہوئے تین فلیٹس کے نمبر اور دیگر تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔

اس وقت رات کے ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ میں نے نیند سے بیدار ہو کر جب ٹی وی کھولا تو ٹی وی اسکرین پر لندن کے تینوں فلیٹس کی تفصیلات پیش کی جا رہی تھیں اور میں حیرانی سے ان اربوں روپوں کے فلیٹس کی تفصیلات دیکھ رہا تھا اور ان دانشوروں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو جمہوریت کے نام پر ان کرپٹ سیاستدانوں کی پراسرار حمایت کر رہے ہیں ۔ کیا کرپشن کے حوالوں سے پاکستان کی اشرافیہ کی اس حمایت کا جمہوریت سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟

اسی دوران ٹی وی اسکرین پر زرداری صاحب کے امریکا کے مبینہ پینٹ ہاؤس کے بارے میں تفصیلات پیش کی جا رہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ امریکا کے اس پینٹ ہاؤس کے ٹیکس لیٹر زرداری کے لندن فلیٹ کے پتے پر آتے ہیں۔ زرداری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بے اختیار ہیں وہ مجھے کیا کسی کو بھی نہیں گھسیٹ سکتے۔ وزیر اعظم عمران خان کو عوام نے کسی کو گھسیٹنے کے لیے ووٹ نہیں دیے تھے بلکہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ووٹ دیے تھے۔ اسی طرح عوام نے سابق حکمرانوں کو اس لیے ووٹ نہیں دیے تھے کہ وہ اربوں روپوں کی لوٹ مار میں اپنے پانچ سال گزار دیں اور حکومت سے باہر آنے کے بعد حکومت کے خلاف تحریکیں چلائیں حکومت کو بد نام کریں قانون ساز اداروں کو مچھلی بازار بنائیں اور کسی قیمت پر حکومت کو چلنے نہ دیں۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ہمارے سابق حکمران ، موجودہ حکومت کو ہر قیمت پر راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس کی بڑی دلچسپ وجہ یہ ہے کہ عمران خان کا تعلق اس ملک کی اشرافیہ سے نہیں بلکہ مڈل کلاس سے ہے اور ہماری اشرافیہ چاہتی ہے کہ مڈل کلاس میڈیا میں ان کے ''کارناموں'' کی تردید میں اپنا سارا وقت گزاریں۔ پچھلے دس سال میں سابقہ حکومتوں کے مڈل کلاسر وزرا کا کام صرف حکمرانوں کی کرپشن کی تردید رہا ہے پھر لوٹ مار۔ اب عمران حکومت کے آنے سے یہ کلچر ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان ہر شعبہ زندگی میں بامعنی تبدیلیاں لانے کی بھرپورکوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات اشرافیہ کو بالکل پسند نہیں یہی اصل مسئلہ ہے۔

اپوزیشن کو دو خوف پریشان کیے ہوئے ہیں، ایک یہ کہ اگر عمران خان کو ایک سال بھی سکون سے کام کرنے کا موقعہ مل جائے تو وہ نہ صرف عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ملک کو ترقی خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے آگے لانے کی کوشش کرے گا جو دنیا کے ہر ملک کے باشعور حکمران کر رہے ہیں۔ اگر وزیر اعظم اپنے اس مشن میں کامیاب ہوجائیں تو ہماری سیاسی اشرافیہ کا بیڑہ غرق ہو جائے گا، چونکہ ایک طویل اقتدار کی وجہ سے اشرافیہ کی زندگی کے ہر شعبے میں جڑیں گہری گڑھی ہوئی ہیں خاص طور پر بیورو کریسی میں لہٰذا وہ بڑی آسانی سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

لیکن ہماری اشرافیائی اپوزیشن کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اب وہ عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہے کیونکہ ان کے کارناموں خاص طور پر 10 سالہ کرپشن کی وجہ عوام اب سیاسی جماعتوں کے کردار سے واقف ہو گئے ہیں، دوسرا مسئلہ اشرافیہ کی طبقاتی بالادستی ہے۔ حکومت سے نکلنے کے بعد کرپشن کے حوالے سے اپوزیشن کے خلاف گھیرا جس طرح تنگ کیا جا رہا ہے، اس نے اشرافیہ کو مایوس اور بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ ملک کو انارکی کی طرف لے جایا جائے۔ اشرافیہ کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ملک کو انارکی کی طرف دھکیل دیا جائے۔

پچھلے پانچ ماہ سے اشرافیہ نے خوب زور لگا لیا کہ کسی طرح عوام کو سڑکوں پر لایا جائے لیکن عوام اب مزید بے وقوف بننے کے لیے تیار نہیں۔ عوام کے اس رویے نے اشرافیہ کو سخت مایوس کر دیا ہے۔ اشرافیہ کو امید تھی کہ اس نے ملک کو جس اقتصادی مشکلات کے دلدل میں پھنسا دیا ہے، اس سے نکلنا ممکن نہیں، حکومت اسی اقتصادی بحران میں ڈوب جائے گی لیکن اسے ہم عوام کی خوش قسمتی کہیں یا برسر اقتدار حکومت کی کہ عرب ملکوں اور چین سمیت کئی ملکوں نے بھاری اقتصادی امداد دے کر حکومت کو اس اقتصادی بحران سے بچا لیا جس میں حکومت کو ڈبونے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

بلاشبہ حکومتوں کی تبدیلی میں کچھ طاقتور عناصر بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں ،یہ پاکستان کی تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے لیکن اب چونکہ یہ تبدیلی بامعنی ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تبدیلی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ ہمارے ملک میں بعض اعلیٰ سطح تبدیلیاں کسی کو مشکلات سے نکالنے کا سبب بھی بن جاتی ہیں اور حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اب عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ 2018ء کی بامعنی تبدیلی کے خلاف سینہ سپر ہوکر ملک کو اندھیروں سے نکال کر عوامی طاقت کی برتری کی کوششوں کو مضبوط بنائیں تاکہ تبدیلی کے خلاف کی جانے والی سازشیں ناکام ہو جائیں۔

مقبول خبریں