مٹھی ہماری محبت

شہلا اعجاز  منگل 12 فروری 2019
سانحہ ساہیوال پر عقل حیران اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا، یہ ایک عجیب سا واقعہ تھا جوگزرگیا

سانحہ ساہیوال پر عقل حیران اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا، یہ ایک عجیب سا واقعہ تھا جوگزرگیا

صحت کے حوالے سے ہمارے ملک کے سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی پر سوالات تو اٹھتے ہی رہتے ہیں، کبھی پنجاب میں توکبھی سندھ میں لیکن بدقسمتی سے تھرپارکر ڈسٹرکٹ ایک ایسا علاقہ ہے جو غذائی قلت اور معصوم ننھے بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے خبروں میں نظر آتا رہتا ہے۔

1990 میں تھرپارکر کو ایک ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ میرپورخاص سے جڑا ہوا تھا لیکن اس کی آبادی اور وسعت کے تحت اسے ضلع کا مقام تو مل گیا پر اسے وہ سہولیات فراہم نہ ہوسکیں جس کے تحت اسے ترقی کے مواقعے ملتے۔ مٹھی تھرپارکر کا مرکز قرار پایا لیکن ملک بھر میں مٹھی کی جو شہرت نظر آتی ہے وہ انتہائی دل گرفتہ ہے۔ تھرپارکر میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے، یہاں 80 فیصد ہندو بستے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل ہی یہاں آباد تھے یہ راجستھانی زبان بولتے ہیں جو مارواڑی زبان سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں کے لوگ دو مختلف مذاہب کے باوجود پرسکون انداز میں رہتے ہیں لیکن غذائی قلت ایک ایسی تلوار ہے جو ان کی زندگیوں کو نگل رہی ہے۔

ایک خبر کے مطابق گزشتہ مہینے میں غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد چالیس سے تجاوز کرگئی تھی، یہ ایک تکلیف دہ خبر تھی ہر روزکسی گھرکا چراغ بجھ جاتا ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت اور وبائی امراض کا شکار بچے دور دراز علاقوں سے اس امید پر لائے جاتے ہیں کہ بچوں کو نئی زندگی ملے گی لیکن جس بیماری کا علاج مناسب غذا ہو تو اس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں ہے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں سرکار غریب ہے لیکن عوام کی معاشی حالت اس قدر بھی ابتر نہیں کہ جس پر آنسو بہائے جائیں لیکن عجب داستان یہ ہے کہ کچھ علاقے اس حد تک پسماندہ ہیں کہ وہاں غذا کی کمی بیماری بن کر ننھی کونپلوں کو کھا رہی ہے۔ اس بیماری کا علاج ممکن ہے یا نہیں، اس سوال کا جواب تو ہمارے پاس نہیں ہے لیکن بدستور خراب صورتحال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مٹھی میں ویسے تو ایک سول اسپتال اور کچھ نجی شفا خانے تو موجود ہیں لیکن وہاں صحت کے حوالے سے اس قدر الجھنیں ہیں کہ محض ایک اسپتال سے یہ سلجھنے والی نہیں لیکن یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا دوسرے اسپتال کا قیام اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے ضروری ہے اور یہ بھی کہ کیا ایک سول اسپتال ڈاکٹرز اور دیگر عملے کے علاوہ جدید طبی سہولیات سے آراستہ ہے کہ دوسرے ادھورے اسپتال کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے۔ پچھلے چند برسوں سے مٹھی میں بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ برقرار ہے اور اس کی وجہ بارشوں کی کمی اور قحط کی صورتحال اور وبائی امراض کو بتایا جاتا ہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں وزیر اعظم عمران خان نے تھر میں طبی سہولیات کے فقدان کا نوٹس لیا تھا اور فوری طور پر دو جدید موبائل اسپتال اور چار ایمبولینسز فراہم کرنے کا فوری حکم جاری کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے صحت کارڈز جاری کرنے کا بھی حکم دیا ہے، یہ سہولت تھر کے رہائشیوں کے لیے خوشی کا باعث بنی تھی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے اسپتال میں ڈاکٹرز اور ادویات کی فراہمی کو پانچ سال تک یقینی بنانے کا حکم دیا تھا اور تھر کے اسپتال کو اپ گریڈ کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔

اکتوبر 2017 میں شہباز شریف جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے انھوں نے سابق کرکٹر شاہد آفریدی کو ایک خطیر رقم دی تھی۔ شاہد آفریدی فاؤنڈیشن کے مطابق تھر میں ایک اسپتال قائم کرنے کا منصوبہ تھا اور ضرورت تھی کہ وہاں نجی سیکٹر کے تعاون سے بھی ایک اسپتال قائم کیا جائے کیونکہ تھر جیسے پسماندہ علاقے پر دوسرے مقامات کے مقابلے میں نظر کم ہی پڑتی ہے لیکن موروں کی ہلاکت اور معصوم بچوں کی جانوں کے ضیاع نے تھر کو توجہ طلب علاقہ ڈکلیئر کردیا ہے۔

حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے صحت کارڈ کے اجرا کی نوید تو ملی ہے جس سے بیس ہزار سے سات لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت دی جائے گی۔ یہ بچوں کی بیماری، زچگی، سرجیکل اور دیگر بیماریوں کو کور کرے گی۔ یہی نہیں بلکہ بائی پاس، انجیو پلاسٹی، جل جانے، کینسر اور شوگر کے مریضوں کے لیے چھ لاکھ روپے سالانہ فی خاندان خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ایک بڑی سہولت گھر سے اسپتال اور اسپتال سے گھر تک کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی شامل ہیں۔

وزیر اعظم کی جانب سے یہ اقدامات یقینا قابل تحسین ہیں لیکن اس کارڈ کو دینے کا عمل بیس فروری سے جاری ہوگا پہلے مرحلے میں اسے اسلام آباد پھر قبائلی علاقوں اور اس کے بعد پورے ملک میں تقسیم کیا جائے گا اس طرح 2019 کے آخر تک پنجاب کے دیگر اضلاع کو اس کارڈ کی فراہمی کی جائے گی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقے اعلیٰ عہدیداران کی نظروں سے اوجھل رہنے کے باعث پسماندہ رہ گئے ہیں۔ تعلیم کا نمبر تو بہت بعد میں آتا ہے لیکن بنیادی ضروریات جن میں صحت اور غذا شامل ہے، میسر نہ ہونے کے باعث مٹھی جیسے دگرگوں حالات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک طویل عرصے ٹی وی چینلز میں موروں کی ہلاکتوں کا سلسلہ ہماری سماعتوں کو جھنجھوڑتا رہا اسی دوران نوزائیدہ بچوں اور ماؤں کی ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں ۔ ایک بڑا علاقہ قحط سالی کے باعث سسکتا رہا اور ہم سب اپنے گھروں میں بیٹھے ملکی اور غیر ملکی غذائی اشیا سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ منرل پانی کی بوتلوں کے ڈھکن کھلتے رہے، مہنگائی کا شور مچتا رہا لیکن پھر بھی شادیوں کے کھانوں کی یلغار کم نہ ہوئی۔

ایک ہی ملک، ایک ہی صوبے میں مٹھی ہم سے بہت دور تو نہیں پھر یہ ہماری محبتوں کے خانوں میں کہاں گم ہے ذرا اسے تلاش توکریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔