کیا انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہے

جبار قریشی  جمعرات 21 فروری 2019
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

سابق امریکی صدر جمی کارٹر یروشلم گئے تو اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ان کو ساتھ لے کر دیوارگریہ Wailing wall کے پاس گئے۔ یہودیوں کی نظر میں یہ ان کی سب سے زیادہ مقدس جگہ ہے۔ وہاں پہنچ کر جمی کارٹر نے دعا کی۔ انھوں نے اپنی دعا میں کہا:

’’اے خدا عربوں اور اسرائیل کو امن تک پہنچنے میں مدد دے۔‘‘

اسرائیلی وزیراعظم جو پاس ہی کھڑے تھے انھوں نے فوراً کہا:

’’آمین۔‘‘

اس کے بعد جمی کارٹر نے کہا:

’’خدایا مصر اور اسرائیل کو پر امن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی توفیق دے۔‘‘

اسرائیلی وزیراعظم نے کہا:

’’آمین۔‘‘

اس کے بعد جمی کارٹر نے کہا:

’’خدایا اسرائیلوں کو بتا دے کہ وہ عربوں کے وہ تمام علاقے واپس کر دیں جن پر انھوں نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا ہے۔‘‘

یہ سنتے ہی اسرائیلی وزیراعظم کا لہجہ بدل گیا انھوں نے کہا:

’’جناب صدر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ ایک دیوار سے بات کر رہے ہیں۔‘‘

یہ ایک لطیفہ ہے جو نصف صدی قبل مصریوں کی جانب سے بنایا گیا تھا۔

آج جب میں اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت سے لوگوں کا یہ ہی رویہ نظر آتا ہے اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مختلف الخیال سیاسی اور دینی جماعتوں کے پروگرام میں شرکت کر کے ان کے نقطۂ نظر کو دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے یہاں ہر ایک نے اپنی الگ الگ دنیا بنائی ہوئی ہے ۔ وہ دوسری دنیا سے آشنا نہیں یا آشنا ہونا ہی نہیں چاہتا ۔ اپنے مخالف کے نظریات کو سمجھنا اور دلائل مضبوط ہوں تو انھیں تسلیم کرنا بہت دور کی بات ہے وہ انھیں سننے کے لیے بھی تیار نہیں، ہر ایک اپنی ہی بانسری بجا رہا ہے۔

ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچ وہی ہے جسے وہ سچ سمجھتے ہیں۔ ان پروگراموں میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ لائحہ عمل اور تدابیر کی جگہ جوش خطابت ، عملی منصوبہ بندی کے بجائے لفظی ہنگامہ آرائی۔ پر امن جدوجہد کے اصول کے بجائے عسکری سرگرمیوں کا فروغ ، سائنسی طرز فکر کو اپنانے کے بجائے روایتی فکر حقائق کی جگہ خوش خیالی نظر آئے گی ۔

اگر کسی پلیٹ فارم پر آ کر سارے طبقات بیٹھے ہوں اور ایک عمومی بات کی جائے کہ ہمارے معاشرے میں بگاڑ ہے تو آپ یقین جانیں کہ ہر ایک محسوس کرے گا کہ اس گفتگو کا مخاطب میں نہیں ہوں ، یہ ایک غلط رویہ ہے۔ درست رویہ یہ ہے کہ اپنے مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے لوگوں کی بات سنی جائے اگر دلائل مضبوط ہوں تو اسے تسلیم بھی کیا جائے۔

اس طرز عمل کی بدولت آدمی اپنی سوچ کے خول سے باہر نکلتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے وہ پورا سچ یا حتمی حقیقت نہیں ہے، اس طرح معاملے کا پوری طرح ادراک حاصل ہوتا ہے جس سے درست عمل کی راہیں متعین کرنے میں مدد ملتی ہے اور ہم کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا رویہ ایسا کیوں ہے اس کا بہتر جواب تو ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ہمارے یہاں دہرا کردار ہے۔ ہم اصول کی بات کرتے ہیں مگر مفادات پر عمل کرتے ہیں جہاں ذاتی مفاد دکھائی دے وہاں آدمی عملی آدمی بن جاتا ہے جہاں ذاتی مفاد کا معاملہ نہ ہو وہاں نظریات کی بات کرنے لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے رویے کی درستگی کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ دراصل ہمارے رویوں میں تین بڑی کمزوریاں ہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا ہے تاریخی شعور کی کمی، دوسرا ہمارے یہاں چیزوں کو منطقی انداز یعنی سائنسی انداز فکر سے سمجھنے کا رحجان نہیں ہے، تیسرا ہمارے مزاجوں میں نرمی نہیں ہے بلکہ سختی ہے۔ ہم ذرا ذرا سی بات پر لڑنا شروع کردیتے ہیں اگر ہم تاریخ، فلسفہ اور ادب کی جانب لوگوں بالخصوص اپنے طالب علموں کو راغب کریں تو اپنی ان تینوں کمزوریوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ انسان میں شعور پیدا کرتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان نے اپنے سفر کا آغاز کہاں سے کیا اور اب وہ کہاں کھڑا ہے۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور ان کی اصل وجوہات تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔ فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ نقطۂ نظرکیسے وجود میں آتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے۔ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے، اس کے مطالعے سے انسان کے مزاج میں نرمی اور لطافت پیدا ہوتی ہے۔

انسان دو چیزوں عقل اور جذبات کا مجموعہ ہے۔ اگر تاریخ، فلسفہ اور ادب کے ذریعے اس کی تربیت کی جائے تو وہ بہت اچھا انسان بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے طالب علموں کو فنون لطیفہ یعنی مصوری، موسیقی، شاعری کی جانب مائل کریں تو یہ بھی رویہ میں اعتدال لانے میں معاون ثابت ہو گی۔ فنون لطیفہ ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں اور خوبصورت خیالات ہی پر مسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔

ان اقدامات کے ساتھ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر سماج میں مختلف سوچ اور مختلف نظریات رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان کے درمیان اتحاد اور یک جہتی رکھنا مشکل کام ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی سماج ہو خواہ وہ ایک کلچر کا سماج ہو یا کئی کلچر کا سماج اس میں ہمیشہ کچھ چیزیں مشترک ہوتی ہیں لہٰذا مشترک چیزوں کو اولیت دیتے ہوئے سماج میں محبت اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیا جا سکتا ہے، اسی میں سماج کی امن سکون اور خوشحالی کا راز پنہاں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔