سفر ہے شرط

شہلا اعجاز  جمعـء 22 فروری 2019
سانحہ ساہیوال پر عقل حیران اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا، یہ ایک عجیب سا واقعہ تھا جوگزرگیا

سانحہ ساہیوال پر عقل حیران اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا، یہ ایک عجیب سا واقعہ تھا جوگزرگیا

پاکستان میں نئی حکومت کی آمد کے بعد سے بہت سے اداروں میں تبدیلی دیکھنے کو تو آئی ہے، مثلاً تجاوزات کے حوالے سے ہی دیکھیے کس طرح سے یہ آکاس بیل کی مانند پھیلتے گئے اور قیمتی اراضی کو نگلتے گئے، اس عمل میں پاکستان ریلوے کی اراضی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا کہیں کچی آبادیاں قائم ہوگئیں تو کہیں بلند و بالا فلیٹس تو کہیں شادی ہالز۔ ریلوے لائنوں کی جگہ گندے پانی کے نالوں نے جگہ لے لی۔ ریلوے اسٹیشنز ویران اورکوڑے کا ڈھیر بن گئے یہ صورتحال سرکلر ٹرینوں کے حوالے سے ابھر کر جس قدر بدہیئت ہوچکی ہے کہ اگر اب اس کام کو ادھورا چھوڑ دیا گیا تو شاید آگے۔۔۔۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ٹرینوں کا نظام خاصا متوازن اور مربوط ہے۔ عوام ٹرینوں میں سفرکرنے کے عادی ہیں ۔ دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر بھارت کا نام نظر آتا ہے ، جہاں ایک اندازے کے مطابق تیرہ لاکھ ریلوے کے ملازمین ہیں جب کہ سات ہزار ریلوے اسٹیشنز ہیں، سیاحوں کے لیے بھارتی ٹرین سروس میں خاص سہولت ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے ٹکٹ نہیں لگائے جاتے (جب کہ ہمارے یہاں تین سال سے کم عمر بچوں کے ٹکٹ نہیں لگتے اور دس سال سے کم عمر بچوں کے آدھے ٹکٹ لگتے ہیں ، جب کہ اسکول سے مخصوص ریلوے پاس بنوانے کی سہولت بھی ایئر کنڈیشن ڈبوں میں میسر ہوتی ہے جن کے کرائے پانچ ہزار روپے  تک ہوتے ہیں۔)

بھارت میں 40-50 فیصد کی کٹوتی کی سہولت معمر افراد کو حاصل ہوتی ہے جو مردوں میں ساٹھ سال سے اوپر جب کہ خواتین میں اٹھاون سال سے زائد کو حاصل ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک عزیز نے ایک مختصر ویڈیو بھیجی جس میں انھوں نے فرانس سے یوکے تک کا سفر بذریعہ چینل ٹنل دکھایا تھا۔ اس دلچسپ ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح مسافر حضرات اپنی گاڑی سمیت فرانس سے لندن تک جاسکتے ہیں۔ آرام سے گاڑی میں اپنا سامان بھریے پوری ویگن لے کر ٹرین میں داخل ہوجائیے جہاں وہ ٹرین محض آدھ گھنٹے میں آپ کو بمعہ سامان اور اہل و عیال کے سمندر کے نیچے سے گزرتی ہوئی انگلینڈ میں پہنچا دے گی، اس ہائیڈرولک ٹرین کا کرایہ بھی نہایت مناسب ہے جو پاکستانی روپے کے لحاظ سے دو ہزار روپے ہے گویا پورے چار ہزار روپے میں فرانس سے مسافر لندن جا بھی سکتے ہیں اور واپس بھی آسکتے ہیں اس سفر کے دوران آپ کو ٹرین میں صاف ستھرے واش رومز بھی میسر ہیں ، آپ کا دل چاہے تو نہائیے دھوئیے بھی اور صرف دو ہزار روپے اور قلیل مدت میں ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچ جائیے۔

کیا پاکستان میں اتنے کم پیسوں میں اتنا طویل اور پرآسائش سفر ایک خواب ہے؟ سوالات بہت ہیں۔ 1861 میں پاکستان ریلوے کے قیام کے بعد سے اس ادارے نے کس شرح سے ترقی کی اور کتنی تیزی سے تنزلی بھی دیکھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ محض چند سالوں میں کوئی بھی ادارہ بیس پچیس برسوں کا احاطہ کرسکتا ہے، اس کے پیچھے برسوں کی انتھک محنت اور نیک جذبات پنہاں ہوتے ہیں جیسے فرانس اور انگلینڈ کے درمیان اس سرنگ کو لے لیجیے۔

یہ 1802 کی بات ہے جب فرانس اور انگلینڈ کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان اندرون سمندر بھی راستہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ وہ ابتدائی دور تھا جب سائنسی تحقیقات نے اس قدر ترقی نہ کی تھی لہٰذا یہ خیال محدود رہا۔ 1955 میں اس اندرونی سمندری راستے کی اہمیت بڑھی اور اس پرکام کی شروعات ہوئی یہاں تک کہ دو سالہ محنت کے بعد کچھ ممکن صورتحال نظر آئی بالآخر طویل تحقیق، تجربات اور محنت کے بعد 1973 میں یہ پروجیکٹ منظر عام پر آیا۔ اس وقت یہ خیال کہ سمندر کے اندر سے محفوظ گزرگاہ بنائی جائے عجیب سا خیال تھا لیکن بات حقیقت تک آچکی تھی۔ 1975 میں توانائی کے بحران کے باعث اس منصوبے کو پھر ادھورا چھوڑنا پڑا۔

1984 میں اس منصوبے پر پھر سے کام کرنے کا ارادہ کیا گیا ٹینڈرز کھولے گئے اور اس کی تعمیر کے لیے چینل ٹنل گروپ اور فرانس مینچھے(Manche) کے درمیان پچپن سالہ معاہدہ ہوا۔ یوں مئی 1994 میں اس کا کامیاب افتتاح ہوا اور جون 1994 میں اس نے اپنا کام جاری کردیا۔ اس منصوبے پر 14.7 بلین پونڈز کی سرمایہ کاری کی گئی تھی، یہ ایک انتہائی کامیاب منصوبہ ہے۔ جہاں روز کئی سو ٹرینیں گزرتی ہیں۔ 2010 میں تقریباً نو ملین مسافر اس ٹنل سے گزرے، یہ چینل ٹنل پچاس کلو میٹر طویل اور اس کی گہرائی اوسطاً چالیس میٹر ہے جب کہ جاپان میں سیکان ٹنل سمندر کی سطح سے تقریباً 790 فٹ گہری ہے اور غالباً یہ سب سے گہری ٹنل بھی ہے۔

دنیا بھر میں ترقی کا سفر جاری ہے کہیں تیز توکہیں دھیمی رفتار ہے لیکن پہیہ چل رہا ہے جب کہ ہماری ترقی کا پہیہ صرف اپنی جگہ پر گھوم رہا ہے۔ ہمیں جو کچھ میراث میں قیام پاکستان کے بعد ملا تھا اس کے بعد ہم نے کس تیزی سے ترقی کی اور کہاں تک کا سفر کیا، ہم نے اپنی حاصل شدہ سے کیا کچھ پایا اور کیا کھویا لیکن پھر بھی امید ہے کہ ہمارے ادارے ایک بار پھر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے ہم جاپان، فرانس اور انگلینڈ نہیں تو کم ازکم اپنے پڑوسی ممالک سے تو مقابلہ نہیں تو موازنہ تو کرسکتے ہیں کیونکہ بقول علامہ اقبال:

ہفت کشور جس سے ہو تسلیم بے تیغ و تفنگ

تو اگر چاہے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔