مردم شماری

مقتدا منصور  اتوار 4 اگست 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گئے ہفتے بہت سے ایسے واقعات رونماء ہوئے، جن کے ملک کی مجموعی صورتحال پر دور رس اثرات مرتب ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔یعنی جس روز صدارتی الیکشن ہورہا تھا، شدت پسند ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ آور ہوکر 248 قیدیوں کو چھڑا کر فرارہونے میں کامیاب ہوگئے۔کہا جارہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے اس واردات کی پہلے سے اطلاع دیدی تھی، لیکن صوبائی حکومت اور پولیس اس سنگین واردات کو روکنے میں مکمل طورپر ناکام رہے۔

صدارتی انتخابات کے انعقاد کے فوراً بعد چیف الیکشن کمشنرفخرالدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ، جس کے نتیجے میں ایک نیا سیاسی بحران پیداہوگیا اور صدارتی انتخاب کی آئینی حیثیت مشکوک ہوگئی۔جب کہ دوسری طرف عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو ان کی ان پریس کانفرنسوںپر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیاہے، جس میں انھوں نے اعلیٰ عدلیہ پر الیکشن کمیشن کے ساتھ ساز باز کرنے کاالزام عائد کیا تھا۔اسی دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کا دورہ کیا اورپاکستانی حکام کو صاف الفاظ میں ڈرون حملے بندکرنے اور پاک ایران گیس پائپ لائن کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

یہ تمام واقعات گوکہ کہ نہایت اہم اور سنگین ہیں، مگراصل مرض نہیں بلکہ اس کی علامات ہیں۔پاکستان کا اصل مسئلہ گورننس کا بحران ہے ، جوکثیرالجہتی شکل اختیارکرچکا ہے۔اس لیے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ اظہاریہ میںہم گورننس کے ایک پہلو یعنی بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت اوراس کے نتائج پر بحث کرچکے ہیں۔آج ایک اور انتظامی پہلو پرگفتگو کرنا چاہیں گے،جو جدید دنیامیںخالص انتظامی اور پیشہ ورانہ عمل تصور کیاجاتاہے اور جس کی بنیادپرکسی بھی ملک میں قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوتی ہے،وہ ہے مردم شماری۔ مگرپاکستان میں اسے Politicise کرکے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کی متعین کردہ تعریف کے مطابق مردم شماری کسی ملک میںآباد شہریوںکی کل تعداد، ان کے صنفی، لسانی وقومیتی وابستگی اورعقائدو نظریات کے لحاظ اعدادوشمار، رہائشی اور تجارتی عمارات کاتخمینہ لگانا ہے، تاکہ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایاجاسکے اور ضرورت پڑنے پر عالمی برادری اس بنیاد پر ایک دوسرے کی مددکرسکے۔ مردم شماری کوئی نیا مظہر نہیں ہے، بلکہ زمانہ قدیم سے چلاآرہا۔برصغیر ہند کی قدیم تاریخ کے مطابق 300برس قبل مسیح ٹیکسلامیں قائم موریہ حکومت کے معروف معیشت دان چانکیہ نے مردم شماری کا تصور پیش کیا تھا۔مگر ایک دو بار کے بعد اس تھکادینے والی مشق کو نظرانداز کردیا گیا۔

جب کہ چین میں پہلی مردم شماری 220 عیسوی میں ہوئی،اس کے بعد کئی صدیوں تک اس کے آثار نہیں ملتے۔مسلم دنیامیںگیارہویں صدی کے معروف دانشور اورایران کے قلعہ الموت میںفردوس بریں کے خالق حسن بن صباح نے ریاستوں کی آمدن اور اخراجات کے حوالے سے پہلی بار سالانہ میزانیہ (Budget)کا تصورپیش کیا،توساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کسی ملک کا سالانہ میزانیہ اس وقت تک صحیح نہیں بن سکتا،جب تک کہ اس ملک میں مردم شماری کے ذریعے عوام کی صحیح تعداد کاتعین نہ ہو۔مگرچونکہ اپنے نظریات کے حوالے سے وہ انتہائی متنازع شخصیت بن چکے تھے، اس لیے ان کے تصورات کو ان کے اپنے دور کی حکومتوں کی جانب سے زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔

سولہویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد معاشی ڈھانچوںمیں تبدیلیاں رونماء ہونا شروع ہوئیں ،تومعاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے سالانہ میزانیہ کے ساتھ مردم شماری کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جانے لگا۔اس سے قبل برطانیہ میں ٹیکس دہندگان کا پورا ریکارڈ رومن دور سے رکھا جارہا تھا، مگر پورے ملک میں مردم شماری کا کوئی تصور نہیں تھا۔ مردم شماری سے چونکہ ہر صوبے کی مجموعی آبادی کے علاوہ صنفی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی ولسانی تقسیم کے علاوہ عمروں کی مختلف کیٹیگریز کے بابت بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ مردم شماری سے قبل خانہ شماری کی جاتی ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں کتنے پکے، کتنے کچے مکان ہیں ۔گزشتہ دس برسوں کے دوران ان میں کتنا اضافہ ہوا اور کتنے اضافے کی ضرورت ہے۔ان معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1798ء میںبرٹش پارلیمان میں پورے ملک میں مردم شماری کرانے کا بل پیش کیا گیا، جوطویل بحث کے بعد اسی سال منظورہوگیا۔یوں 1801ء میں برطانیہ میں پہلی مکمل اور باضابطہ مردم شماری ہوئی۔

اس کامیاب تجربے کے بعد یہ سوچا گیا کہ برطانیہ کی نوآبادیات میں بھی اس سلسلے کو رائج کیا جائے، مگر ابتداً پارلیمان نے اس کی اجازت نہیں دی۔ لیکن 1858ء میںجب ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے تابع آگیا،تونوآبادیات میںمردم شماری کو اہمیت دی گئی اور پارلیمان نے اس کی اجازت دیدی۔ چنانچہ برطانوی ہند میں پہلی مردم شماری 1871ء میںہوئی۔ جس کے مطابق اس وقت برطانوی ہند کی کل آبادی 23 کروڑ88لاکھ30 ہزار958 تھی۔ اس مردم شماری کی وجہ سے تاریخ میں پہلی مرتبہ برطانوی ہند میں مختلف مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی ولسانی کمیونٹیزکی صحیح تعدادسامنے آسکی ۔اس کے بعدبرطانوی پارلیمان نے یہ بھی طے کیاکہ جس طرح برطانیہ میں ہر دس برس بعد مردم شماری کی جائے گی،اسی طرح نوآبادیات میں بھی ہر دس برس بعد مردم شماری کی جائے۔ لہٰذابرطانوی ہند میں 1941ء تک تسلسل کے ساتھ ہر دس برس بعد مردم شماری ہوتی رہی۔

قیام پاکستان کے بعد مردم شماری کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے اس کاعلیحدہ شعبہ 1950ء میں قائم کیا گیا۔جس کے تحت ملک کی پہلی مردم شماری 1951ء میں کی گئی۔دوسری مردم شماری1961ء میں ہوئی۔گویا متحدہ پاکستان میں صرف دوبارمردم شماری ہوسکی۔اس کے بعد 1972ء میں ہونے والی مردم شماری سقوط ڈھاکہ کے بعد ہوئی تھی۔چوتھی مردم شماری 1981ء میں جنرل ضیاء کے دور میں ہوئی۔پانچویں مردم شماری جسے1991ء میں ہونا تھا،سیاسی دبائو کی وجہ کہیں جاکر1998ء میں ہوسکی۔اس کے بعد سے اب تک کوئی مردم شماری نہیں ہوسکی ہے۔ ان پانچ میں سے ابتدائی دو اور چوتھی مردم شماری پر کسی قسم کے بڑے اعتراضات نہیں اٹھے۔

البتہ 1972ء میں ہونے والی مردم شماری کے بارے میں کچھ اعتراضات سامنے آئے اور کراچی کی بعض تنظیموں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ اس مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو دانستہ کم ظاہر کیا گیا ہے۔ جب کہ1998ء کی مردم شماری کے بارے میںہر صوبے سے ان گنت شکایات موصول ہوئیں۔جس کی وجہ سے یہ متنازعہ ہوگئی۔2008ء میں چھٹی مردم شماری ہونی تھی، مگر بعض سیاسی قوتوں کی مداخلت کے باعث پانچ برس گزر جانے کے باوجوداب تک نہیں ہوسکی ہے۔اصولی طورپر پاکستان میں اب تک 7مردم شماریاں ہوجانا چاہیے تھیں،مگرسیاسی مداخلت کی وجہ سے معاملہ پانچ پر اٹکا ہواہے۔

مردم شماری جیساکہ اوپربیان کیا جاچکاہے کہ خالصتاًایک انتظامی اور پیشہ ورانہ عمل ہے،جس میں سیاسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں مردم شماری کی جاتی ہے، لیکن کہیں بھی اسے Politiciseنہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ بعض سیاسی قوتیںاپنے مخصوص سیاسی مفادات کی خاطر اس عمل کو مسلسل سبوتاژ کررہی ہیں۔اس کے کئی حقیقی اور کئی فرض کردہ اسباب ہیں۔خاص طورپر سندھ میں قوم پرست تنظیموں کو یہ جائز خدشہ ہے کہ اس صورتحال میںہونے والی مردم شماری کے نتیجے میں وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت ہوجائیں گے اور ان کاصدیوں سے قائم سیاسی، سماجی اور ثقافتی تشخص ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ قیام پاکستان کے وقت سے صرف ان کے صوبے میں مسلسل نقل مکانی ہورہی ہے۔ ابتدائی دس برسوں کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہجرت کرکے آنے والوں نے سندھ کا رخ کیا۔ اب پاکستان کے مختلف حصوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تلاش روزگار میں سندھ کے شہروں کا رخ کرتی ہے اور پھر یہیں کی ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ کسی روک ٹوک کے بغیرمسلسل جاری ہے۔

سندھی عوام اور دانشوروں کے ذہنوں میںجنم لینے والے یہ خدشات اپنی جگہ درست ہیںاور ان کا سد باب بھی ضروری ہے۔مگریہ مسئلہ بذات خود گورننس کی ناکامی کا منہ بولتاثبوت ہے۔مردم شماری روک دینے یا اس میں تاخیری حربے استعمال کرنے یا سیاسی مداخلت کرنے سے اس کااعتبار یعنی Credibilityتو متاثر ہوگی، مگر ان سیاسی،انتظامی اورمعاشی مسائل کا حل نہیں نکل سکے گا،جن سے ملک دوچار ہے۔اس لیے مردم شماری کا راستہ روکنے کے بجائے ایسی منصوبہ بندی کے لیے دبائو ڈالاجائے کہ مختلف صوبوں سے عوام کا بہائو کسی ایک صوبے کی طرف نہ ہوسکے بلکہ انھیں اپنے ہی صوبے میں روزگار کے بہتر ذرایع میسر آجائیں۔صحیح اور بروقت مردم شماری بہت سے حقائق کو منظر عام پر لے آتی ہے، جس کی وجہ سے اس قسم کے مسائل پر توجہ دینا اور انھیں حل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ملک میںبلا تاخیر خالص انتظامی اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر مردم شماری کرائی جائے،تاکہ سیاسی مداخلت کا راستہ بند ہوسکے اور حکومت کو صحیح اعداد وشمار تک رسائی ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔