صاف پانی کی فراہمی کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا جائے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 25 مارچ 2019
’’پانی کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو

’’پانی کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کی گفتگو

کرہ ارض پر زندگی، صنعت، زراعت اور معیشت کے تمام شعبہ جات کا پہیہ پانی کی مرہون منت ہے مگر بدقسمتی سے دنیا میں پانی کی زیر زمین سطح کم ہوری ہے۔ پاکستان پانچ دریاؤں اور ایک سمندر کی حامل سرزمین ہے مگر اس کے باوجود پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں مستقبل قریب میں پانی کے بحران کا سامنا ہوسکتا ہے۔

زیر زمین آبی ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے پہلی مرتبہ 1992ء میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کی گئی اور اس سلسلے میں ایک عالمی دن منانے کی تجویز دی گئی جس کے بعد 22مارچ 1993ء کو پانی کے حوالے سے پہلا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کا مقصد پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ پانی کے عالمی دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن رہنماؤں اور آبی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

میاں محمود الرشید

(وزیر برائے ہاؤسنگ، اربن ڈویلپمنٹاینڈ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پنجاب )

پانی کے حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کام باقی ہے۔ بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ لاہورجیسے بڑے شہرمیں ہر سال زیر زمین پانی کی سطح3 فٹ سے زائد کم ہورہی ہے جو تشویشناک ہے، آئندہ چند برسوں میں یہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔

صحت، تعلیم اور پینے کا صاف پانی حکومت کی ترجیحات میںشامل ہے اور اس حوالے سے تندہی سے کام جاری ہے۔بدقسمتی سے ماضی میں پانی پر بہت زیادہ سیاست ہوئی۔ پانی کے منصوبوں پر اربوں روپے مختص کیے گئے، صاف پانی کمپنیوں کا شور ہوا، بڑے بڑے دفاتر بنائے گئے، لگژری گاڑیاں اور لاکھوں روپے کی تنخواہیں رکھی گئیں مگر نتیجہ صفر، باوجود بلند و بانگ دعوؤں کے کسی کو ایک قطرہ پانی نہیں ملا۔ افسوس ہے کہ ملک کااربوں روپیہ ضائع ہوگیا اور اب کیسز نیب میں چل رہے ہیں۔

پاکستان میں بسنے والے تمام افراد کو صاف پانی کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے لہٰذا ہم اس کے لیے ٹھوس اقدات اٹھا رہے ہیں۔ 70 برسوں سے پاکستان کی واٹر پالیسی نہیں تھی۔ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ واٹرپالیسی بنائی جس پر جلد عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔ اسی طرح ہم نے آبِ پاک اتھارٹی بھی بنائی ہے تاکہ پانی کے مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ پنجاب کا پانی مختلف محکموں میں تقسیم تھا، کسی جگہ واسا ، کسی جگہ مقامی حکومت اور کسی جگہ این جی اوز پانی فراہم کر رہی ہیں مگر آپس میں رابطے کا فقدان ہے لہٰذا ہم نے کوشش کی ہے کہ آبِ پاک اتھارٹی کے ذریعے پنجاب میں مضبوط اور مربوط نیٹ ورک قائم کیا جائے،جس سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر موثر کام ہوسکے گا۔

اسی طرح ہر سال بارشوں سے لاکھوں ایکڑ مکعب فٹ پانی ضائع ہوجاتا ہے، اس میں ڈیم بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے تاکہ پانی کو محفوظ کیا جاسکے اور بوقت ضرورت کام آسکے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر کام ہورہا ہے۔ ایشیئن انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے سرفیس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لاہور اور فیصل آباد میں لگا رہے ہیں، جس پر 25 ارب روپے لاگت آئے گی۔ لاہور کی بی آر بی نہر میں یہ پلانٹ لگایا جائے گا جس سے دریا کا پانی پینے کے قابل ہو جائے گا اور لاہور کا 20 فیصد حصہ اس سے مستفید ہوگا۔ ہم ہربنس پورہ، باغبانپورہ و دیگر قریبی علاقوں کے ٹیوب ویل بند کر دیں گے اور یہ پانی ان علاقوں کے لوگوں کو پہنچایا جائے گا، اس سے زیر زمین پانی کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی مقدار کو روکا جا سکے گا۔

گندہ پانی فصلوں کو دیا جا رہا ہے جنہیںکھانے والے ہیپاٹائٹس و دیگر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔اس کو مدنظر رکھتے ہوئے گندے پانی کو صاف کرنے کیلئے ہم ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر لاہور کے چار علاقوں میں یہ پلانٹس لگائے جائیں گے جن کے لیے زمین حاصل کر کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ پلانٹس 3 سے 4 برسوں میں کام شروع کر دیں گے۔ ان علاقوں میں شاہدرہ،بابو سابو، موہلنوال و دیگر شامل ہیں۔ لاہور کے بعد ملتان، فیصل آباد سمیت پنجاب کے تمام شہروں میں بھی بتدریج یہ پلانٹس لگائے جائیں گے۔ جہاں واساکام کر رہا ہے وہاں ہم نے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے کچھ سکیمیں متعارف کروائی ہیں۔ مساجد کے اندر وضو کا پانی عمومی طور پر ضائع ہوجاتا ہے۔ لاہور کے 90 مقامات کی مساجد میں وضو کے پانی کو ضائع ہونے سے پچانے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

ابتدائی طور پر ڈیڑھ ماہ قبل جوہر ٹاؤن میں دو پائلٹ پراجیکٹس کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان میں وضو کے پانی کو مسجد کے ٹینک میں جمع کرکے پائپ کے ذریعے ملحقہ گرین بیلٹ اور پارکس کودیا جاتا ہے۔ 90مقامات پر یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پانی کے بہت بڑے ضیاع کو روکا جاسکے گا۔  ایک اور المیہ یہ ہے کہ لوگ پینے کا پانی ضائع کرتے ہیں۔

سروس سٹیشنز پر پانی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جبکہ لوگ فرش دھونے میں بھی پانی ضائع کرتے ہیں۔ اس حوالے سے واسا کے سخت قوانین بنائے جارہے ہیں تاکہ پانی کا ضیاع روکا جاسکے۔ پانی کا مسئلہ سنگین ہے لہٰذا حکومت، سیاسی و سماجی اداروں اور سب کی ذمہ داری ہے کہ مل کر اس اہم مسئلے پر کام کریں۔ عوام اور فصلوں کیلئے صاف پانی کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے جس پر تندہی سے کام جاری ہے۔ سینی ٹیشن کی پالیسی گزشتہ 15 برسوں سے التوا کا شکار ہے۔ اس حوالے سے ہم نے کمیٹی بنا دی گئی ہے لہٰذا جون سے پہلے اسمبلی کے سیشن میں اس حوالے سے قانون سازی کریں گے۔

حنا پرویز بٹ

(رکن صوبائی اسمبلی پنجابرہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)

صاف پانی کی فراہمی اور پانی کے مسائل حل کرنے کیلئے حکومت پُر عزم نظر آرہی ہے جو اچھا امر ہے۔ ’’آبِ پاک اتھارٹی‘‘ کے قیام کے وقت میں ہاؤسنگ اورڈویلپمنٹ کی کمیٹی کی رکن تھی۔ اس اتھارٹی کا قیام خوش آئند ہے، امید ہے اس سے بہتری آئے گی۔پانی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق پانی کے مسئلے کے حوالے سے  پاکستان کی رینکنگ 3 ہے جبکہ UNDP کے سروے کے مطابق 2025 ء میں پانی کی قلت کے حوالے سے پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہوگا لہٰذا ہمیں ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔نئے سال کے پہلے دن 15 ہزار بچے پیدا ہوئے، اسی شرح کے مطابق ایک سال میں 50 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوگا لہٰذا اگر آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو پانی کا مسئلہ سنگین ہوجائے گا۔سوال یہ ہے کہ پانی کی قلت سے بچاؤ اور لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کیلئے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ حکومت کی ول تو نظر آرہی ہے مگر بعض جگہ خلاء ہے۔

خواتین کو پانی کی فراہمی انتہائی اہم ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین دوردراز علاقوں سے پانی بھر کر لاتی ہیں اور یہ ساری ذمہ داری ان کی ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو جتنے گھنٹے خواتین پانی بھر کر لانے میں خرچ کرتی ہیں، اس دوران وہ دن میں کوئی اور کام نہیں کرسکتی جس سے ان کی تعلیم، صحت، چھوٹے کاروبار وغیرہ کا حرج ہورہا ہے۔ حاملہ خواتین کیلئے پانی بھرنا انتہائی خطرناک ہے، اس سے ان کی صحت کو خطرہ ہے۔ اگران حاملہ خواتین کو پینے کا صاف پانی فراہم نہ کیا جائے تو ابنارمل بچے پیدا ہوتے ہیں لہٰذااس پر توجہ دینا ہوگی۔جب آب پاکستان اتھارٹی کا بل پاس ہورہا تھا تو اس وقت میں نے آواز اٹھائی کہ جنوبی پنجاب جیسے علاقوں جہاں پانی کا مسئلہ ہے لہٰذا ان پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔اتھارٹی تو بن گئی مگر پانی کی دستیابی بڑا سوال ہے؟ وویمن آن ویلز جیسے بہترین منصوبے کو پانی کی فراہمی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے، اس سے خواتین کیلئے پانی تک رسائی کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہوجائے گا۔

چھوٹے کاشتکاروں کو بے شمار مسائل ہیں، انہیں پانی کی فراہمی بھی نہیں ہو رہی۔ اس حوالے سے حکومت کو ایک فورس بنانی چاہیے جو انہیں صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائے۔مسائل کے موثر حل کیلئے خواتین اور پسماندہ گروہوں کو فیصلہ ساز باڈیز کا حصہ بنایا جائے۔ آب پاک اتھارٹی میں خواتین، سول سوسائٹی، آبی ماہرین و معاشرے کے دیگر سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے، اس سے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ آب پاک اتھارٹی کو پانی کی کمپنیوں اور پانی کی بوتلوں کی چیکنگ کرنے کا اختیار بھی ملنا چاہیے تاکہ  لوگوں کو مضر صحت پانی سے بچایا جاسکے۔ نئی قانون سازی کے حوالے سے ڈرافٹنگ جاری ہے، سینی ٹیشن کی پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے، ہم اپوزیشن میں ہیں مگر عوامی مسائل کے حل کیلئے ہمیشہ کام کرتے رہیں گے۔

شاہنواز خان

(نمائندہ سول سوسائٹی )

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے کلین اینڈ گرین پروگرام کی وجہ سے اس سال پاکستان میں بھی یہ دن خصوصی طور پر منایا گیا۔ اس حوالے سے سے گورنر ہاؤس پنجاب میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں آبی ماہرین نے شرکت کی اور لوگوں کو پانی کی ا ہمیت کے حوالے سے آگاہی دی۔ ملک میں پانی کی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔ آزادی کے وقت فی کس 5600 مکعب لیٹر پانی موجود تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک لیٹر کے قریب رہ گیا ہے، ہمیں پانی کے بچاؤ کیلئے خصوصی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔  89 فیصدواٹر سپلائی سکیموں کا پانی غیر محفوظ ہے جبکہ 16 ملین افراد گندا پانی پینے پر مجبور ہیں جو بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

بیماریوں کا جائزہ لیا جائے تو  40 فیصد بیماریاں پانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لہٰذا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے بعض اچھے اقدامات اٹھائے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی نے پانی کے حوالے سے 2قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی ہیں۔ پہلی قرارداد میں کہا گیا کہ پانی کیلئے حکومت نے جو 21 ارب روپے مختص کیے ہیں وہ اس سال جون تک خرچ کیے جائیں۔ دوسری قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب میں کھلے عام رفع حاجت کا خاتمہ یقینی بنایا جائے اوراس حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ پنجاب واٹر پالیسی بھی منظورہوچکی ہے جو بہترین اقدام ہے۔ پیشرفت دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت پانی کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے ۔ حکومت کو جلد از جلد سینی ٹیشن پالیسی بھی بنانی چاہیے۔

فراقت علی

(آبی ماہر)

پانی ہماری زندگی ہے اور یہ تمام جانداروں کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے پانی محفوظ نہیں کیا۔پانی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار پانی کی شدیدترین کمی والے 3 ممالک میں ہوتا ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو 2025ء میں ہمارے پاس فی کس 500 کیوبک لیٹرپانی رہ جائے گا جو قیام پاکستان کے وقت فی کس 5600 مکعب لیٹر تھا۔ نو منتخب حکومت کے منشور میں پانی ترجیحات میں شامل ہے۔

اس حوالے سے کام بھی کیا جارہا ہے تاہم محکمہ آبپاشی کی ’’واٹر پالیسی‘‘ میں پانی کے بچاؤ پر توجہ دی گئی لیکن صاف پانی کے حوالے سے بہت کم بات کی گئی۔ اس میں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ پانی کہاں سے ملے گا، اس کا معیار کیا ہوگا، کتنے لوگوں کو ملے گا اور کون اس کا ذمہ دار ہوگا۔ بدقسمتی سے ابھی تک ہم نے زندگی کو ترجیح ہی نہیں دی اور نہ ہی لوگوں کو ان کا حق دیا۔ افسوس ہے کہ جو پانی زندگی کی بنیاد ہے، اسے بنیادی انسانی حق تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ باتوں کی حد تک تو کہا جاتا ہے مگراسے تحریری شکل نہیں دی جاتی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پانی کو بنیادی انسانی حق قرار دیا جائے۔ 92 سے 94 فیصد لوگوں کو پانی تک رسائی ہے مگر یہ غیر معیاری ہے۔ پنجاب کی 72فیصد واٹر سپلائی سیکموں کا90 پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

پانی کے حوالے سے لوگوں میں شعور بیدار ہورہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا، عدلیہ نے اس پرٹھوس اقدامات اٹھائے جبکہ موجودہ حکومت بھی اچھا کام کر رہی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے بھی پانی کے مسئلے کا ادراک کیا اور اس پر کام بھی کیا مگر چونکہ یہ مسئلہ بہت بڑا ہے اس لیے حل ہونے میں وقت لگے گا۔ ایک سروے کے مطابق پنجاب میں پانی اور سینی ٹیشن کا مسئلہ حل کرنے کیلئے 2 کھرب روپے کی خطیر رقم چاہیے۔ ہم ایک غریب ملک ہیں جس کے لیے اتنی بڑی رقم فوری خرچ کرنا مشکل ہے۔ حکومتیں اس پر کام کرتی رہی ہیں، موجودہ حکومت بھی اقدامات اٹھا رہی ہے لہٰذا امید ہے کہ مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔پنجاب آب پاک اتھارٹی کا قیام خوش آئند ہے۔ اب پانی کی فراہمی، معیار، فلٹریشن پلانٹس ودیگر کام کیلئے ایک ہی محکمہ ذمہ دار ہوگا لہٰذا اب پانی کے مسائل حل کرنے میں بہتری آئے گی۔

مبارک علی سرور

(آبی ماہر )

ہر سال 22مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد پانی کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔ پانی کی تقسیم کریں تو ایک پینے کا پانی ہے جبکہ دوسرا فصلوں کو دیا جانے والا پانی ہے۔ افسوس ہے کہ یہاں نہ پینے کا پانی صاف ہے اور نہ ہی فصلوں کو دیا جانے والا پانی۔ محکمہ آبپاشی کی ’’واٹر پالیسی‘‘ میں پانی کا ضیاع روکنے پر توجہ ہے تاکہ سرفیس واٹر اور گراؤنڈ واٹر کو محفوظ بنایا جاسکے مگرصاف پانی کی فراہمی پر نہیں۔ پاکستان میں 95 فیصد لوگوں کو پانی تک رسائی ہے مگر اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ وہ پانی صاف ہے۔ 68 فیصد بچوں کو سکولوں میں پانی مل رہا ہے جبکہ دیگر بچوں کی پانی تک رسائی نہیں ہے۔

ایک ہزار میں سے 68 افراد پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں میں جلدی بیماریاں، ڈائریا و دیگر شامل ہیں لہٰذا پانی کی آلودگی کم کرنے کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ پانی کو کس طرح جراثیم سے پاک کرنا ہے۔ اس کے بہت سارے آسان طریقے ہیں۔ پانی کو ابالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں۔ سورج کی شعاؤں میں پانی کی بوتل کو لٹا کر رکھنے سے بھی پانی صاف ہوجاتا ہے۔پانی میں دو بڑی آلودگیاں ہوتی ہیں۔ ایک حیاتیاتی جرثومے  جبکہ دوسرے کیمیکلز ہوتے ہیں۔ کیمیکل آلودگی کو ختم کرنے کیلئے پراسس کرنا پڑتا ہے مگر بیکٹیریا کو گھر میںہی با آسانی ختم کیا جاسکتا ہے جس کیلئے مندرجہ بالا طریقوں کے ساتھ ساتھ پانی صاف کرنے کی گولیاں و ساشے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

میرے نزدیک لوگوں میں پانی کی اہمیت کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ 10 برسوں میں قیام پاکستان کے وقت موجود پانی کا صرف تیسرا حصہ رہ جائے گا۔ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح 300 سے 350 فٹ ہے جو آلودہ ہے۔ اس میں انسانوں و صنعتوں کا فضلہ شامل ہے۔ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ حکومت کا اچھا منصوبہ ہے۔

ہم بھی واٹر ایڈ کے ساتھ مل کر چھوٹے و درمیانے قصبوں میں اس پر کام کر رہے ہیں۔ سیوریج کا پانی صاف کرکے فصلوں کو دیا جاتا ہے لہٰذا اس طرح سبزیاں اور پھل بھی محفوظ ہوں گے اور کھانے والوں کو بیماریاں نہیں ہوں گی۔ واٹر ٹیسٹنگ کے حوالے سے  70 فیصدسے زائد افراد کو یہ معلوم نہیں ہے کہ پانی کہاں سے ٹیسٹ کروانا ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس کے لیے ہر ضلع میں حکومت کی لیبارٹری موجودہے جس سے بلامعاوضہ پانی ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے لہٰذا لوگ اپنے گھر کا پانی ضرور ٹیسٹ کروائیں۔

پانی کے حوالے سے آگاہی دینا اور اس کے مسائل کے حل کیلئے کام کرنا حکومت، سیاسی و سماجی اداروں، عوام سمیت سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے علماء کرام کو بھی چاہیے کہ مساجد سے اپنے خطبات میں لوگوں کو شعور دیں اور گندے پانی کے نقصانات کے بارے میں بھی آگاہی دیں۔جب تک لوگوں کو نقصانات کا اندازہ نہیں ہوگا تب تک بہتری نہیں آئے گی۔ صاف پانی کی فراہمی کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کرنا چاہیے، ایسا اس وقت ممکن ہوگاجب ہر شہری اس کی اہمیت کو سمجھے اور اس کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔