پاکستان کے قیام کا مقصد

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 12 اگست 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

بلاشبہ پاکستان کا 27 رمضان کو قیام نہ صرف اﷲ تعالیٰ کی جانب سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک نایاب تحفہ تھا بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے ایک معجزہ بھی تھا۔ اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے برصغیر پاک و ہند پر غالب آجانے کے بعد مسلمانوں پر زمین اس قدر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی کہ پورے ہندوستان کے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ مخالف قوتیں خاص کر ہندو انھیں ہر ممکن طریقے سے غلام بنانے اور دین اسلام کو خیرباد کرنے پر مصر ہیں اور اس کی وجہ ان حالات و واقعات کا تسلسل تھا جو کہ مسلمانوں کے ساتھ جاری تھے مثلاً بنکم چیٹرجی نے ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ اس تصور کے ساتھ پیش کیا کہ بھارت ماتا! ہم تیرے بندے ہیں۔

یہ ترانہ قیام پاکستان کے بعد بھی مسلمانوں کو پڑھنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ اسی طرح ’’برہمو سماج‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جو اکبر بادشاہ کے ’’دین الٰہی‘‘ کا دوسرا رخ کہا جاسکتا تھا۔ رام موہن رائے نے بھی اسی طرز پر ایک ادارے کی ’’مجلس ایزدی‘‘ کے نام سے داغ بیل ڈالی۔ اس کے بعد دیانند سرسوتی نے ’’آریہ سماج‘‘ کی پرتشدد تحریک شروع کی، جس میں کھل کر کہا گیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے، یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں لہٰذا مسلمان یا تو ہندو بن جائیں یا پھر ہجرت کرکے چلے جائیں۔ اسی تحریک کے تحت آر ایس ایس بنائی گئی جو ایک انتہا پسند ہندو جماعت تھی۔ اس کے علاوہ ’’شدھی‘‘ کی تحریک شروع کی گئی جس کا مقصد مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانا بتایا گیا۔ اس تحریک سے میوات کے علاقے میں مسلمانوں کو تیزی کے ساتھ ہندو مذہب قبول کرایا گیا۔ پھر سنگھٹن تحریک کے ذریعے تمام ہندوؤں کو جمع کیا جانے لگا۔

اس قسم کے پس منظر میں مسلمان اکابرین کو ہی نہیں عام مسلمانوں کو بھی شدت سے احساس ہونے لگا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے درحقیقت ظاہراً ہیں عملاً کچھ اور ہے۔ اس بات کا اندازہ بہت پہلے سرسید احمد خان کو تو ہو ہی گیا تھا مگر علامہ اقبال جیسے شاعر و مفکر رہنما کو بھی جلد احساس ہوگیا، چنانچہ انھوں نے اپنی اس کہی ہوئی بات کہ:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
کی نفی خود ان اشعار کے ساتھ کردی کہ:
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھتا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

ہمارے ہاں آج بہت سے لوگ رائے دیتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے رہنماؤں کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے لیے صرف ایک خطہ زمین حاصل کرنا تھا۔ اس سلسلے میں دیکھیے کہ علامہ اقبال نے جب حالات کا مشاہدہ کیا اور ہندوؤں کی مختلف تحریکوں مثلاً سنگھٹن تحریک کو دیکھا تو کھل کر کہا:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ‘ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفویؐ خاک میں اس بت کو ملادے

کچھ عرصہ قبل ایک طالب علم نے راقم سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں اسلامی نظام لانے کی بات خوامخوا کی جاتی ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال ایک روشن خیال شخصیت کے مالک تھے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے اکابرین بے شک روشن خیال تھے لیکن ان کی یہ روشن خیالی دائرہ اسلام کے اندر تھی۔ ان کے کہے گئے الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو ان کے علیحدہ وطن کے قیام کے تصور کو نہایت واضح کرتے ہیں، مثلاً علامہ اقبال نے جب علیحدہ وطن کی بات پیش کی تو وہ کچھ ان الفاظ میں تھی۔

’’میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کرسکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روح عصر سے ہم آہنگ کرسکے‘‘۔

قائداعظم، علامہ اقبال کے لیے کیا خیالات رکھتے تھے اس کا اندازہ قائد اعظم کے ان الفاظ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے علامہ اقبال کے انتقال پر ادا کیے۔ قائداعظم نے کہا کہ:
’’وہ میرے ذاتی دوست، فلسفی اور رہنما تھے، وہ میرے لیے تشویق، فیضان اور روحانی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے‘‘۔

اسی طرح 1940 میں جب اقبال ڈے منایا گیا تو قائداعظم نے ان الفاظ کو ادا کیا۔
’’اگر میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے حصول تک زندہ رہا اور اس وقت مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ میں اقبال کے کلام اور مسلم ریاست کی حکمرانی میں سے ایک کا انتخاب کرلوں تو میں اقبال کے کلام کو ترجیح دوں گا‘‘۔

مندرجہ بالا اقتباسات واضح کر رہے ہیں کہ اقبال اور قائداعظم جیسے اکابرین کے علیحدہ وطن اور اس کے تشخص و مستقبل کے بارے میں کس قسم کا نظریہ تھا۔ اقبال کی تیسرے دور کی تمام شاعری کیا پیغام دے رہی ہے؟ سب جانتے ہیں، لہٰذا ایسے میں یہ کہنا ہے قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کے لیے محض زمین کا ایک ٹکڑا لینا تھا اور بس! قطعی طور پر غلط، غلط اور غلط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔