سیاسی اخلاقیات

ملک کے دوسرے عہدیداروں ، وزرا کرام کے علاوہ خود ہمارے محترم سابق وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari March 30, 2019
[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام میں اخلاقیات ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اخلاقیات نام کا لفظ سیاسیات میں متروک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری سیاست جھوٹ، مکاری، دھوکا ، فریب کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس سے مل کر سیاست دان بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے وہ نظام جن کا تعلق سیاست سے ہے بدنام ہیں۔ مثال کے طور پر انتخابات کو لے لیں، انتخابی مہم جھوٹ پر چلائی جاتی ہے اور جھوٹ بھی اس دھڑلے سے بولا جاتا ہے کہ سچ شرما کر رہ جاتا ہے۔

سیاست میں جہاں حزب اقتدار ہوتا ہے وہیں حزب اختلاف بھی ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان ان مسائل پر مقابلہ ہوتا ہے جن کا تعلق عوام سے ہوتا ہے۔ مثلاً حزب اقتدار عوام کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی بات کرتا ہے تو اس کے مقابلے میں حزب اختلاف آسمان سے چاند توڑ کر لانے کی نوید سناتا ہے۔


ترقی یافتہ ملکوں میں پھر بھی کچھ شرم ہوتی ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں اہل سیاست ہنستے مسکراتے ہر اس مرحلے سے گزر جاتے ہیں جو پستیوں کی انتہا ہوتے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام سیاست کو اور سیاستدان کو کچرا کنڈی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، خیر اور سچ کے نام سے یہ کلاس سرے سے ناواقف ہوتی ہے ۔ خیرفروشی محترمین کا پیشہ ہو وہ عہد خیر کی آواز کیسے سن سکتے ہیں رائج الوقت سیاست جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور جھوٹ پر ختم ہوتی ہے ۔

یہ بات نہیں کہ سو فیصد سیاستدان ان ہی خوبیوں کے مالک ہوں دو چار فیصد لوگ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو سیاسی اخلاقیات کے واقعی پاس دار ہوتے ہیں لیکن ان کا حال پانی میں دودھ جیسا ہوتا ہے۔ ان خرابیوں اور گندگیوں کی جڑیں تلاش کی جائیں تو ہاتھ میں کرنسی کے بنڈل آتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان نظر آئے جس میں دولت کی ہوس نہ ہو ورنہ سیاستدانوں کی نوے فیصد تعداد دولت کے لیے زندہ رہتی ہے، دولت کے لیے مرجاتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران عوام کو آسمان سے تارے توڑ کر دینے کی باتیں کرنے والے انتخابات کے بعد عوام کی صفوں سے اس طرح غائب ہوجاتے ہیں جس طرح گدھے کے سر سے سینگ۔

انتخابات کے بعد ان کا واحد ٹارگٹ انتخابی مہم پر لگائے جانے والے سرمائے سے سو گنا سرمایہ واپس لینا ہوتا ہے۔ جب سیاستدانوں کا ٹارگٹ یہ ہو تو عوام سے کیے گئے وعدے فریب کی دھول میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران عوام کے ساتھ جینے ، عوام کے ساتھ مرنے کی باتیں کرنے والے فراڈ لوگ عوام سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ان کے وقت کا پورا حصہ جب تک وہ رہتے ہیں حصول دولت کی کوششوں میں گزرتا ہے اور یہ مخلوق اس نیک مقصد کے حصول میں اس قدر گم ہوجاتی ہے کہ اگلے انتخابات تک خود ان کو اپنی خبرنہیں ہوتی۔ کیا ان سیاستدانوں پر فخر کیا جاسکتا ہے؟

مثال کے طور پر جب کوئی سیاسی پارٹی انتخابات جیت جاتی ہے تو اس کا آئینی حق ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں اپنی آئینی مدت پوری ہونے تک رہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست میں لاکھ برائیاں لاکھ خرابیاں ہوں لیکن یہاں کے سیاستدان اس اخلاقی ضابطے کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہیں کہ انتخابات جیتنے والی پارٹی کو اقتدار کی اپنی مدت پوری کرنے تک کام کرنے دیا جائے غیر ضروری، غیر اخلاقی طور پر حکمران پارٹی کو ڈسٹرب نہ کیا جائے! عام طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابی بے ایمانی کے الزامات کا کلچر موجود نہیں جب کہ ہمارے ملکوں میں انتخابات ختم ہونے سے پہلے ہی بے ایمانی کا ڈنکا اس زور و شور سے بجایا جاتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی شاید ہی کوئی الیکشن ایسے گزرے ہوں ۔

جن میں بے ایمانی کا الزام نہ لگا ہوا اور حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ الزامات، الزامات برائے الزامات نہیں ہوتے بلکہ بیشتر صورتوں میں حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ آج کل حالیہ انتخابات میں بے ایمانی کے الزامات کا ڈھول اس زور و شور سے پیٹا جارہا ہے کہ ساری دوسری اہم اور ضروری آوازیں اس ڈھول کی آوازوں میں دب کر رہ گئی ہیں۔ ہماری سیاست کی اخلاقیات میں انتخابات جتنے کے بعد دھاندلی کا الزام ایسا لگتا ہے کہ یہ انتخابات ہی کا ایک حصہ ہے اور اس دھاندلی مہم کو کروڑوں روپے خرچ کرکے اور کرائے کے کارکن لاکر اس طرح آرگنائز کیا جاتا ہے کہ حکمرانوں کو حکومت کرنا مشکل ہوجاتا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے بلکہ زورشور سے جاری ہے۔

اسے ہم اپنی خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ ہمارے محترم سیاستدانوں پر جہاں انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں وہیں کرپشن کے الزامات ہماری سیاسی اخلاقیات کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ آج ذرا اپنے ملک کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ملک کے دوسرے عہدیداروں ، وزرا کرام کے علاوہ خود ہمارے محترم سابق وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ الزامات فرد واحد پر نہیں بلکہ پورے خاندان پر لگ رہے ہیں۔ ملک کے اسیر وزیراعظم کے صاحبزادگان پر ملک سے فرار ہونے کا الزام ہے۔


ملک کے وزیراعظم کے برادر خورد اور کئی اور وزراء پر کرپشن کے علاوہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے ساتھ ساتھ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزامات عدالتوں میں دفتر بند ہیں۔ ان میں سے کئی محترمین پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد ہے۔ بات اپوزیشن کی ہی نہیں بلکہ حکومت کے بعض سینئر وزراء پر بھی کرپشن اور آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزامات ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کی شنوائی ہورہی ہے جن کا تعلق مڈل کلاس سے بتایا جاتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ اربوں کھربوں کی کرپشن کیوں بنا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہماری سیاست کرپشن سے شروع ہوتی ہے اور کرپشن پر ختم ہوتی ہے ایسا کیوں ہے؟

مقبول خبریں