بھارتی انتخابات

شہلا اعجاز  پير 15 اپريل 2019

بھارت کے سترہویں لوک سبھا کے انتخابات بی جے پی اور دوسری بڑی جماعت کانگریس کے درمیان ایک رسہ کشی چل چکی ہے۔ خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ مودی سرکار نے پچھلے پانچ برسوں میں پبلسٹی کے ذریعے نام نہاد شہرت حاصل کرنے کے لیے اپنا داؤ پیچ آرمی کے ساتھ بھی لگا کر اپنے لیے کانٹے چنے ہیں،کیا ہو سکتا ہے؟ اور کیا نہیں ، لیکن اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہی ہے۔

بھارت میں گیارہ اپریل سے انیس اپریل تک چلنے والے انتخابات میں طویل ترین مرحلے کے بعد تئیس (23) مئی سے ووٹوں کی گنتی کا کام شروع ہوجائے گا اورکہا جا رہا ہے کہ بھارت کی نئی سرکارکا نتیجہ بھی سب کے سامنے آجائے گا ۔ دھاندلی کے امکانات کو ہرگز بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ دور دراز علاقوں میں جہاں سیکیورٹی کی کمی اور نچلے درجے کی ذات سے تعلق رکھنے والی قومیں بستی ہیں غنڈہ گردی اور پیسوں کے زور پر ووٹ کی خریداری آسان ترین حربہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں بھارت میں ایک دلچسپ بحث چل نکلی تھی، جس میں عوامی اور ناقدین میں اس بات پر شدید حیرت کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ بھارت جیسا ملک جو دنیا کا ایک بڑا جمہوری ملک ہے وہاں تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ ان انتخابات کے بجٹ کا اندازہ تخمینہ انتہائی حیران کن ہے جس نے امریکا جیسے سپر پاور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

2017 میں ہونے والے الیکشن میں امریکا جیسے طاقتور اور امیر ملک میں کمپنی فنانس واچ ڈاک کے اوپن سیکرٹ کے مطابق چھ اعشاریہ پچاس ارب ڈالرز خرچ ہوئے تھے جب کہ بھارت میں اخراجات اس سے بھی آگے نکل جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کا شور مچتے مچتے اب سرد پڑ چکا ہے لیکن انتخابی کرسیاں حاصل کرنے کا جنون سر چڑھ کر بول چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کی فہرست میں شامل بھارت میں سات ارب ڈالرز تک انتخابی مہمات کے زمرے میں خرچ ہوچکے ہیں یہ رقم بھارت جیسے ملک کے لیے بہت بڑی ہے جس سے اس کے کئی صوبوں میں غریبی ختم کرنے کے کامیاب پراجیکٹ مکمل کیے جاسکتے تھے۔

2014 سے لے کر 2019 میں ہونے والے ان انتخابات میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں بی جے پی اور کانگریس نے اپنے اپنے امیدواروں کے لیے اپنے تئیں نئی منصوبہ بندی کے تحت مسلمان اکثریتی حلقوں پر خاص توجہ دی ہے کیونکہ مودی سرکار تو پہلے ہی مسلمان دشمن حلقوں میں اپنی ہٹ دھرمی اور سنگدلی کی بدولت مقبول ہے ، وہیں عام بھارتی عوام میں بھی ان کی اس روش کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جا رہا۔ مسلم اکثریتی حلقوں میں پندرہ حلقے خاصے اہمیت کے حامل ہیں ۔

2014 میں بی جے پی نے اپنے جن مسلمان امیدواروں کو کھڑا کیا تھا وہ تمام اپنی نشستیں ہار گئے تھے لیکن اب بی جے پی نے پھر سے امید کا دامن پکڑا اور ان حلقوں سے دو مزید مسلمان امیدوارکھڑے کرکے چھ مسلمان امیدوار اپنے نام کرکے اپنے تئیں چھ سیٹیں حاصل کرلیں، وہیں کانگریس نے 2014 میں چھ امیدوارکھڑے کیے تھے لیکن اب راہول گاندھی کی قیادت میں نوجوان سوچ نے 2014 کے مقابلے میں مزید تین امیدواروں میں اضافہ کرکے نو مسلمان امیدوار چناؤ کے لیے کھڑے کردیے ہیں۔ یہ مسلمان اکثریتی حلقے دونوں جماعتوں کے لیے کسی بھی نتیجے کو معنی خیز بنانے میں نہایت اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مودی جی نے تو تمام عوام الناس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر خود کو چوکیداروں کی فہرست میں شامل تو کرلیا ہے لیکن وقت آنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لیا جاتا ہے۔ اس محاورے سے برصغیر کے عوام خوب اچھی طرح باخبر ہیں اب اس میں گدھا کون بنتا ہے یہ آنے والے وقت میں ہی پتا چلے گا۔

بات ہو رہی تھی بھارت میں ہونے والے دنیا کے مہنگے ترین انتخابات کی تو اس سلسلے میں وہاں سیکیورٹی کے اداروں نے بہت مستعدی دکھائی چند ہفتوں قبل دہلی سے غازی آباد کے راستے جانے والی وین کو پکڑا گیا تو چار افراد بھی دھر لیے گئے وین میں ایک 109 کلو سونا پکڑا گیا یہ 109 کلو سونا کہاں سے حاصل کیا گیا تھا یہ سوال تو اپنی جگہ قائم ہے لیکن اسے انتخابی مہم کے سلسلے میں استعمال کیا جانا تھا یہ فی الحال اہم ہے۔ یہ اس وقت تک پکڑے جانے والے سونے کی سب سے بڑی کھیپ تھی اس کے علاوہ پنجاب پولیس نے ایک کروڑ چھپن لاکھ کی ایک کارروائی میں نئی اور پرانی کرنسی برآمد کی۔ اس کے کچھ اسلحہ بھی پکڑا گیا تھا۔ ایک تخمینے کے مطابق 70 لاکھ بڑی سیٹ کے لیے اور 54 لاکھ چھوٹی سیٹ کے لیے جب کہ جوتے، چپل، ساڑھیاں، شراب کی بوتلیں، چکن بریانی کے علاوہ ناچ گانے کی محافل بھی اسی انتخابی عیاشی مہم کا ایک ذریعہ ہے۔

اسٹیج ڈانس کی ایک حسینہ بھی اسی انتخابی مہم کے لیے خاصی مقبول ہو رہی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے حسن اور ڈانس کے جلوے بکھیرنے کے بعد اب سیاست کی بازی میں بھی حصہ لینے کے لیے تیار ہیں، یہ ایک سپنا ہی ہے یا انتخابات کو رنگین بنانے کا بہانہ۔ بہرحال شوبز اور سیاست کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہمیشہ کی طرح اس چناؤ میں بھی سرگرم ہے ارمیلا جو بھارتی فلموں میں ایک طویل عرصے مقبول رہی اب کانگریس پارٹی جوائن کرکے عوامی مسائل حل کرنے پر جت سکتی ہیں، بہرحال انتخابی مہم میں امیدواروں کی ماضی کی خدمات زیادہ مقبول ہوتی ہیں یا پبلسٹی کے جادو اور عیاشی کے ساز و سامان، جلد ہی اس بڑے انتخابات کے نتیجے میں بھارتی عوام کو کیا کچھ ملتا ہے اور وہ اپنے پڑوسی ممالک سے کس طرح کے روابط رکھنے پر توجہ دیتے ہیں، مظلوم کشمیریوں کی آواز کو کب آزادی کی تحریک سمجھ کر انقلاب بپا کرتے ہیں۔ انتظار فرمائیے کہ ابھی گیم جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔