تہذیب کے رشتے

عبدالقادر حسن  اتوار 28 اپريل 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایران کا دورہ کیا جہاں پر اس سادہ مزاج شخص نے کچھ ایسی باتیں بھی کہہ دیں جو ہمارے میڈیا کی پکڑ میں آ گئیں اور پھر جس کے منہ میں جو آیا وہ بولتا چلا گیا۔ بھانت بھانت کے تبصرے اور تجزیئے پیش کیے گئے یعنی ٹی وی چینلز پر خوب رونق لگی رہی۔ ان تبصرہ اور تجزیہ نگاروں کی باتیں مجھے ماضی میں لے گئیں ۔

ایران اور پاکستان کے تہذیبی رشتے بہت پرانے ہیں، ہمارا ہر حکمران ایران کے ساتھ دوستی کی یادیں تازہ کرنے ضرور تہران کا دورہ کرتا ہے۔ ایسے ہی کئی دوروں میں مجھے بھی اپنی صحافتی ذمے داریوں کے سلسلے میں حکمرانوں کے ساتھ ایران جانے کا اتفاق ہوا جہاں کی یادیں آج بھی ایسی ہی ترو تازہ ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ بات عمران خان کے تازہ دورے کی ہو رہی تھی لیکن میں سیاست کے بازار سے کنی کترا کر ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے کتابوں کے بازار میں نکل گیا۔

جب بھی ایران جانا ہوا بس اتنی ہی فرصت ملی کہ ایران کے منقش دروازوں کو ہاتھ لگا کر لوٹ آیا۔ ہمیشہ وقت کا فقدان رہا، حالانکہ نظارے بہت تھے۔ اس سرزمین کا ایک ایک شہر ہمارے ذہن میں بسا ہوا ہے ۔ قم اور مشہد کی زیارتوں کو چھوڑ کر بھی اصفہان نصف جہاں ، شیراز، نیشا پور اور کتنے ہی شہر اور مقام ہیں جن کے نام ذہن میںہی نہیں دل پر بھی نقش ہیں اور ان سے منسوب شخصیتیں خوابوں اور خیالوں میں بسی ہوئی ہیں کہ جب بھی تہران جانا ہوا سرکاری مصروفیت اتنی زیادہ رہی کہ یہ شہر بھی پورا نہ دیکھا جا سکا ۔ ایک دفعہ تھوڑی فرصت مل گئی تو تہران سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع قم کی زیارت کر لی جہاں حضرت معصومہ ؒ کے مقبرے اور اس سے ملحقہ عمارت کی نقش کاری اور حسن تعمیر آج بھی دل پر نقش ہے۔

میرا ایران جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ میں چند کتابیں وہاں سے لے آئوں۔ ان میں دیوان شمس تبریز سرفہرست تھا جو کلام تو مولانا جلال الدین رومی کا ہے مگر انھوں نے اس میں اپنے مرشد تبریز کا اتنا ذکر کیا ہے کہ یہ ان کے نام سے منسوب ہو گیا ہے۔ یہ وہی شمس تبریز تھے جن سے اچانک ایک ملاقات کے بعد مولانا کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ مولانا عبدالرحمٰن جامی نے فرمایا کہ

مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم

تا غلام شمس تبریزے نہ شد

جب تک مولائے روم شمس تبریز کے غلام نہ بنے تب تک وہ مولوی نہ کہلا سکے۔ اقبال کے مرشد رومی کو ہم سب جانتے ہیں ۔ روایتی مولانا کی زندگی میں تصوف کا رنگ اس درویش نے بھرا جو ایک سیلانی شخص تھا اور اس وجہ سے ’’پرندہ‘‘ کہلاتا تھا۔ تہران میں میں نے ایک بار پوچھا کہ کتابیں کہاں ملتی ہیں اور اس طرح ہی اس گلی میں جا پہنچا جہاں کتب فروشوں کی دکانیں ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب لاہور میں کشمیری بازار کتب فروشوں کا بازار تھا۔ سنا ہے کہ یہ بازار تو اب کتب فروشوں سے محروم ہو چکا ہے مگر تہران کا بازار آباد چلا آ رہا ہے۔

ایران میں قریب قریب ہر شخص تعلیم یافتہ ہے اور اس وجہ سے کتب بینی کا شوق بھی ان میں زیادہ ہے۔ میں نے جتنی بھی کتابیں دیکھیں سب کتابوں میں ان کے کئی ایڈیشنوں کی فروخت کی تفصیل درج تھی جو کہ ہزاروں میں تھی۔ کتابوں کی طباعت بہت ہی شاندار بلکہ بعض کتابیں اتنی خوبصورت اور ان کا ہر صفحہ اس قدر منقش کہ جی چاہتا ہے کہ کتاب کے ہر ورق کو فریم کر کے ڈرائنگ روم میں لگا دیا جائے۔ عمر خیام کی رباعیات خریدیں جو ایک خوبصورت بکس میں بند بڑے سائز کا ہر صفحہ عمر خیام، بلا کی خوبصورت تحریریں اور کتابت ایسی کہ کسی دوسرے صفحے کو الٹنے کی ہمت نہ پڑے۔

یہی حال دیوان حافظ کا اور اسی طرح دوسرے کئی کلاسیکی شعراء کا کلام ، یہ کتابیں دیکھ کر میں نے سوچا کہ جس ملک میں لوگوں کو ایسی دلاویز کتابیں دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں ان لوگوں کی ذہن کی خوبصورتی کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی یہ گلی ایک بہت بڑا بازار ہے جس میں بڑی بڑی دکانیں کتابوں سے بھری پڑی اور کتب فروش سخت مصروف۔ قیمتیں بھی نہایت مناسب دل تو چاہا کہ دل کی ساری حسرتیں پوری کر لوں مگر کتابوں کا وزن اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ائر لائن والوں سے بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ میں جب بھی ایران سے واپس لوٹا تو کتابوں کی ایک فہرست ساتھ بنا کر لایا اور بغل میں دبائے پھرا کہ ایران کا کوئی دوسرا سفر ہو کتب فروشوں کی گلی ہو اور میں ہوں۔

میں نے منقش قالینوں اور پرانی کتابوں میں جیسی تصویریں دیکھی تھیں ان سے میرے ذہن میں تہران کے کتب فروشوں کا جو نقشہ تھا میں وہی ذہن میں لے کر اس گلی میں داخل ہوا تھا۔ گھیرے دار بڑی سی شلوار قمیض کے اوپر آراستہ عبا اور سر پر کلاہ۔ ہاتھوں میں کوئی پرانی کتاب جس کے بوسیدہ صفحات کو کتب فروش جوڑنے اور ان پر شفاف کاغذ چپکانے میں مصروف سرخ و سفید چہرے پر موزوں داڑھی اور آنکھوں میں رفاقت کتب کی چمک۔ لیکن میں جس کتب بازار میں داخل ہوا وہ میرے خوابوں سے مختلف تھا۔ یہ جدید زمانے کا بازار تھا جس میں بغیر ٹائی کے سوٹ میں ملبوس کتب فروش جو مخطوطوں اور مسودوں کی دنیا سے گزر کر جدید زمانے کے چھاپہ خانوں میں داخل ہو چکے تھے۔ کسی کتاب کے صرف چند نسخے نہیں بلکہ کئی ایڈیشن ہزاروں کی تعداد میں ان کے ہاتھوں سے گزر کر قارئین کی پیاس بجھا رہے تھے۔

ایرانیوں نے اپنی علمی میراث کو محفوظ بھی کیا ہے اور اسے عام لوگوں تک پہنچایا بھی ہے ۔ کتاب ایرانیوں کی رفیق ہے ۔ اگرچہ ایران کے مولوی حکمرانوں نے حافظ شیرازی کے اس شعر کے دوسرے مصرع کا پہلا حصہ اڑا دیا ہے لیکن جو کچھ بچا ہے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔

دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است

صراحئی مئے ناب و سفینۂ غزل است

کہ اس زمانے میں اگر کوئی رفیق اور دوست بے خلل ہے تو وہ مئے ناب کی صراحئی اور غزل کا سفینہ ہے۔

زیادہ عرصے کی بات نہیں ایران کی فارسی شاعری ہمارے ہاں بھی اتنی ہی مقبول تھی جتنی ایران میں۔ سکھ حکمرانوں تک کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ ہمارے کلاسیکی شعراء نے زیاد ہ زور فارسی زبان میں مارا۔ خود علامہ اقبال کا بہترین کلام فارسی میں ہے جو تہران کے کتب فروشوں کے ہاں اقبال لاہوری کے نام حافظ و سعدی کے برابر فروخت ہوتا ہے اور اقبال لاہوری کو ایران میں مرشد مانا جاتا ہے۔ ایک ایرانی کو جب میں نے بتایا کہ ہمارا قومی ترانہ فارسی میں ہے تو اسے سخت تعجب ہوا اور خود مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میں نے اسکول جانے سے پہلے مولوی صاحب سے قرآن پاک کے بعد جو پڑھا اس کا پہلا سبق فارسی کا یہ شعر تھا۔

کریما بہ بخشائے بر حال ما

کہ ہستم اسیر کمند ہوا

ہم فارسی کو بھول چکے لیکن فارسی اور ایران ہمیں اب بھی بہانے بہانے سے یاد کرتے ہیں ۔ ماضی کے رشتے یاد اور برقرار رہنے میں ہی خوبصورتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔