دھونس دھمکی اور دباؤ کا شکار صحافی
کئی بار صحافیوں کے تحفظ کےلیے مسودے تیار ہوئے، قانون بنے لیکن صحافیوں کو تحفظ ملنا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا
صحافیوں کے تحفظ کےلیے حکومتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ (فوٹو: فائل)
پاکستان جسے صحافیوں کےلیے خطرناک ممالک میں شامل کیا جاچکا ہے، یہاں مختلف اوقات میں صحافیوں کو خطرات کا سامنا رہا اور تاحال صحافی ان ہی خطرات سے نبرد آزما ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کے دوران صحافی جان سے بھی گئے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ شدت پسندی ختم ہوئی تو ریاستی اداروں نے صحافیوں کا جینا دشوار کردیا۔ بااثر افراد، سیاسی جماعتیں، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی صحافیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ تاہم ان تمام خطرات کے باوجود صحافی حقائق کو سامنے لانے کےلیے کوشاں رہے۔
صحافت پاکستان میں
سوات سمیت ملک بھر میں صحافت ایک مشکل اور خطرناک کام تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کے صحافی ہر وقت سر بہ کف رہتے ہیں اور دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کی شرح میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے اعداد وشمار کے مطابق 2002 سے لے کر 2009 تک صحافیوں پر تشدد کے 699 واقعات ریکارڈ ہوئے، جن میں 48 صحافیوں کا قتل ہوا، 24 صحافیوں کو دوران ڈیوٹی قتل کیا گیا۔ اسی طرح اب تک 73 صحافی قتل کیے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ اغوا، تشدد، صحافیوں کو دھمکانے اور اُن پر قدغن لگانے اور مختلف طریقوں سے انہیں دباؤ کا شکار بنانے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وادی سوات میں 1999 سے لے کر 2009 تک ایسے 12 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں چار صحافیوں کو قتل کیا گیا۔
ریاستی دہشت گردی و پولیس گردی
سات اضلاع پر مشتمل مالاکنڈ ڈویژن کے صحافیوں کو ریاستی اداروں، پولیس، سیاسی جماعتوں اور بااثر افراد کی جانب سے کئی طرح کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضلع مالاکنڈ کے صحافی بھی انتظامیہ کے دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ آج ٹی وی کے نمائندے صحافی رفیع اللہ خان نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع مالاکنڈ میں صحافیوں کی کل تعداد چالیس کے قریب ہے، جبکہ بٹ خیلہ پریس کلب میں اس وقت گیارہ ممبر صحافی ہیں۔ اگر کوئی صحافی انتظامیہ کے خلاف خبریں شائع کرتا ہے یا اُن کی کوئی خامی عوام کے سامنے لاتا ہے تو انتظامیہ کے بااثر افسران کی جانب سے مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے اور اُن پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ہماری اجازت کے بغیر اس قسم کی خبریں شائع نہ کریں ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ صحافی رفیع اللہ خان نے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2016 میں تھانہ میں ایک بینک ڈکیتی ہوئی، جس کے بعد صحافیوں نے خبریں چلائیں اور انتظامیہ کی ناکامی کا پول کھول دیا۔ ''خبریں نشر ہونے کے بعد اس وقت کے ڈپٹی کمشنر خائستہ رحمان نے صحافیوں کو بلایا اور ان پر دباؤ ڈالا کہ اس قسم کی خبریں چلانے سے پہلے ہم سے رجوع کیا کریں۔'' صحافی رفیع اللہ خان مزید کہتے ہیں کہ ''ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک ساتھی کے بھائی جو لیویز میں تھے، کو برطرف بھی کیا۔ ہم سے پریس کلب کی سرکاری عمارت چھین لی اور ہمارے مخالف صحافیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا۔ ہم نے پریس کلب کی عمارت پر قبضے کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیا، جو آج بھی چل رہا ہے۔ اس کیس میں ڈپٹی کمشنر باقاعدہ طور پر ہمارے خلاف فریق کے طور پر سامنے آیا۔ پریس کلب کی عمارت ہم نے وا گزار کرالی ہے، تاہم انتظامیہ کی جانب سے خطرات آج بھی موجود ہیں۔''
ضلع مالاکنڈ کے موجودہ ڈپٹی کمشنر اقبال حسین صحافیوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ''صحافی معاشرے کی آنکھیں ہیں اور ان کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ ضلع مالاکنڈ انتظامیہ کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جارہا ہے اور ان کے مسائل کے حل کےلیے بھی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔''
ریاستی اداروں کی جانب سے صحافیوں کو درپیش خطرات کا بیانیہ ایک طرف، پولیس گردی بھی صحافیوں کےلیے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ مختلف اوقات میں پولیس کی جانب سے صحافیوں پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ 26 اگست 2013 کو سوات کے علاقہ کالام میں عمران خان کے جلسے کے دوران دو درجن سے زائد پولیس اہلکاروں نے سماء ٹی وی کے کیمرہ مین سلمان خان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے کیمرہ و موبائل چھین لیا۔ صحافیوں کے احتجاج کے بعد ڈی پی او نے ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی، تاہم ابھی تک کسی قسم کی شنوائی نہ ہوسکی۔ اس حوالے سے کیمرہ مین سلمان خان، جو ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہیں، نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''عمران خان کی جلسہ گاہ سے کسی کام کی غرض سے باہر نکلا، جب واپسی اختیار کی تو پولیس اہلکاروں نے واپس جانے نہیں دیا۔ میں نے بار بار اصرار کیا کہ لائیو کوریج کی جارہی ہے، لہٰذا مجھے اندر جانے دیا جائے، تاہم انہوں نے مجھے اندر بھیجنے کے بجائے پیٹنا شروع کیا۔ دو درجن سے زائد پولیس اہلکاروں نے مجھے پر شدید تشدد کیا، جس کے باعث میری حالت غیر ہوگئی۔ میرے ہاتھ میں ہینڈی کیم تھا جس میں ریکارڈنگ چل رہی تھی، تاہم اسے بھی ڈی پی او کے کہنے پر مجھ سے چھین لیا گیا۔ واقعے کے بعد کالام میں طلبا اور ساتھی صحافیوں نے احتجاج کیا اور ڈی پی او پولیس نے معذرت کرتے ہوئے ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی جو تاحال ممکن نہ ہوسکی۔'' سلمان خان نے مزید کہا کہ مجھ پر تشدد کے بعد سماء ٹی وی پر خبریں نشر ہوئیں اور کچھ حد تک ساتھی صحافیوں نے میرا ساتھ دیا، تاہم مجھے انصاف آج تک نہ مل سکا۔ ایف آئی آر درج نہ کرانے کے حوالے سے سلمان خان نے بتایا کہ موقع واردات پر ہی ڈی پی او نے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی جبکہ میرے صحافی ساتھیوں نے بھی مجھے ڈی پی او کی بات ماننے کو کہا تھا جس کے بعد میں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی۔ میں سمجھتا تھا کہ ڈی پی او اور میرے صحافی دوست مجھے انصاف دلانے میں میرا ساتھ دیں گے، لیکن وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا رہتا ہے ''رات گئی بات گئی''۔
سوات کے صحافیوں کے تحفظ اور پولیس گردی کے کیسز کے حوالے سے سوات کے موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سید اشفاق انور نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''پولیس اور صحافیوں کا بہت مضبوط رشتہ ہے۔ صحافت ریاست کا اہم ستون ہے اور ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ موجودہ دور میں ہم پریس کلب کو بھی سیکورٹی مہیا کر رہے ہیں اور صحافیوں کو بھی۔ گزشتہ ادوار میں اگر کچھ کیسز پولیس کے تشدد کے سامنے آئے ہیں تو ہوسکتا ہے وہ کسی ایک اہلکار کی جانب سے یا کسی کے ذاتی فعل کی وجہ سے ہوئے ہوں، مجموعی طور پر سوات کے صحافیوں اور پولیس کا بہت مضبوط رشتہ ہے اور محکمہ پولیس صحافیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کررہی ہے۔''
ایک خطرہ سیاسی دہشت گردی
سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ میں صحافی رفیع اللہ خان کو دن دیہاڑے ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی کے بھتیجے نے اغوا کرنے کی کوشش کی اور ان پر تشدد کیا۔ پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا تو صحافیوں نے احتجاج کی راہ اختیار کی اور چھ گھنٹے بعد رپورٹ درج ہوئی۔ رفیع اللہ خان نے واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ 28 دسمبر 2018 کی بات ہے جب ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی خان کے خلاف کسی نے سٹیزن پورٹل میں شکایت درج کی تو انہوں نے الزام مجھ پر لگادیا۔ میں گھر جارہا تھا کہ سر بازار ایم این اے کے بھتیجے نے اپنی گاڑی میرے اوپر چڑھادی اور مجھے گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی، تاہم میں نے مزاحمت کرتے ہوئے خود کو گاڑی سے باہر نکال لیا۔ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا اور میرے کپڑے تک پھاڑ ڈالے۔ جب پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کےلیے پہنچے تو کسی نے ہماری رپورٹ درج نہ کی اور سب نے انکار کردیا، جس کے بعد صحافیوں نے احتجاج کیا اور چھ گھنٹے بعد ہی رپورٹ درج ہوپائی۔ رپورٹ درج ہونے کے بعد ان سیاسی اور بااثر افراد نے راضی نامہ کےلیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور جرگوں کے ذریعے مجھ سے راضی نامہ کروایا۔'' آج بھی تحصیل خوازہ خیلہ سمیت اپر سوات کے صحافی ان سیاسی خاندانوں کی جانب سے دباؤ کے شکار ہیں اورانہیں مختلف طریقوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
صحافیوں کا تحفظ ناممکن کیوں؟
صوبہ خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں صحافیوں کے تحفظ کےلیے ابھی تک ٹھوس قانون سازی نہیں کی جاسکی۔ 2014 میں ''دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ 2014'' قومی اسمبلی میں پاس کیا گیا، تاہم وہ سردخانے کی نذر ہوگیا۔ پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ کے اہم نکات میں صحافیوں کی آزادی اظہار رائے اور تحفظ کو ابتدائیہ میں شامل کیا گیا تھا، جبکہ دیگر اہم نکات تھے کہ ''صحافیوں سے اُن کے سورسز(ذرائع) معلوم کرنے کےلیے دباؤ نہ ڈالا جائے گا۔ علاقے کا ایس ایچ او صحافی کے مطالبے پر فوری سیکیورٹی فراہم کرے گا۔ جن صحافیوں کا قتل ہوا یا اُن پر تشدد ہوا ان کے مقدمات خصوصی عدالت میں چلائے جائیں گے اور ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری یقینی بنائی جائے گی۔''
کئی بار صحافیوں کے تحفظ کےلیے مسودے تیار ہوئے، قانون بنے لیکن صحافیوں کو تحفظ ملنا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
سوات پریس کلب کے چیف آرگنائزر غلام فاروق نے صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کو صحافیوں کےلیے خطرناک ممالک میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ ابھی تک صحافیوں کے تحفظ کےلیے کسی قسم کی قانون سازی نہ کی جاسکی ہے۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ پورے مالاکنڈ ڈویژن میں دہشت گردوں کے خلاف گیارہ سو سے زائد مقدمات درج ہیں، جس میں کسی بھی دہشت گرد کو ابھی تک سزا نہیں ملی، جبکہ صحافیوں کے خلاف چار سو سے زائد مقدمات درج کیے جاچکے ہیں، جن میں زیادہ تر صحافیوں کو سزائیں دی جاچکی ہیں اور انہیں جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔ صحافیوں کےلیے قانون سازی کے حوالے سے غلام فاروق نے مزید بتایا کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کےلیے نہ تو قانون سازی ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں ہوگی، کیونکہ اگر صحافیوں کو تحفظ دیا گیا تو پھر کرپٹ مافیا، کرپٹ حکومتی اہلکار ان پر دباؤ نہیں ڈال پائیں گے، اسی لیے حکومت کی جانب سے صحافیوں کا تحفظ ممکن ہی نہیں۔
سوات پریس کلب کے چییرمین شہزاد عالم نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافی آج بھی مختلف مسائل اور خطرات سے دوچار ہے۔ پولیس، ریاستی اداروں اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے صحافیوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور ان کی جان و مال پر حملے کیے جاتے ہیں۔ میری نظر میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا اداروں کے مالکان بھی عدم دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ اگر صحافی اسٹیبل ہوگئے اوران کو تحفظ مل گیا تو پھر حکومتی افراد کی من پسند خبریں نہیں چلیں گی اور میڈیا مالکان کو صحافیوں کے مطالبات ماننے پڑیں گے، جو وہ کبھی نہیں کرپائیں گے۔
صحافیوں کے تحفظ اور موثر قانون سازی کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کے ضلعی رہنما اعجاز خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کی ہی بدولت ہم حقائق جان پاتے ہیں۔ اس ملک میں سچائی کو سامنے لانے میں صحافی برادری نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ موجودہ حکومت یا کوئی بھی حکومت ہو، انہیں چاہیے کہ صحافیوں کے تحفظ کےلیے موثر قانون سازی کریں اور انہیں ہر ممکن تحفظ و ریلیف فراہم کریں۔ ہمارے جتنے بھی ایم ایم اے کے نمائندے ایوانوں میں بیٹھے ہیں ان سے بھی ہم صحافیوں کے تحفظ کےلیے آواز اُٹھانے کی التجا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کا تحفظ ملک کی بقا اور استحکام کےلیے بہت ضروری ہے۔
صحافی اور خطرات کا چولی دامن کا رشتہ ہے اور پاکستان میں یہ رشتہ کافی مضبوط ہوتا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کےلیے حکومتی اقدامات ناگزیر اور وقت کی اشد ضرورت ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ حکومتی سطح پر موثر قانون سازی ہی صحافیوں کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے، جب تک قانون سازی نہیں ہوتی تب تک خطرات یونہی منڈلاتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔