کیا قومی اسمبلی تحلیل ہوگی

کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام اراکین یہ چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کا خاتمہ ہوجائے۔


رفیق پٹیل June 21, 2019

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی ملاقات کے بعد بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ قومی اسمبلی میں بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے، اگر اپوزیشن کی جماعتیں قومی اسمبلی میں بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گی تو ایسی صورت میں وفاقی حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور بعد ازاں قومی اسمبلی بھی تحلیل ہوسکتی ہے ۔

اس وقت بجٹ کو منظور ہونے سے روکنے کا محض اعلان ہوا ہے ، اس کی عملی صورت کے لیے کئی مشکلات ہیں۔ بلاول بھٹو کے والد آصف علی زرداری پر ناجائز دولت کے حصول کے مقدمات ہیں۔

اسی طرح مریم نواز کے والد نواز شریف کو سزا ہوچکی ہے۔ خود مریم نواز پر بھی مقدمات ہیں۔ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادتوں پر ناجائز دولت کے حصول اور غیر قانونی جائیدادیں حاصل کرنے کے الزامات اور مقدمات ہیں۔ دونوں جماعتوں کے گزشتہ اقتدار کے دوران آئین اور قانون میں اس طرح تبدیلیاں کی گئیں کہ سیاسی جماعت پر اس کے سربراہ کے تسلط کو برقرار رکھا جائے ،اس طرح متبادل قیادت کا راستہ بند ہوگیا۔

بلاول بھٹو نے مریم نواز سے ملاقات کے بعد واضح کردیا کہ وہی مستقبل کی قیادت ہیں، اس بات کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ نواز شریف نے تمام اختیارات مریم نواز کے حوالے کر دیے ہیں اور آصف علی زرداری نے قیادت بلاول بھٹو کے حوالے کردی ہے۔

آیندہ وزیر اعظم کے لیے مریم نواز اور بلاول بھٹو امیدوار ہوں گے۔ ساتھ ہی وہ مل کر ایسا دباؤ پیدا کریں گے کہ ان کے والدین اور دیگر ساتھیوں کے خلاف مقدمات کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ شاید وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کا پہلے سے علم تھا اسی لیے انھوں نے قوم سے خطاب میں کہا کہ حکومت چلی جائے تو انھیں اس کی پرواہ نہیں ہے وہ ہر صورت میں بدعنوانی کے خلاف احتساب کے عمل کو جاری رکھیں گے۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی کو مقدمات سے زیادہ اس بات کی بھی فکر ہوگئی ہے کہ احتساب کے عمل کا دائرہ اگر بہت زیادہ وسیع ہوگیا تو سندھ حکومت کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ اس سارے دباؤ کا ایک مقصد سندھ حکومت بچانے کی پیش بندی ہوسکتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ میں متبادل تلاش کرے تو وہ سندھ حکومت پر آنے والے خطرے کی صورت میں ایک ایسا فارمولا سامنے لاسکتی ہے جس کی قبولیت ہر سطح پر ہو۔

فی الحال معاملہ تصادم کی طرف جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس میں مرکزی کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ اگر لانگ مارچ کا اعلان ہوا تو اس پر مولانا فضل الرحمن کے کارکن حاوی رہیں گے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پیچھے رہ جائیں گی۔ اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ مولانا متبادل وزیر اعظم امیدوار سامنے آجائیں پیپلز پارٹی کے پاس سندھ حکومت کی طاقت ہے، بلاول بھٹو وزیر اعظم کے امیدوار ہیں۔ مریم نواز کے لیے بھی آسانی یہی ہوگی کہ اگر وہ خود امیدوار نہیں بن سکتی ہیں تو بلاول بھٹو کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیارکریں۔ مولانا فضل الرحمن کی کوشش ہوگی کہ دونوں جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے نام پر اتفاق کریں۔ پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی انہونی ناممکن نہیں ہے۔

تحریک کی ناکامی کی صورت میں بھی سب سے زیادہ فائدہ مولانا فضل الرحمن کو ہوگا وہ ہر طرح کی حکومت سے مفاہمت کے گُر سے واقف ہیں بہت کم وہ اقتدار سے باہر رہے اور جب بھی اقتدار سے باہر رہے ان کی وزیر اعظم سے یا صدر پاکستان سے رسائی رہی۔ اور اپوزیشن میں بھی انھیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں تھا۔ عمران خان کے لیے فی الحال یہ کام بہت مشکل ہوگا کہ انھیں مشیر بنایا جائے اور اقتدار کا حصہ بنالیا جائے، لیکن مستقبل کے حالات کوئی بھی رخ اختیار کرسکتے ہیں۔

بلاول بھٹو اور مریم نواز کی ملاقات کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ ان دونوں نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو رد کردیا اور واضح کردیا کہ مستقبل کی قیادت مریم نواز یا بلاول بھٹو کے پاس ہی ہوگی۔ اس طرح شہباز شریف کی قیادت پر غیر اعلانیہ طور پر عدم اعتماد کیا گیا۔ اس ملاقات کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کو بھی پیغام دے دیا گیا کہ وہ کسی بہت بڑے اعلیٰ عہدے کی سوچ سے دور رہیں۔ یہ پیغام پیپلز پارٹی انھیں پہلے بھی دے چکی تھی جب وہ صدارتی امیدوار کے طور پر پیپلز پارٹی سے مدد مانگ رہے تھے اور اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار سے دستبردار کرانا چاہتے تھے۔ اسی طرح شہباز شریف جب وزیر اعظم کے امیدوار تھے پیپلز پارٹی نے حمایت سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان میں سیاسی تبدیلی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب دوبارہ انتخابات ہوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت دوبارہ انتخابات کا مطالبہ نہیں کر رہی ہے۔ حالانکہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات منصفانہ نہیں تھے تو انھیں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی کردیا تھا۔ لیکن اس وقت پیپلز پارٹی کو سندھ کی صوبائی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ یہ تصور کر رہی تھی کہ سندھ حکومت کے ذریعے اپنی سیاست کو آگے بڑھا کر آیندہ حکومت میں آنے کی راہ ہموار کرے گی۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ مسلم لیگ کی حکومت نے ان کی اعلیٰ قیادت کے خلاف مقدمات قائم کیے تھے ۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کو یہ بات نامناسب محسوس ہو رہی تھی کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا جائے ادھر مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی بھی دوبارہ انتخابات کے لیے تیار نہیں تھے ۔

مسلم لیگ (ن) کو یہ بھی امید تھی کہ وہ پنجاب میں اپنی حکومت بنالے گی۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کو امید تھی کہ اگر تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتیں متحد ہوگئیں تو وہ مل کر حکومت بناسکتی ہیں، لیکن آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے معاملات طے نہ ہوسکے۔ اس کے بعد سے اب تک دوبارہ انتخابات کا مطالبہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ خود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعض اراکین اسمبلی اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بجٹ کو اسمبلی سے منظور نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح سے وفاقی حکومت اور قومی اسمبلی کے خاتمے کے لیے ایک راستہ اختیار کیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں انتہائی معمولی اکثریت حاصل ہے۔ چند اراکین کی مخالفت یا اتحادیوں کی علیحدگی سے تحریک انصاف کے لیے بجٹ کی منظوری میں مشکلات آسکتی ہیں لیکن کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام اراکین یہ چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کا خاتمہ ہوجائے شاید کچھ ارکان پارٹی قیادت کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہوں گے۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف کی حکومت بجٹ منظور کرالے گی۔ اگلا مرحلہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی ممکنہ تحریک ہوگی جس میں لانگ مارچ اور دھرنا وغیرہ ہوں گے جس کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے لیکن حکومت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کریں اور ایک متفقہ وزیر اعظم کا نام سامنے لے کر آئیں۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو اپنے والدین کے مقدمات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکتا ہے ایسی صورت میں اپوزیشن کے پاس متبادل حکمت عملی نہیں ہے۔ سیاسی انتشار کی صورت اپوزیشن کی جماعتوں کو مزید نقصان ہوسکتا ہے اگر اپوزیشن بلاول بھٹو کو آیندہ وزیر اعظم بنانے کے لیے تیار ہے تو پہلے مرحلے میں بلاول بھٹو کو لیڈر آف اپوزیشن بنانا چاہیے اور یہ واضح کردینا چاہیے کہ وہ بلاول بھٹو کو آیندہ وزیر اعظم کے لیے قبول کرنے پر تیار ہیں۔

مقبول خبریں