ٹڈی دل کا حملہ، سندھ میں کپاس کی فصل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

تربت، دشت، گوادر، جیوانی، لسبیلہ، خضدار سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ٹڈی دل پر قابو پا لیا گیا، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ
 فوٹو : فائل

تربت، دشت، گوادر، جیوانی، لسبیلہ، خضدار سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ٹڈی دل پر قابو پا لیا گیا، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ فوٹو : فائل

کراچی / زیریں سندھ / حیدر آباد: پاکستان میں کپاس کی فصل پر30 سالہ طویل وقفے کے بعد ٹڈی دل کے بڑے حملے کا انکشاف ہوا ہے جو ابتدائی طور پر سندھ میں کپاس کی پیداوار کے حامل بیشتر علاقوں میں فصل پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ اس حملے سے کپاس کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

کاٹن سیکٹر کے باخبر ذرائع نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ ٹڈی دل کا یہ حملہ پنجاب کے کاٹن بیلٹ تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر تاحال ٹڈی دل پر قابو پانے کے اقدامات نہ ہونے سے کپاس کے کاشتکار اورکسانوں میں زبردست اضطراب پایا جارہا ہے۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاست راجستھان سے ٹڈی دل کی ضلع حیدرآباد کے علاقوں میں آمدشروع ہوئی تھی لیکن اس پر قابو نہ پانے سے یہ اب سانگھڑ، نواب شاہ، دادو، جامشورو، مٹیاری اورخیر پور میرس کے اضلاع تک پہنچ گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ٹڈی دل اب آہستہ آہستہ ضلع سکھر اور گھوٹکی کے بعد پنجاب کے کاٹن زونز تک بھی پہنچ جائے گا جس سے کپاس کی فصل کو غیر معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں کپاس کی فصل پر ٹڈی دل کا حملہ 25سے30 سال بعد دیکھاجارہاہے اس لیے حشرات کش ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے کوئی موثر زہریلی دوائیں دستیاب نہیں ہیں اس لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ادویات درآمد کر کے بڑے پیمانے پر فضائی سپرے کرائے جائیں تاکہ اس پر فوری طور پر قابو پایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ایران اور افغانستان سے بھی ٹڈی دل پاکستان میں داخل ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ دریں اثنا نامہ نگاران کے مطابق سانگھڑ، جامشورو، مٹیاری، نواب شاہ، سکرنڈ، قاضی احمد، دوڑ، باندھی، بچھیری، بھٹ شاہ، ہالا، نیو سعید آباد،کوہستانی پٹی تھانہ بولا خان، مانجھند سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں ٹڈی دل نے فصلوں کو کھانا شروع کردیا ہے۔ حملے کے باعث کپاس، جوار اور مختلف اقسام کی فصلوں اور سبزیوں سمیت آم کے باغات کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

کاشت کاروں کے مطابق 22 سال بعد سندھ میں ٹڈی دل نے حملہ کیا ہے جو زراعت اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔کاشتکاروں نے حملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ سے ہنگامی بنیادوں پر روک تھام کے لیے اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے ۔

پاکستان نے ٹڈی دل پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ٹڈی دل 1950، 60 اور 90 کی دہائیوں میں فصلوں کی تباہی کی صورت میں زراعت کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اب ایک بار پھر چولستان، رحیم یارخان، بہاولپور، صحرائے تھر، میرپورخاص، عمرکوٹ، صحرائے نارا، خیرپور اور سکھر سے بھارتی سرحد تک 3 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر ٹڈی دل حملہ آور ہوئے ہیں۔

منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر محمد طارق خان نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹڈی دل کو غذائی ضروریات اور افزائش نسل کے لیے ریتیلے علاقے درکار ہوتے ہیں جہاں فضا میں نمی بھی پائی جاتی ہو۔ بنیاد ی طور پر یہ حشرات صحرائی علاقوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر موزوں ماحول نہ ملے تو پھر یہ فصلوں کا رخ کرتے ہیں۔ صحرا میں پرورش پانے کے بعد یہ زرعی اراضی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

طارق خان کے مطابق اس بار ٹڈی دل ایران سے پسنی اور تربت کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے لوکسٹ سروے اینڈ کنٹرول ونگ نے ٹڈی دل کے حملوں کی بروقت اطلاع دی اور حشرات کش ادویہ کے کنٹرولڈ اسپرے کے ذریعے فصلوں کو نقصان سے بچایا۔

طارق خان نے بتایا کہ پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کی پانچ ٹیمیں تربت، دشت، گوادر، جیوانی، لسبیلہ، خضدار، اوتھ، خاران، دالبندین اور دیگر علاقوں میں سروے اور ٹڈی دل کے خلاف آپریشن کررہی ہیں۔ ایک ٹیم سندھ کے متاثرہ علاقوں میں بھی سرگرم عمل ہے۔

طارق خان کے مطابق ٹڈی دل اب ضلع خیرپور میں صحرائے نارا تک پہنچ گئے ہیں جہاں ہم مون سون کی بارشوں سے پہلے ان پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مون سون میں نمی اور سبزہ بڑھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹڈی دل کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔