غیر ملکی کرنسی یا سونے کے شبہ میں گھروں پر چھاپے مارنے کا اختیار ختم

شہباز رانا  بدھ 26 جون 2019
50 ہزار روپے تک کی سیل پر شناختی کارڈ کی پابندی لازم نہیں ہوگی،40 لاکھ روپے سے زائدکرایے پر ٹیکس عائد،حماد اظہر۔ فوٹو:فائل

50 ہزار روپے تک کی سیل پر شناختی کارڈ کی پابندی لازم نہیں ہوگی،40 لاکھ روپے سے زائدکرایے پر ٹیکس عائد،حماد اظہر۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد:  حکومت نے صنعتکاروں کے مطالبات کو منظور کرتے ہوئے مالی سال 2019-20 میں لگائے گئے بعض ٹیکسوں میں ترامیم  کا اعلان کیا ہے جس سے معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

منگل کے روز قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹے ہوتے وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے انکم ٹیکس کمشنروں کو غیرملکی کرنسی یا سونے کے شبے میں لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنے  کے اختیارات واپس لینے کا اعلا ن کیا۔ انہوں نے نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کیلیے پاکستان میں قیام کی مدت میں بھی نرمی کا اعلان کیا ۔حکومت اگلے مالی سال کی ان بجٹ ترامیم کی منظوری جمعہ کو فنانس بل 2019ء کے موقع پر لے گی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ نے اجلاس میں شرکت نہیں کی ۔ نان ریذیڈنٹ پاکستانیوں کے حوالے سے یہ ترمیم کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص پاکستان میں 120دن قیام کرتا ہے تو اسے ریذیڈنٹ پاکستانی تصورکیا جائیگا۔بجٹ سے پہلے یہ مدت 181دن تھی جبکہ حالیہ بجٹ میں اسے 90 دن کردیا گیا تھا۔

حکومت کانقطہ نظر یہ تھا کہ بعض لوگ صرف ٹیکس سے بچنے کیلیے 180 دن بیرون ملک قیام کر لیتے ہیں۔انہوں نے غیررجسٹرڈ افراد کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے والے مینوفیکچررز سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ طلب کرنے کی شرط میں بھی جزوی طور پرنرمی کا اعلان کیا۔بجٹ میں کالے دھن کی حوصلہ شکنی کیلیے یہ قدم اٹھایا گیا تھا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ 50 ہزار روپے تک کی سیل پر شناختی کارڈ کی پابندی لازم نہیں ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی  صنعتکار بوگس شناختی کارڈ یا اس کی غلط تفصیلات مہیا کرتا ہے تواس کے خلاف کوئی فوجداری کارروائی یا جرمانہ نہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شرط معیشت کو دستاویزی بنانے کیلیے لگائی تھی لیکن یہ ایک مشکل اقدام ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے تمباکو پرڈیوٹی میں کمی کی رعایت اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرکی سفارش  پر دی ہے کیونکہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں تمباکو کے کاشتکاروں کوفائدہ پہنچانے کیلیے اس ضمن میں ایف بی آر سے رابطہ کیا تھا۔ آن لائن کپڑے، چمڑے پر ٹیکس 16 فیصد سے کم کرکے 14 فیصد کردیا گیا ہے۔شپ یارڈ پر ٹیکس کم کردیا گیا ہے ۔40 لاکھ سے زائدکرایے پر  پر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ۔

وزیرمملکت پرائے ریونیو حماد اظہر نے بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ ٹیکس نظام کو سادہ اور آسان فہم بنایا جارہا ہے ۔ موجودہ حکومت نے 10 سال کاکام 10 ماہ میں کردیا ہے ۔ساڑھے5کروڑ لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا جن میں ایک لاکھ 52  ہزار آف شور کمپنیوں کا ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے گھروں پر چھاپے مارنے کااختیار واپس لے لیا ہے۔ گھی، آٹے  پر نہیں البتہ چینی پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے ،ٹیکس جمع کرانے کے لیے اب وکلا کی ضرورت نہیں ہوگی۔ موبائل ایپ کے ذریعے جمع کرائے جاسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت میں 70 سال سے بنیادی نقائص ہیں جنہیں دور نہیں کیا گیا ہے۔ تعلیم صحت کے بے پناہ مسائل ہیںان مسائل کی وجہ عمران خان نہیں ہیں۔جو لوگ 40 سال سے حکمرانی کررہے تھے ان سے 40 سال کا حساب لیکر رہیں گے۔گیس کا گردشی قرضہ نااہلی کی وجہ سے 150 ارب روپے سے بڑھ گیا جبکہ اسٹیٹ آو، انٹرپرائز کا خسارہ روکنے کا نام نہیں لے رہا۔ سیاست  کی خاطر پورے ملک کو داؤ پر لگا دیا گیا۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں پاکستان کے بیرونی ذخائر 19 ارب ڈالر سے کم ہوکر 6 ارب ڈالر رہ گئے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں جاری کھاتوں میں خسارہ اڑھائی ارب ڈالر تھا ۔

پاکستان کے بیرون ذخائر 6 ارب ڈالر تھے۔ن لیگ نے جو بجٹ دیا اس میں 2400 ارب روپے کا خسارہ تھا۔اب سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 30 فیصد کمی کردی گئی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو جنوری سے مستحکم کردیا گیا ہے۔ 9 ارب ڈالر کی امداد دوست ممالک نے دی، 3 ارب ڈالر قطر دے رہا ہے جب حکومت سنبھالی تھی تو 2ہفتے سے  بھی کم کے بیرونی ذخائر تھے۔ استحکام کی پالیسی پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقدام کیا،پہلے 9 ماہ میں پیپلز پارٹی کے دور میں مہنگائی ساڑھے 24 فیصد،ن لیگ کی  11 فیصد اور ہم نے 9 فیصد بڑھائی ۔ہم مہنگائی کو 5 فیصد پر کرنے کے خواہشمند ہیں، جسے بتدریج کم کرنے کی کوشش کرینگے۔

حکومت آئندہ اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے گی، معیشت کو استحکام میں لانے کیلیے سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں ۔گھی پر 16 فیصد ٹیکس اور ایک فیصد فکس ٹیکس تھا۔ہم نے ایک روپیہ فی کلو فکس ٹیکس ختم کرکے 17 فیصد کردیا ۔چینی پر سیلز ٹیکس 11 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کردیا گیا ہے، چینی پر ٹیکس لگایا جسے 17 فیصد کیا گیا۔چینی کی قیمت میں ساڑھے3 روپے کلو کا اضافہ ہوگا، 20 روپے فی کلو جو قیمت بڑھی ہے وہ اس ٹیکس کی وجہ سے نہیں بڑھی۔ آئندہ 3 سال میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 3سے4 فیصد تک جائے گا  ۔ہم نے 10 ماہ میں ساڑھے 5 کروڑ افراد کو انٹریگریٹ کردیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پراپرٹی کے ریٹ کو مارکیٹ ریٹ تک لے آئے ہیں۔ بے نامی قانون کے لاگو نہ ہونے کا فائدہ حاصل کرنے والے وہی تھے جن کے سموسے والے اور پکوڑے والے اکاؤنٹس ہولڈر نکلے۔ ایک لاکھ 52 ہزار افراد کا ڈیٹا ہم اکٹھا کرچکے ہیں، مزید 10 ممالک سے بھی ڈیٹا اکٹھا کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔