آل پارٹیز کانفرنس… کیا اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے سکے گی؟؟

’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ

’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ

مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت 26 جون کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں جمعیت علماء اسلام(ف)، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلزپارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی ودیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

اس طویل کانفرنس کے بعد اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں 25 جولائی کو ملک بھر میں یوم سیاہ منانے ، چیئرمین سینٹ کو عہدے سے ہٹانے سمیت دیگر معاملات پر اتفاق کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق رہبر کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ بھی کیا گیا جو اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں مزید مشاورت کے ذریعے لائحہ عمل وضع کرے گی کہ کس طرح یوم سیاہ منانا ہے اور چیئرمین سینیٹ کو کیسے ہٹایا جائے گا۔ ’’اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر اثرات ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ملیحہ علی اصغر خان
( چیئرپرسن صوبائی پارلیمانی کاکس و رکن  خیبرپختونخوا اسمبلی ، رہنما پاکستان تحریک انصاف)

اے پی سی میں عوام کی مسترد کردہ سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ ان جماعتوں کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ جماعتیں اپنی کرپشن کہانیوں کو چھپانے کے لیے اکٹھی ہوئی ہیں۔اے پی سی میں شرکت کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے خلاف کیسز بن رہے ہیں جن کے خوف کی وجہ سے اب حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے لہٰذا یہ کرپشن چھپاؤ اتحاد ہے ۔ اے پی سی نے مضبوط موقف نہیں دیا بلکہ الٹا عوام کو بے وقوف بنایاگیاہے ،اپوزیشن جماعتیں عوام کو قائل نہیں کر سکیں، اے پی سی میں چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کا فیصلہ کیاگیا، سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے لہٰذا شوق پورا کرکے دیکھ لے۔

وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیاجائے اور چوروں ،ڈاکوؤں کا احتساب کیاجائے ، اسی نعرے پر عوام نے عمران خان کا ساتھ دیا اور میدان میں نکلے۔ آج کل حکومت پر مہنگائی کے جو الزامات عائد کیے جارہے ہیں یہ غلط ہیں،یہ(ن)لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کے اثرات ہیں جو اب سب بھگت رہے ہیں، اگرچہ حکومت سے بھی کچھ انتظامی غلطیاں ہوئیں، وزیراعظم عمران خان نے کارکردگی نہ دکھانے والے وزراء کو تبدیل بھی کیاہے جو ماضی میں کبھی بھی نہیں ہوا اورنہ ہی کسی نے ایسی جرات دکھائی، امید ہے کہ اب حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ نو ماہ میں دیگر ممالک سے سفارتی تعلقات بہتر کیے گئے ہیں،اندرونی طور پر کچھ مسائل کا سامنا ضرور ہے لیکن حکمران اگر کرپٹ نہ ہوں تو یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ احتساب باہر کا نہیں بلکہ اپنی پارٹی میں بھی کیاجارہاہے اور آنے والے دنوںمیں پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کے خلاف بھی کیسز کھل سکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے واضح موقف اپنایا ہے کہ اگر میری پارٹی میں بھی کسی کے خلاف کیسز ہوں تو بلاتفریق کارروائی کی جائے جس کی واضح مثال علیم خان ہیں،نیب نے علیمہ خان کے خلاف بھی تحقیقات شروع کی ہوئی ہیں،علیم خان گرفتار ہوئے اور جہانگیر ترین کو عدالت نے نااہل قراردیا۔ اپوزیشن جماعتوں کی یہ تحریک ابو بچاؤ مہم ہے جو زیادہ دیر تک چلنے والی نہیں۔سب کو معلوم ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے بیرون ممالک کتنے اثاثے ہیں۔ ان جماعتوں سے جماعت اسلامی مختلف ہے جو ایک اچھے موقف پر قائم ہے اور اپنے نظریے کے مطابق سوچ رہی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے کسی رکن کا نام احتساب کی فہرستوں میں شامل نہیں۔ قومیں قربانیاں دے کر ہی بنتی ہیں۔ صرف عام آدمی ہی نہیں ہم جیسے لوگ بھی مہنگائی کا شکار ہوئے ہیں۔ہم نے بھی اپنے اخراجات کو کم کیا ہے اور موجودہ مہنگائی میں ایک باروچی خانے کے بجٹ کو چلانا مشکل ہوگیا ہے۔

ہمیں  امید رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔فوج اور حکومت نے بھی اپنے اخراجات میں کٹوتی کی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی اس بیٹھک سے خطرے کی کوئی گھنٹی نہیں بجی۔ (ن)لیگ اورپیپلزپارٹی احتساب کے کیسوں سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس عوام کو سڑکوں پر نکالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔یہ قابلیت صرف پی ٹی آئی کے پاس ہے۔یہ حکومت پر صرف الزامات لگائیں گے، جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم نے ان سے تیس ہزار ارب ڈالر کا حساب لینا ہے، اس میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔شہباز شریف کی جانب سے میثاق معیشت کی بات پلی بارگین کے مترادف ہے،آصف علی زرداری بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ڈیل کریں میں ایک بیمار آدمی ہوں۔ مریم نواز بھی آخری حربہ استعمال کررہی ہیں اور سیاسی شہید بننے کی کوشش کررہی ہیں۔ لوگوں کی برسوں کی محنت کے بعد فیکٹری نہیں بنتی، ان کی اچانک ہی ایک سے بیس فیکٹریاں بن جاتی ہیں۔اپوزیشن جتنی بھی تحاریک چلا لے، اب احتساب رکنے والا نہیں، کرپشن کرنے والے جلد نیب کی حراست میں ہوں گے۔

مولانا عطاء الحق درویش
(جنرل سیکرٹری جمعیت علماء اسلام(ف)خیبرپختونخوا)

ملک میں مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ،معیشت تباہی کی طرف گامزن ہے ،ملکی ادارے تباہ ہورہے ہیں اور عوام بے روزگاری کی وجہ سے خود کشی پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں مولانا فضل الرحمن نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے اے پی سی کا انعقاد کیا۔ یہ کہاجارہاہے کہ اعلامیے میں کچھ نہیں،اے پی سی عوامی توقعات پر پوری نہیں اتری اور نہ ہی حکومت کو کوئی مضبوط پیغام دے سکی،میرے نزدیک یہ تاثر غلط ہے بلکہ موجودہ اے پی سی ماضی کی تمام آل پارٹیز کانفرسز کے مقابلے میں کامیاب رہی کیونکہ اس میںمسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، اے این پی سمیت دیگر پارٹیوں کی قیادت نے شرکت کی۔اے پی سی میں ملک کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی طور پر بحث کی گئی جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اس بات پر متفق ہوئی ہیں کہ حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیاجائے ۔ کانفرنس میں 25 جولائی کویوم سیاہ منانے اور سینٹ چیئرمین کو ہٹا کر متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیاگیا ۔ احتجاج کو آگے بڑھانے کے لیے رہبر کمیٹی تشکیل دی گئی جو تحریک کا لائحہ عمل وضع کرے گی۔ موجودہ صورتحال میں اے پی سی نے جو فیصلے کیے ہیں وہ عوامی توقعات اور امنگوں کے عکاس ہیں۔ اپوزیشن کی لیڈر شپ آپس میں رابطے میں ہے۔

اے پی سی کے بعد آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے رابطہ بھی کیاہے اوریہ پیغام دیاہے کہ اپوزیشن کے تمام فیصلوں میں پیپلزپارٹی مکمل طور پر ساتھ دے گی ،حکومت بھی گرائیں گے، حکومت گرانے کے طریقہ کار پر جماعتوں میں اختلاف ہے جس پر مشاورت کی جارہی ہے۔ رہبر کمیٹی تحریک کے حوالے سے لائحہ عمل وضع کریگی اور اسی کے تحت اپوزیشن جماعتیں اپنے احتجاج کو آگے بڑھائیں گی۔  حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے،ملکی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں،حکومتی پالیسیوں کے باعث مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، حکومت اب تک کوئی میگا منصوبہ دینے میں ناکام رہی ہے،ماضی کی حکومتوں پر تو الزام لگایاجاتا ہے کہ انہوں نے قرضے لیے ،کرپشن کی لیکن موجودہ حکومت اب تک ماضی کی حکومتوںپر کرپشن کے الزامات کو درست ثابت نہیں کرسکی۔ اگر قرضوں کا الزام لگایاجاتاہے تو ماضی کی حکومتوں میں ترقیاتی کام ہوئے اور عوام کو وہ ترقیاتی کام نظر بھی آتے ہیں۔ حکومت احتساب کا نعرہ تو لگارہی ہے لیکن یہ نعرہ کہیں اور سے آیا ہے اور یہ نعرہ انتقام بنتا جارہاہے۔ خود حکومت کے اپنے لوگوں کے خلاف کرپشن کے بے شمار کیس ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی۔

اختیار ولی خان
(سیکرٹری اطلاعات پاکستان مسلم لیگ(ن)خیبرپختونخوا)

مسلم لیگ(ن) صرف ہزارہ تک محدود نہیں،پشاور سمیت صوبہ کے ہر ضلع میں(ن)لیگ کی جڑیں عوام میں موجود ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور عوام کو یہ پیغام دیاگیاہے کہ اپوزیشن متحد ہے اور عوام کو مہنگائی،بے روزگاری جیسے مسائل سے نکالنے کے لیے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ نواز شریف نے یہ پیغام دیاتھا کہ مولانا فضل الرحمن رہبر ہوں گے، اسی تناظر میں اے پی سی میں رہبر کمیٹی بنائی گئی۔ ماضی کے بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان جنہیں بابائے جمہوریت کا خطاب دیاگیاتھا ، ان کا کردار اب مولانا فضل الرحمن ادا کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے ہزار سیاسی اختلافات سہی لیکن وہ قابل احترام ہیں اور ان کی توقیر اپنی جگہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک چھتری تلے اکٹھا کرنا ان کا کمال ہے۔ اے پی سی میں جماعت اسلامی نے شرکت نہیں کی لیکن بہت جلد وہ بھی ہماری تحریک کا حصہ ہوگی کیونکہ اس کے پاس بھی اس کے سوا کوئی دوسرا آپش نہیں رہے گا۔

ایک طرف ملک کو مہنگائی ،بے روزگاری اور غیر ملکی قرضوں میں ڈبونے والے ہیں تو دوسری طرف ملک بچانے اوراداروں کی اصلاح کرنے والے متحد ہیں۔تحریک انصاف نے عوام کو 100 روزہ پروگرام دیا لیکن وہ دس ماہ میں بھی کچھ نہ کرسکے ۔ہم سوال کرتے ہیں کہ کروڑوں نوکریاں دینے کے وعدے کہاں ہیں؟ افسوس ہے کہ بجٹ میں کوئی میگا منصوبہ شامل نہیں اور نہ ہی پچاس لاکھ گھروں کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ۔ ڈالر کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے،وزیراعظم عمران خان کہاکرتے تھے کہ ایک روپیہ ڈالر مہنگا ہونے سے اربوں کے قرضے بڑھ جاتے ہیں تو وہ آج کیوں خاموش ہیں ؟آج تو ڈالر کی قیمت بڑھنا معمول بن گیاہے۔ ہمیں چور،ڈاکو کہاجارہا ہے جبکہ پی ٹی آئی والے دودھ کے دھلے ہیں،اگر ہم نے قرضہ لیاہے تو اسے ختم بھی کیا ہے ہم نے آئی ایم ایف کو خیرباد کہا لیکن انہوں نے آئی ایم ایف کے تنخواہ داروں کو اداروں میں تعینات کردیا۔اے پی سی فیصلوں کی روشنی میں عوام کو عید کے بعد دوسری عید کی خوشخبری دیں گے۔ شیخ رشید کہاکرتے تھے کہ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی جبکہ ہم عید کے بعد نئی عید کا جشن منائیں گے، عوام تیار رہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

نوا زشریف پر کرپشن کے الزامات تو عائد کیے جاتے ہیں لیکن جو ترقیاتی کام ان کے دور میں ہوئے ان کی مثال نہیں ملتی۔بارہ ہزار میگاواٹ بجلی ،سترہ سو کلومیٹر سڑکیں،نوجوانوں کے لیے قرضہ سکیم ،دہشت گردی کا خاتمہ ،قبائل میں امن کا سفید جھنڈا لہرانا ،صوبوں کو خود مختاری دینا ،یہ نواز شریف کے کارنامے ہیں۔ مسلم لیگ نے ملک بنایاہے اورمسلم لیگ ہی اسے سنوارے گی۔ اے پی سی کے سائے تلے ہونے والے فیصلوں سے مطمئن ہیں۔ ہم انتخابات کے دن سے ہی مولانا فضل الرحمن کے موقف کی تائید کرتے ہیں لیکن جمہوریت کی بقاء کے لیے اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اے پی سی کے فیصلوں کے مطابق عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا اور چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ ہم متحد ہیں۔ حکومت کو ختم کرنے سے پہلے عوام کو یقین دلائیں گے کہ ووٹ کی پرچی کا تقدس بحال ہوگیاہے اور عوام کے ووٹ کی قدر کرائیں گے۔ انجینئرڈالیکشن کے ذریعے آنے والی حکومتیں ایک جھٹکے کی مار ہوتی ہیں، ہم نے 126 دنوں تک ان کا دھرنا برداشت کیا مگر موجودہ حکومت ایک دن بھی اپوزیشن جماعتوں کالاک ڈاؤن برداشت نہیں کرپائے گی۔ہم ہر گلی،ہر چوک میں پی ٹی آئی حکومت کا چہرہ بے نقاب کریں گے۔

عبدالواسع
( جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی خیبرپختونخوا)

جماعت اسلامی ایک خود مختار پارٹی ہے جو کسی دوسرے سے پوچھ کر اپنی پالیسی نہیں بناتی بلکہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اور ان کا جینا حرام ہوگیا ہے جس کے پیش نظر ہماری جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے خلاف کسی جماعت کے ساتھ ملک کر نہیں بلکہ خود تحریک چلائیں گے۔ ملک میں مہنگائی اور ڈالر کی اونچی اڑان اب سے نہیں بلکہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی کے دور سے ہی ہے۔ جماعت اسلامی اپوزیشن کا کردار تو ادا کر رہی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت میں یہ کردار کیسے ادا کیا جاسکتاہے؟ آل پارٹیز کانفرنس سے کافی امیدیں وابستہ تھیں اور امید کی جارہی تھی کہ جاندار اعلامیہ جاری ہوگا لیکن صرف یوم سیاہ کے فیصلے پر اکتفاء کیا گیا، اپوزیشن جماعتوں نے سینٹ چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ بھی کیا۔

چیئرمین سینٹ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں۔ اس وقت اپوزیشن جماعتیں اپنے ،اپنے مفادات کے چکر میں ہیں تاہم اگر وہ سنجیدہ ہوجائیں تو چیئرمین سینیٹ کو ہٹا سکتی ہیں۔ ہم پر الزام عائد کیاجاتاہے کہ ہم پی ٹی آئی کے ساتھ شریک اقتدار تھے لیکن ڈرائیونگ سیٹ جماعت اسلامی کے پاس نہیں تھی۔ اے پی سی میں شامل جماعتیں بھی ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار میں شریک رہی ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں قوم کی جانب سے امید کی جارہی تھی کہ تبدیلی سے عوام کے مسائل حل ہوں گے لیکن عوام کی امیدیں پوری نہیں ہوسکیں جبکہ قبائلی اضلاع کے مسائل بھی حل نہیں ہوپارہے۔

ایم ایم اے کو ہم نے نہیں چھوڑا بلکہ ایم ایم اے نے ہمیں چھوڑ دیاہے۔ جے یو آئی قبائلی اضلاع میں اپنے نام اور انتخابی نشان پر الیکشن لڑرہی ہے۔ جماعت اسلامی کا اپنا نظریہ اور موقف ہے لہٰذا اپنے ایجنڈے اور انتخابی نشان پر آگے بڑھے گی۔جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ احتساب بلاتفریق ہونا چاہیے اور کسی ایک کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ جماعت اسلامی اسی لیے مطالبہ کرتی ہے کہ پانامہ کیس میں شامل تمام ناموں کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس پر فیصلہ آنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ماضی کی حکومتوں نے بھی کی اور یہی روش موجودہ حکومت اپنائے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف سے 22ویں ڈیل کرتے ہوئے ملک کوان کے حوالے کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی احتساب کے خلاف نعرے لگارہی ہیں لیکن (ن)لیگ نے آزمائشوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر بلاتفریق احتساب کے لیے قانون سازی کی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ موجودہ حکومت میں نواز شریف ،آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویز مشرف حکومتوں کے لوگ شامل ہیں۔ یہ ایک مافیا ہے جو وقت کے ساتھ اقتدار کے لیے پارٹیاں تبدیل کرتا رہتا ہے۔

عبدالجلیل جان
(سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام(ف)خیبرپختونخوا)

آل پارٹیز کانفرنس کایہ مطلب نہیں کہ اگلے دن ہی حکومت پلٹ دی جاتی۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں،رہبر کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے،لاک ڈاؤن سے لے کر ہڑتال کا فیصلہ اب رہبر کمیٹی ہی کرے گی۔ یہ طے ہے کہ صوبوں اور شہر،شہر احتجاج کا پروگرام بنایاجارہا ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج سے کیا نتائج نکلیں گے ہم یہ نہیں بتا سکتے لیکن جیسے جیسے یہ تحریک بڑھے گی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں تیز ہوجائیں گی۔ ہمارا ہدف حکومت کو ہٹانا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت اسلامی بھی ہماری تحریک کا حصہ بنے۔ ملک میں اس وقت آگ لگی ہوئی ہے جسے بجھانے کی ضرورت ہے۔

عوام کی معاشی زندگی تلخ ہوچکی ہے،علیحدہ تحریکیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئیں،تمام جماعتیں اٹھانوے فیصد امور پر اتفاق رائے رکھتی ہیں اگر دو فیصد پر اختلاف ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ اپوزیشن کی یہ تحریک ہرگزکسی کو بچانے کے لیے نہیں،اے پی سی کے اعلامیہ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ آصف علی زرداری اور نوازشریف کو رہا کیاجائے۔ ہم احتساب کے خلاف نہیں صرف غیر جانبدارانہ احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاستدان سے لے کر تنخواہ لینے والے تک سب کا احتساب کیاجائے۔ عوام میں روز بروز یہ رائے بڑھ رہی ہے کہ حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ماضی کی حکومتوں نے اگرچہ قرضے لیے لیکن ترقیاتی کام بھی کیے ۔موجودہ حکومت میں قرضے تو لیے جارہے ہیں لیکن ترقیاتی کام کچھ بھی نہیں،بلین ٹری سونامی منصوبہ اور بی آرٹی میں بھی واضح طور پر کرپشن نظر آرہی ہے لیکن اس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی جو افسوسناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔