بھول جانے کی عادی قوم

عبدالقادر حسن  بدھ 10 جولائی 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم مسمی میاں محمد نواز شریف ان دنوں جیل میں ہیں جب کہ جیل سے باہر ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ ان کی رہائی کے لیے لاکھ جتن کر رہی ہیں۔ اپنے سیاسی کریئر کے آغاز میں ہی محترمہ مریم صاحبہ کو مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے سامنے ایک مشکل ترین مرحلہ اپنے والد اور تین بار کے سابق وزیر اعظم کی بے گناہی کو ثابت کرنا ہے۔ انھوں نے چند روز قبل اپنے والد کی صفائی میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک مبینہ ویڈیو جاری کی ہے جس پر تبصرے جاری ہیں۔

اگر یہ ٹیپ غلط ثابت ہو گئی تو مریم صاحبہ کے لیے اپنے سیاسی سفر کا یہ پہلا بڑا اور مہلک ترین دھچکا ہو گا جو ان کی مستقبل کی سیاست پر بھی اثر انداز ہو گا۔ بہر حال ایک جوا کھیلا گیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کیونکہ مریم صاحبہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو مرسی نہیں بننے دیں گی ۔ محمد مرسی مصر کے سابق صدر تھے اور ان کا حال ہی میں عدالت میں اپنے خلاف الزامات کا سامنے کرتے ہوئے انتقال ہوا ہے۔

میاں محمد نواز شریف کی اگر بات کی جائے تو عمر کے اس حصے میں انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ گھر میں آرام سے بیٹھ کر اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ وقت گزارے۔ لیکن وہ اس وقت جیل کی کوٹھری میں بند ہیں اور تادم تحریر ان کے لیے گھر کا کھانا بھی بند کر دیا گیا ہے۔ میں جس نواز شریف کو جانتا ہوں اس کو کتابیں پڑھنے کی عادت نہیں اور جیل میں گفتگو کے لیے کوئی ساتھی بھی موجود نہیں ہوتا یعنی کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہوتا کہ قید کاٹنے کے لیے کوئی دل بہلانے والا ہو۔ لاہور کے حبس زدہ  موسم میں قید کاٹنا اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔

وہ جس الزام کے تحت جیل میں بند ہیں وہ کوئی ایسا اعلیٰ مقصد نہیں کہ ان کا ضمیر مطمئن اور دل پر سکون ہو۔ وہ ایک بری حکومت اور نادان سیاست کے نتیجے میں جیل میں ہیں۔ ان کو پوری زندگی تمام دنیاوی الجھنوں سے محفوظ اور راحتوں سے معمور رہی ہے۔ وہ خواب میں قید و بند تو کجا کسی ذرا سی بھی ناپسندیدہ کیفیت کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ ایک لاڈلا شہزادہ جس کی پوری زندگی کامرانیوں سے بھر پور رہی ہو اور قدرت نے اس پر عجیب مہربانی کی کہ اسے ملت اسلامیہ کے پہلے نظریاتی ملک کا تین بار سربراہ بنا دیا۔ یہ ایک تاریخی عجوبہ تھا ۔ انسانی عقل اس حکمتِ ِخداوندی کا ادراک نہیں کر سکتی کہ یہ اس کے لیے کوئی انعام تھا یا اس ملک میں بسنے والی قوم کے لیے کوئی سزا تھی۔ بہر کیف جو بھی تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کو حکومت کی تبدیلی ملی اور میاں نواز شریف جیل کی کوٹھڑی میں بند ہیں۔

جسمانی امراض کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ میاں نواز شریف کی صحت اتنی اچھی نہیں ہے اور اگر ان کو زیادہ عرصہ تک قید رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کا بہتر علاج ممکن نہیں تو ان کا قید سے سلامتی کے ساتھ باہر نکلنا ایک عجوبہ ہو گا۔

دل کا یہ مریض اس قدر گھبرا سکتا ہے کہ اس کی جان پر بن سکتی ہے اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ دل کی بیماری ان کی خاندانی اور موروثی بیماری ہے۔ ڈاکٹر مسلسل یہ انتباہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت بھی کسی حد تک پریشانی میں ہے اور کوئی ایسا موثر بہانہ تلاش کیا جا رہا ہے کہ ایسے مشکل اور خطرناک قیدی سے نجات حاصل کر لی جائے اور دوستوں پر احسان بھی کیا جائے ۔ اس سے پہلے بھی نواز شریف اپنے عرب دوستوں کی مہربانی سے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی قید سے نکلنے میں کامیاب ہو کر سعودی عرب پہنچ گئے تھے ۔ اس پر ہمارے مرحوم دوست منو بھائی نے جملہ کسا تھا کہ حرمین تو وہاں پہلے سے موجود تھے شریفین بھی وہاں پہنچ گئے ہیں۔

بہر حال پاکستانی سیاست میں جو گرمی چل رہی ہے وہ اس حبس زدہ موسم میں حکومت کے لیے مزید پریشانیاں پیدا کر رہی ہے اور اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے  سیاسی محاذ پر تیزی آتی جا رہی ہے ۔ نواز لیگ کے رہنماء اپنی نئی لیڈر مریم نواز کی سربراہی پر متفق اور متحد نظر آ رہے ہیں اگر کسی  فریق کو مریم نواز کی سیاسی قیادت پر تحفظات ہیں تو وہ ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آ سکے کیونکہ اس مشکل وقت میں نواز لیگ سے راستہ جدا کرنے والے اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان بھی پہنچائیں گے اور مستقبل کی سیاست ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ سیاسی ناتجربہ کاری کے باوجود مریم نواز اپنے والد کی رہائی کے لیے جو دہائی دے رہی ہیں اس کے انجام کے متعلق ابھی کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے۔

انھوں نے عدالت کے فیصلے کو متنارعہ بنانے کی کامیاب کو شش کرتے ہوئے بال حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے جب کہ وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ نئے پاکستان میں عدلیہ اور ججز آزاد ہیں اور حکومت کو جوابدہ نہیں اس لیے اس مبینہ ویڈیو کا عدلیہ کو نوٹس لینا چاہیے۔ یہ کہہ کر وزیر اعظم نے اس اہم معاملے سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ اس مبینہ وڈیو کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ یہ وڈیو ملک میں جاری احتسابی عمل کی شفافیت پر ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے اس لیے جلد از جلد اس معاملے کو نپٹانا ہو گا تا کہ ملک میں جو احتساب کا عمل جاری ہے اس کو بغیر کسی رکاوٹ اور شفاف انداز میں کسی کی پسند و نا پسند کے بغیر جاری رکھا جا سکے۔

عرض ہے کہ اداروں کو ملعون کر کے ہم اپنی ذات کو کسی حد تک فائدہ تو پہنچا سکتے ہیں لیکن ملک کا جو نقصان ہوتا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ ماضی میں انھوں نے ملکی اداروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ملکی اداروں پر کیسے کیسے رکیک حملے کیے گئے ۔ بہت جلد بھول جانے کی عادی قوم کو سیاسی گرما گرمی کے اس موسم میں ماضی کی باتیں یاد رکھنا ہوں گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔