پرانی دہلی کے مظلوم مسلمانوں کی نئی منظم مزاحمت

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 12 جولائی 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

واقعہ تو معمولی سا تھا لیکن اس نے بڑھتے بڑھتے خونی فساد کی شکل اختیار کرلی ۔ دراصل جب دِلوں میں پہلے سے رنجشیں اور غصہ موجود ہو تو چھوٹی سے چنگاری بھی شعلہ بن جاتی ہے ۔ یکم جولائی2019ء کی شام بھی ایسا ہی ہُوا ۔پرانی دہلی کے معروف بازار(چاوڑی)میں ایک مسلمان ، آس محمد، نے اپنا موٹر سائیکل بازار میں واقع ایک گھر کے سامنے کھڑا کیا۔ اس نے ابھی موٹر سائیکل کھڑا کیا ہی تھا کہ گھر کا ایک ہندو رہائشی، سنجیو گپتا، باہر نکلا اورکہا : موٹر سائیکل یہاں سے ہٹا لو، ورنہ اسے آگ لگا دُوں گا۔

آس محمد بھی اکڑ گیااور بولا:’’ ابھی تو نہیں ہٹاؤں گا۔‘‘ سنجیو گپتا نے گھر سے دو چار مزید مسٹنڈے بلا لیے ، آس محمدکو پکڑ کر اندر لے گئے اور اُس کی خوب پٹائی کرکے باہر پھینک دیا۔ آس محمد لہو لہان وہاں سے روانہ ہُوا، اپنے مسلمان محلّے میں گیا اور چند ہی منٹ میں اپنے چند مسلمان دوستوں کو ساتھ لے کر آیا اور متعلقہ مکان کے سامنے آ کر سنجیو گپتا کو باہر آنے کو کہا ۔ اتنے میں مقامی پولیس بھی آگئی ۔ انھوں نے مسلمان نوجوانوں کو ڈرا دھمکا کر وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن پرانی دہلی کے مسلمان نوجوانوں کا مطالبہ تھا کہ تشدد کرنے والوں کو اُن کے حوالے کیا جائے ۔ رات ہو گئی تھی لیکن نہ تو ہندو لڑکے حوالے کیے گئے اور نہ ہی پولیس نے ایف آئی آر کاٹی۔ دوسرے روز چاوڑی بازار اور قاضی حوض کے جملہ مسلمانوں نے احتجاج میں سارا بازار بند کر دیا ۔

کشیدگی پھیلی تو کسی شرارتی گروہ نے قاضی حوض کے پاس ہی دو مندروں میں گھس کر کئی مورتیوں کو مسخ کر دیا۔ اس سے ماحول مزید تناؤ کی شکل اختیار کر گیا۔ پولیس نے مگرآس محمد کو لہو لہان کرنے والے ہندوؤں کو گرفتار کیا نہ مقدمہ درج کیا۔ چوتھے روز ہندوؤں نے مقامی احتجاجی مسلمانوں پر لاٹھیوں اور بھالوں سے حملہ کردیا تو مقامی مسلمان نوجوانوں نے بھی ڈٹ کو مقابلہ کیا اور حملہ آور ہندوؤں کو بھگا دیا۔ نریندر مودی کے بھارت میں بھارتی مسلمانوں پر تشدد پسند ہندو جس طرح آئے روز ظلم کررہے ہیں ، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ چاوڑی بازار اور حوض ِ قاضی میں مسلمانوں نے جس طرح ہندو جتھوں کو بھگایا ہے، یہ پرانی دہلی کے مسلمانوں کی پہلی منظم مزاحمت ہے ۔

اس مزاحمت کی بازگشت بھارتی وزیر داخلہ، امیت شاہ، تک پہنچی تو وہ بھی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق چاوڑی بازار چلے آئے اور فریقین میں صلح کروانے کی کوشش کی لیکن ہندوؤں کے خلاف ایف آئی آر پھر بھی درج نہ ہونے دی۔پرانی دہلی کے مسلمانوں کے دل اس واقعہ پر سخت رنجور ہیں ۔ اُلٹا متشدد اور بنیاد پرست ہندو جماعت ’’وشو ہندو پریشد ‘‘ کے مقامی لیڈر ( آلوک کمار) پرانی دہلی کے پولیس کمشنر، آمولیا پٹنائیک، کو ساتھ لے آئے اور مندر پر حملہ کرنے کے الزام میں کئی مقامی مسلمانوں کو حراست میں لینے پر زور دیتے رہے ۔

ایسے میں مذکورہ بازار کی قدیم اور معروف مسجد ( فتح پوری مسجد) کے مشہور امام و خطیب ، مفتی مکرم احمد، تشریف لائے۔ اُن کے ساتھ کئی مسلمان بزرگ بھی تھے ۔ مفتی صاحب نے پولیس کمشنر سے کہا:’’ دیکھیے صاحب، آپ جانبداری سے کام لے کر ہم پر مزید ظلم نہ کیجیے ۔ اسے دھیرج سے سلجھانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ کئی سال پہلے ایل کے ایڈوانی جی نے ( بابری مسجد کے خلاف نکالے جانے والے) رَتھ یاترا کے موقع پر بھی ہماری فتح پوری مسجد پر حملہ کروایا تھا لیکن ہم نے صبر سے کام لیا تھا۔اب ہمارے( مسلم) نوجوانوں پرتشدد ڈھانے کے باوجود ناجائز گرفتار کیا جائے گا تو ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘ مفتی مکرم احمد صاحب کا یہ مستحکم لہجہ کام دکھا گیا اور پولیس کمشنر وہاں سے چلا گیا۔ لیکن دوسرے روز سینٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF)نے پرانی دہلی کے کئی مسلمان محلّوں ( مثلاً: دریا گنج، پہاڑ گنج، لال کنواں، جامعہ مسجد اور چاندنی چوک) کو اپنے گھیرے میں لیے رکھا۔ پرانی دہلی کی ہندو انتظامیہ کو غصہ آرہا ہے کہ ان مسلمانوں کی یہ جرأت کہ ہندوؤں کے خلاف مزاحمت کرنے کی جسارت کریں!!

نریندر مودی کی حکومت میںصرف پرانی دہلی کے مسلمان ہی بنیاد پرست ہندوؤں کے ظلم کی چکی میں نہیں پِس رہے ہیں ، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اب تو سارے بھارتی مسلمانوں کا یہ دردِ مشترک بن چکا ہے ۔ یہ مبالغہ نہیں، واقعہ ہے کہ بھارت بھر میں بھارتی مسلمانوں کے لیے کہیں بھی کوئی جائے امان نہیں رہی۔ اب تو یہ حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ بھارتی مسلمان افسر متشدد ہندوؤں اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کے ظلم سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے نام بھی تبدیل کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر 8جولائی 2019ء کو خبر آئی ہے کہ بھارتی ریاست، مدھیہ پردیش، کے ایک مسلمان بیوروکریٹ (نیاز خان)نے اپنی حکومت کو درخواست دی ہے کہ اُن کا نام تبدیل کر دیا جائے۔ نیاز خان نے اپنی درخواست میں لکھا:’’ میری نہ ڈاڑھی ہے اور نہ مَیں مسلمانوں ایسا مخصوص لباس پہنتا ہُوں۔

اگر میرا نام تبدیل کر دیا جائے تو مَیں بآسانی (ہندوؤں) کے تشدد اور نفرت سے بچا رہوں گا۔‘‘ اگر سینئر انڈین مسلمان افسر بھی مجبوراً یہ قدم اُٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام بھارتی مسلمان کس انداز کی جبریہ زندگی گزار رہا ہوگا۔ ہم پُر امن پاکستان میں شائد اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

یہ جبر ہی ہے کہ حال ہی میں مغربی بنگال سے ’’ترنمول کانگریس پارٹی‘‘ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی لوک سبھا کی رکن ،29سالہ نصرت جہاں، جب اسمبلی میں حلف لینے آئیں تو انھوں نے گلے میں منگل سوتر پہن رکھا تھا اور اپنی مانگ میں سیندور بھر ا تھا ۔ یہ دونوں نشانیاں صرف شادی شدہ ہندو خواتین کا خاصہ ہیں۔مشہور بھارتی دینی درسگاہ ، دارالعلوم دیوبند، کے مفتی اسد قاسمی صاحب نے نصرت جہاں کے اس پہناوے کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔ نصرت جہاں نے جہاں سخت غصے میں مفتی قاسمی کو جواب دیا ہے، وہیں لوک سبھا میں بی جے پی کے تمام ہندو ارکانِ اسمبلی (خاص طور پر سدھوی پراچی) نے نصرت جہاں کا ساتھ دیا ہے ( نصرت جہاں نے رکنِ اسمبلی کا حلف اُٹھانے کے بعد ’’بندے ماترم ‘‘ اور ’’جئے ہند‘‘ کا نعرہ بھی لگایا)ہم محترمہ نصرت جہاں کے اس پہناوے اور عمل سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہم شائد اُس سفاک جبر کا صحیح اندازہ لگانے سے قاصر ہیں جس جبر سے نصرت جہاں اور اُن ایسی نجانے کتنی ہی بھارتی مسلمان خواتین کو گزرنا پڑ رہا ہے ۔

ہر دن کے ساتھ انڈین مسلمانوں کے خلاف مختلف النوع دباؤ اور جبر بڑھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی مشہور اور مقتدر بھارتی مسلمان بھی رگڑے جا رہے ہیں ۔ مثلاً:ابھی کل ہی بھارتی میڈیا میں سابق بھارتی مسلمان نائب صدر ، حامد انصاری ، کے خلاف طوفان اُٹھا دیا گیا ہے اور82سالہ بزرگ حامد انصاری کو سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس عمر میں ان الزامات کا کیا جواب دیں؟ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی (را) کے سابق سینئر افسر ، این کے سُود، نے حامد انصاری پر سنگین تہمت عائد کرتے ہُوئے بیان دیا ہے کہ’’(کئی برس قبل) جب حامد انصاری ایران میں بھارت کے سفیر تھے تو انھوں نے تہران میں متعین ’’را‘‘ کے افسروں کے چہرے بے نقاب کرکے ہم میں سے بہت سے افسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔‘‘ این کے سُود نے مزید کہا ہے: ’’حیرت ہے بھارتی حساس ادارے سے ایسی بے وفائی کرنے والے شخص کو دو بار بھارت کا نائب صدر بنا دیا گیا۔‘‘ اس پُر خطر بیان پر بی جے پی کے مشہور دانشور اور بھارتی سینیٹ( راجیہ سبھا) کے ممبر، سبرامینین سوامی، نے جو مہلک گرہ لگائی ہے ، وہ اپنی جگہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف تعصب کا ایک نیا شاہکار ہے ۔ کئی متعصب اور متشدد بھارتی ہندو تنظیمیں حا مد انصاری کا احتساب کرنے اور اُن کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ بھی کررہی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔