جیت کس کی ہو گی

عبدالقادر حسن  اتوار 21 جولائی 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ بھی بیٹھنے کو تیار نظر نہیں آتا، کبھی اپوزیشن تو کبھی حکومت اس اونٹ کو بیٹھنے نہیں دے رہی۔ دونوں پارٹیاں اپنا اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن کسی ایک کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

حکومت کی اگر بات کی جائے تو وہ اپوزیشن کو راستہ دینے کو تیار نظر نہیں آتی بلکہ حکومت اس بات پر مصر ہے کہ اپوزیشن نے ماضی میں حکمرانی کے دوران جو خرابیاں پیدا کی ہیں، اسے ان کا حساب دینا ہوگا اور یہ حساب ابھی چل رہا ہے، اپوزیشن کے قائدین جیل میں ہیں اور اب پارٹیوں کی دوسرے درجے کی قیادت بھی احتساب کے شکنجے میں جکڑی جا رہی ہے۔ اپوزیشن بہت عجلت میں ہے اور اس سے حکومت سے علیحدگی برداشت نہیں ہو رہی اور وہ حکومت کو ملعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔

اپوزیشن کی یہ کوشش ہے کہ وہ حکومت کو عوام کے لیے ایک بری حکومت ثابت کر دے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام چونکہ اپوزیشن لیڈروں کو ایک مدت بھگت رہے ہیں وہ ان کی بات سنتے تو ضرور ہیں لیکن ان کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ جتنی بری حکمرانی ماضی میں کی گئی ہے اس کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں۔

حکومت کا کام تو ملک چلانا ہے جب کہ عوام ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہے ہیں، اس کے باوجود اپوزیشن کی یہ خواہش ہے کہ عوام کی نظروں میں حکومت کو ناکام ثابت کر کے حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے لیکن اگر وہ گریبان میں جھانکیں تو یہ نظر آ جائے گا کہ موجودہ ابتر حالات کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے مگر وہ گریبان میں جھانکنے سے انکاری ہیں ۔

عالمی اداروں نے بھی پاکستان کو زیر بار رکھنے کے منصوبے تیار کر رکھے ہیں۔ ہماری حکومت نے منت ترلے کے بعد آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کیا ہے اور یہ منت ترلہ عوام کو بہت مہنگا پڑنے والا ہے، اس کے آثار شروع ہو چکے ہیں لیکن بات وہیں پر آ کر ٹکتی ہے کہ ماضی میں حکومتیں جو اس ملک کے ساتھ ہاتھ کر گئی ہیں اور جس بے دردی سے ملک کو قرض میں پھنسایا گیا ہے، وہ انھوں نے ذاتی جیب سے نہیں حکومت کے خزانے سے ہی ادا کرنا ہے اوریہ ریاست پاکستان کی ذمے داری ہے کیونکہ کسی ایک شخص کے ساتھ معاہدے نہیں تھے بلکہ ملکوں کے درمیان معاملات طے پائے تھے۔ اس بات کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا کہ یہ معاہدے کس نے کن شرائط پر کیے اور ان میں کتنی شفافیت تھے اور یہ قرض کہاں خرچ ہو ئے، ابھی تو ان کی ادائیگی کا معاملہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ملک مزید قرض حاصل کر کے ادا کر رہا ہے ۔

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ جس ملک کے ترقی کے ماڈل کو دیکھ کر کئی مسلمان ملکوں نے اپنے ملک کو سنوارنے کی بنیاد رکھی وہی پاکستان اب انھی ملکوں کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور ان ملکوں کی ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اس کی وجوہات کئی بار لکھی جا چکی ہیں کہ ہم بدقسمتی سے اپنے قیام کے بعد ایک ایسے طبقے کا شکار بن گئے جو کہ شکاری ذہنیت کا تھا ۔ مسلمانوں کا اشرافی طبقہ اپنی عیاشیوں کی وجہ سے ہمیشہ ہندو ساہوکاروں کے زیر بار رہتا تھا اس لیے ان کے لیے یہ بات نہایت سود مند تھی کہ ہندو ساہوکار اس ملک سے چلے جائیں اور ان کی قرضوں سے جان چھوٹ جائے بلکہ وہ اس تاک میں بھی رہے کہ ان جانے والوں کی جائیدادوں پر قبضہ بھی کر لیا جائے اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے لوگوں کی اکثریت آج بھی ان جائیدادوں پر قابض ہے ۔

ان کرداروں کو کیا نام دیں یا سیاسی منافقت کہا جائے کہ چند ماہ پہلے تک ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہوئے حد سے گزر جانے والے آج شیرو شکر ہو رہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے کی منافقانہ تعریف کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ سیاست میں کل کی دشمنی آج کی دوستی میں بدلتے بہت بار دیکھا ہے مگر جو معاملہ ہماری موجودہ اپوزیشن پارٹیوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کیا ہے، اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کے دونوں سیاسی حریف ایک دوسرے کے دفاع میں کھل کر سامنے آگئے ہیں اور ملک کے وسائل پر ڈالے گئے ڈاکے بچانے کے لیے ایک دوسرے کی بیساکھیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔

سیاست بھی کیا کیا عجوبے دکھاتی ہے ضیاء الحق کے سیاسی وارث اور جانشین جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے جانشینوں کے ساتھ شیرو شکر ہو رہے ہیں، اس سے عالم بالا میں ضیاء الحق کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی۔ یہی آج کی رائج سیاست اور اس کی روایات ہیں ۔ دونوں سابقہ سیاسی حریفوں نے جس طرح اتحاد کر لیا ہے اس سے یہ بات نظر آرہی ہے کہ ان کا مطمع نظر ایک ہی ہے اور وہ ہے قید سے چھٹکارا۔ جناب آصف زرداری ہوں یا میاں نواز شریف دونوں عمر کے اس حصے میں قید برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔

لاکھ کہا جائے کہ سیاسی قید ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کر ے گی مگر حقیقت یہی ہے کہ ان کا سیاسی قد کاٹھ جتنا تھا اتنا ہی رہے گا اور موجودہ قید اس میں مزید اضافے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ اب یہ قید ان دونوں کے لیے جسمانی طور پر انتہائی تکلیف دہ ہے اور روحانی طور پر وہ اس سے آسودگی حاصل نہیں کر پا رہے کیونکہ عوام یہ جان چکے ہیں کہ ان کے سابقہ لیڈر عوام کی وجہ سے نہیں اپنی کی گئی کار گزاریوں کی وجہ سے قید میں ہیں، ان کے جماعتی کارکنوں میں ہمدردی کے جذبات تو ہو سکتے ہیں مگر ایک عام پاکستانی کی نظر میں ان کے لیے جذبات تو دور کی بات ہے کسی قسم کی کوئی ہمدردی بھی نہیں پائی جاتی۔

حکومت اور اپوزیشن سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا خوب مقابلہ کررہی ہیں، فی الحال حکومت کے پلڑے میں وزن ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کا واضح فرق عمران خان کی ذات ہے جن پر باوجود کوشش کے ابھی تک کوئی الزام نہیں لگایا جا سکا، ان کے مخالفین ان پر مختلف حوالوں سے تنقید کرتے ہیں جس میں کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ وہ پہلی دفعہ براہ راست اقتدار میں آئے ہیں، ان کی اپوزیشن کو پانچ سال تک انتظار کرنا ہو گا لیکن ہماری بے صبری اپوزیشن یک زبان ہے اور اس کا اس وقت ایک ہی نعرہ ہے کہ ان کے لیڈروں کو رہا کیا جائے، ان کے لیے پانچ سال کا انتظار مشکل ہو گیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس انتظار میں جیت کس کی ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔