وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے اثرات
صحیح حکمت عملی اور بہتر منتظمین کے ذریعے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد سے پاک امریکا تعلقات نے ایک نیا رخ اختیارکیا ہے۔ کچھ عرصے سے ان تعلقات میں جمود تھا لیکن خطے کی صورتحال خصوصاً افغانستان میں قیام امن کی کوشش ، چین اور امریکا کے معاملات، ایران امریکی کشیدگی، پاکستان کی مخصوص جغرافیائی نوعیت کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کے بعض حلقوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان سے تعلقات استوارکرنے کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
اس طرح عمران خان کے دورے سے قبل ہی دونوں ممالک کے درمیان سفارت کاری کا عمل تیز ہوچکا تھا۔ افغانستان کے پیچیدہ مسئلے میں پاکستان نے قیام امن میں کردار ادا کیااور امریکی انتظامیہ کو ممکنہ طور پر یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان اس خطے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
سفارتکاری میں عمومی طور دونوں ممالک کے نمایندوں اور ماہرین پر مشتمل وفود پہلے ہی معاملات طے کر لیتے ہیں اور آخر میں دونوں ملکوں کے سربراہان کی ملاقات ہوتی ہے لیکن دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی سے دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن کے مختلف چینلز میں اس کی بھرپور تشہیر ہوتی ہے۔ اسی طرح عوامی اور سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بھی دونوں سربراہان کی ملاقات ہی ہوتی ہے۔
اس مرتبہ دونوں سربراہوں کی ملاقات کی اہمیت انتہائی خصوصیت کی حامل تھی۔ عمران خان کی جانب مختلف حلقوں کی توجہ تھی۔ بھارت اس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا خصوصاً بھارتی میڈیا کی دلچسپی بہت زیادہ تھی۔ ادھر بعض امریکی حلقوں میں بھی اسے سنجیدگی سے دیکھا جا رہا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی مشترکہ پریس کانفرنس میں توقع سے زیادہ کھل کر بات کی گئی اور یہ تاثر بالکل واضح تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان اہم معاملات پر مذاکرات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکا کے لیے اس بات کی اہمیت تھی کہ پاکستان اور امریکا افغانستان میں ملکر قیام امن کے لیے کام کریں۔ پاکستان کے لیے یہ بات توقع سے بڑھ کر تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کردی۔ اس مذاکرات کے پورے عمل میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ پاکستان کی فوجی قیادت بھی مکمل طور پر شریک تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عمران خان اور پاکستان کی تعریف کے ساتھ عمران خان کی مقبولیت کے ذکر کو اس لیے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس طرح کے تبصرے کا بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک اثر ہوتا ہے۔ اس بات کا اندازہ بھارتی ردعمل سے واضح نظر آتا ہے۔ اس مذاکرات کے عمل کا اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے سفارتی حلقوں میں پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر جا چکا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان پر مزید اعتماد بڑھے گا۔
دوسری طرف پاکستان کے لیے سب سے اہم مسئلہ اندرونی استحکام ہے۔ اس دورے کے نتیجے میں اس مسئلے کے حل کی طرف بھی پیشرفت کے واضح امکانات ہیں۔ عالمی سطح کے طاقتور حلقوں اور قومی سطح کے اہم ترین حلقوں میں عمران خان کی اہمیت اور حمایت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مستقبل میں کسی اور سیاسی رہنما کے لیے اس مقام تک پہنچنا انتہائی مشکل ہوگا البتہ اگر بلاول بھٹو کسی طرح اپنی ایک آزادانہ پہچان بنانے میں کامیاب ہوں تو شاید ان کے لیے ایک راستہ نکل سکتا ہے جس میں طویل وقت لگے گا۔ مسلم لیگ (ن) میں بڑے پیمانے پر اندرونی خلفشار پیدا ہونے کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) جو سیاسی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے اسے پنجاب میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکے گی۔
خود اس کے اہم ترین رہنما کسی محاذ آرائی کی طرف جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تقریباً تمام قیادت اپنے معاملات سلجھانے اور طے کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق رابطے جاری ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک میں قانون کی حکمرانی کا ہے۔ اس کے لیے نوکر شاہی کی طرف سے تعاون کی خصوصی ضرورت ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ توازن کو قائم رکھنا اور سندھ میں بھی قانون کی بالادستی کی طرف پیشرفت کرنا اہم ترین چیلنج ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو قانون کی حکمرانی کی طرف پیشرفت کرنی ہو گی ورنہ ان کا احتساب ایک خواب ہی رہے گا۔ سب سے پہلے ٹریفک کے قوانین پر عمل کرانا ضروری ہے اسے ایک معمولی مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کرنا انتہائی بھول ہوگی۔
ایک منظم ٹریفک کا نظام مہذب معاشرے اور قانون کی حکمرانی کا عکاس ہوتا ہے۔ بیرون ملک سے آنیوالے لوگوں کی پہلی نظر ٹریفک پر ہوتی ہے۔ بے ہنگم اور بدنظمی پر مشتمل ٹریفک دیکھ کر کوئی اس بات پر کیسے یقین کریگا کہ یہاں قانون کی حکمرانی قائم ہے۔ تقریباً 99 اعشاریہ 9 فیصد جرائم میں کوئی گاڑی یا موٹرسائیکل استعمال ہوتی ہے۔ اگر انتہائی منظم ٹریفک ہو اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ہر قسم کی آمد و رفت پر نظر ہو تو ہر قسم کے جرائم کے علاوہ دہشتگردی کی روک تھام میں بھی بڑی مدد مل سکتی ہے۔ اندرونی استحکام کے لیے زراعت، صنعت اور تجارت کے فروغ کی بھی ضرورت ہے خصوصاً برآمدات سے متعلق صنعتوں کو فروغ دینا ہو گا۔ اس کے لیے بہت بھرپور اور تیز رفتاری سے کام کرنا ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو خارجہ امور میں اچھے نتائج ملے ہیں۔ انھیں مستحکم کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس خطے کا اہم مسئلہ پاک بھارت تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کے امکانات بڑھ گئے ہیں لیکن اس کے لیے دو طرفہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔
فی الحال ایک ایسا ماحول تیار کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی جس میں دونوں ممالک بات چیت کا آغاز کریں۔ دونوں ملکوں کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا۔ عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لیے پرامن ماحول انتہائی ضرورت ہے، بھارت میں بھی بڑھتی ہوئی آبادی اور غربت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بھی یہی مسائل ہیں دونوں ممالک کے مسائل کی نوعیت کم و بیش ایک جیسی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور غربت کے خاتمے کے لیے بھرپور اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی دونوں ممالک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان اب بھی حالت جنگ میں ہے لیکن پہلے کے مقابلے میں اس میں کمی آئی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ پاک بھارت کشیدگی میں کمی آئیگی اور دونوں ممالک کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کشیدگی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد جو حالات پیدا ہونگے اس میں پاکستان کے موقف کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوگی۔
بھارت اگر مسلسل انکار کرنے کا رویہ رکھے گا تو اسے ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود عالمی سطح پر وہ پذیرائی نہیں مل سکے گی۔ اس وقت بھارت اور امریکا کے تعلقات کافی بہتر ہیں۔ خطے میں بھارت کو امریکا اپنا ساتھی تصور کرتا ہے لیکن اس کے باوجود پاک بھارت کشیدگی امریکا کے لیے مشکلات کا باعث رہے گی۔ پاکستان کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر خطے میں امن کے لیے ایک بڑی اور بھرپور مہم چلائے۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یکسو ہوکر وہ اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کر سکے؟ فی الوقت ایک پیشرفت ہو چکی ہے۔ عمران خان کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ اپنے حق میں سازگار حالات کو معیشت کی بہتری، اندرونی استحکام، اچھی حکمرانی اور خطے میں امن کے لیے استعمال کریں۔ راستہ اتنا آسان نہیں ہے، بیشمار رکاوٹیں ہیں۔ صحیح حکمت عملی اور بہتر منتظمین کے ذریعے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ مسلسل کام اور محنت صحیح سمت میں جاری رہے تو کوئی بعید نہیں کہ پاکستان عوامی خوشحالی کے سفر کی طرف گامزن ہوجائے۔ مشکل وقت گزر جائے اور ہم ایک خوشحال معاشرے کے قیام میں کامیاب ہوں۔