سچ و انصاف کی جیت؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 16 ستمبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

طویل عرصہ جدوجہد اور ڈٹے رہنے کے بعد مقتول شاہ زیب کے لواحقین نے قاتلوں کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کردیا ہے۔ معافی کے اس معمے پر سول سوسائٹی کے دوست، گواہان اور عوام الناس ششدر ہیں اور یہ تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ لواحقین کا یہ فیصلہ ان کی آزادانہ رائے کی بنیاد پر بغیر کسی خوف، دباؤ اور لالچ کی بنا پر کیا گیا ہے۔

مقتول کی والدہ نے کہا ہے کہ ہم اکیلے ہوتے جارہے تھے اپنا ساتھ دینے والوں کی زندگیاں خطرات میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ میری دعا ہے کہ قاتل زندہ رہیں اور ہماری طرح پل پل مریں مجھے یقین تھا کہ پھانسی کی سزا پر عمل نہیں ہوگا ہوسکتا ہے ہم نے دل سے معاف نہ کیا ہو وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے ساتھ دینے والوں کی زندگیاں نارمل نہیں رہی ہیں کوئی ملازمت چھوڑ چکا ہے کوئی تعلیم کے لیے نہیں جارہا وہ بھی ہمارے بچے ہیں سیکیورٹی گارڈ کے ساتھ آتے جاتے ہیں۔

حکومت کب تک انھیں سیکیورٹی دے گی؟ کئی چیزیں ہیں جو ہم سامنے نہیں لاسکتے ہیں‘‘۔ مقتول کی والدہ کے اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی طرف سے قاتلوں کی معافی رضاکارانہ نہیں بلکہ اندیشہ سود و زیاں پر مبنی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے مطابق ورثا کی جانب سے قاتلوں کو معاف کیے جانے کے فیصلے کے بعد نوجوانوں نے اخبار کے دفتر کو فون کیے جو زاروقطار رو رہے تھے انھوں نے کہا کہ سچائی سے دل اٹھ گیا ہے۔ اب کوئی کسی کی مدد کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچے گا۔ مقتول کے دوست زبیری نے کہا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ قاتل آزاد ہوکر ہمارے خلاف کچھ نہیں کریں گے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے عوام سچ اور انصاف کی جیت دیکھنا چاہتے تھے۔

مقتول کے ورثا کی جانب سے قاتلوں کو معاف کرنے کے اقدام کے متعلق خبریں آئی ہیں کہ اس معاملے میں ایک ایم این اے اور اعلیٰ پولیس افسر نے کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ کہ ورثا نے دیت و قصاص میں 35 کروڑ روپے آسٹریلیا میں ایک اپارٹمنٹ اور ویزے حاصل کیے ہیں اور عنقریب تمام ورثا وہاں منتقل ہوجائیں گے۔ اگر ورثا نے نامساعد حالات اور مصلحت کے تحت کوئی ایسی ڈیل بھی کی ہے تو انھیں مقتول کے دوست اور گواہان سے متعلق بھی کچھ پیش بندیاں کرنی چاہیے تھیں کیونکہ رعونت، تکبر اور انتقام کی نفسیات رکھنے والے قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کی نظر میں مقتول کے ورثا سے زیادہ انھیں انصاف دلانے کے لیے گواہی دینے والے افراد کھٹک رہے ہوں گے۔

شاہ زیب کا قتل کیس کوئی عمومی نوعیت کا مقدمہ نہیں ہے قتل کے اس مقدمے میں قاتلوں اور ان کے سرپرستوں نے پوری ریاست کو چیلنج کیا ہے اس میں سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو جل دے کر یا ساتھ ملاکر قاتلوں کو ملک سے باہر بھجوایا گیا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت اور سول سوسائٹی کے شدید دباؤ کے تحت دبئی میں گرفتاری کے بجائے خود حوالگی دکھائی گئی پھر قاتلوں کو بچہ ثابت کرنے کے لیے عمر کم دکھانے کی کوششیں کی گئیں جس کے لیے عدالت کو تین مرتبہ میڈیکل بورڈ سے معائنہ کرانا پڑا۔ عدالتی کارروائی کے دوران قاتل کے بھائی نے عدالت سے تکرار کی، عدالت میں سزا سننے کے بعد سیٹیاں اور تالیاں بجائی گئیں وکٹری کے نشان بنائے گئے۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چیف سیکریٹری سندھ نے قاتلوں کی سزا کی معافی کے لیے وزارت داخلہ کو سمری بھیجی تھی جو اعتراضات لگا کر واپس کردی گئی پھر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہ سمری ایوان صدر کو ارسال کردی گئی۔ وزارت داخلہ  کو بھی یہ سمری بھیجی گئی تھی جو قانونی ماہرین کی رائے کے بعد مسترد کردی گئی۔ مقتول کی ایف آئی آر ایک ایم این اے اور اس میں دہشت گردی کی دفعات سپریم کورٹ کے حکم پر شامل کی گئیں۔

یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ قاتلوں اور ان کے سرپرستوں نے انصاف اور ریاست کو شکست دینے کے تمام تر حربے استعمال کیے ہیں ان کے ہاتھوں ریاست کی رٹ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ تمام قانونی ماہرین اس رائے پر متفق ہیں کہ جرم ریاست کے خلاف ہوا ہے اس میں شخصی معافی کافی نہیں  ایسی معافی سے انکار کردینا چاہیے۔ ورنہ سول سوسائٹی کو بڑا دھچکا لگے گا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ قتل کے مقدمہ میں اﷲ کے نام پر معافی دھوکہ ہے ۔

ماضی میں ارشد کے ٹو کے مقدمے میں بھی عدالت نے معافی کے باوجود سزا برقرار رکھی تھی ایسا ہی پشاور ہائیکورٹ نے کیا اور سندھ ہائیکورٹ میں سرفراز قتل کیس میں ملوث رینجرز اہلکاروں کی معافی پر بھی عدالت عالیہ نے رینجرز کے وکلا کو کہہ دیا تھا کہ معافی نامہ اپنی جگہ ہے عدالت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ مدعی کیا چاہتا ہے بلکہ عدالت انسداد دہشت گردی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کرے گی۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1992 کی رو سے مدعی راضی نامہ کرنے کے حق سے محروم ہے تاکہ اس پر دباؤ نہ ڈالا جاسکے۔ شاہ رخ مقدمہ قتل کے نتائج عوامی نفسیات قانون نافذ کرنے والے اور ان سے تعاون کرنے والے قانون پسند شہریوں کے مورال پر بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوں گے۔ اور ملکی عدالتی تاریخ کا یہ اہم فیصلہ مستقبل کے لیے دہشت گردی کے اس قسم کے مقدمات میں ایک بڑی نظیر بنے گا جس کے ثمرات یا مضمرات دونوں بہت دور تک جائیں گے۔

نئے عدالتی سال اور لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے بجا طور پر کیا ہے کہ ہمارے قوانین پرانے ہوچکے ہیں نظرثانی کرنا ہوگی تبدیل ہوتے سماجی رویوں میں نئی قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ چیلنجز بڑھ رہے ہیں قوانین کا اطلاق سادہ اور جدید بنانا اور تیزی سے انصاف کی فراہمی کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ پولیس، ایونیو دیوان کے سو سال پرانے قوانین معمولی ردوبدل کے ساتھ چل رہے ہیں یہاں تک کہ الیکشن قوانین میں ایسے سقم ہیں کہ الیکشن کے خلاف درخواستوں پر بھی کئی کئی سال فیصلے نہیں ہو پاتے۔ جمہوری دنیا میں منتخب پارلیمانی ادارے قوانین کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور حالات کے مطابق ترمیم و اصلاح کا کام جاری رکھتے ہیں جو ان کا بنیادی کام ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ ایک مضبوط عدالتی نظام قوانین کے موثر نفاذ کے ذریعے ہی قوم کے حقوق کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کو چیف جسٹس کے ان الفاظ پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنا چاہیے تاکہ یہ قانون ساز ادارے اپنا حقیقی کردار ادا کرسکیں ورنہ حکمرانوں  کی بریفنگ پولیس کو 5 ارب کے اسلحے اور 6 ارب کے اسکینر افسران کی بیرون ملک تربیت حالت میں بہتری لانے کی بجائے نمائشی، علامتی یا  نشستند ، گفتند و برخاستند  کے سوا کچھ ثابت نہ ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔