طالبان کو مذاکرات کی دعوت دینے کا اشارہ

ایڈیٹوریل  منگل 30 جولائی 2019
اگر طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہوگی۔ فوٹو:فائل

اگر طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہوگی۔ فوٹو:فائل

پاکستان نے افغان طالبان کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دینے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت کو کسی حتمی نتیجے تک پہنچانا ہے تاکہ 18 سال سے جاری افغان کشیدگی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے تاہم معاملے کی حساسیت کی بنا پر حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ مذاکرات کی دعوت  اور اس بارے میں جاری معاملات کے بارے میں کوئی بھی وزیر یا نمایندہ بیان بازی نہیں کرے گا۔

ایکسپریس ٹربیون ذرایع کے مطابق پاکستان باقاعدہ طور پر دعوت نامے طالبان  نائب کمانڈر عبدالغنی برادر اور شیر عباس ستنگزئی کو دوحہ بھجوائے گا کیونکہ طالبان کے یہی دو رہنما امریکا کے نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔طالبان نائب کمانڈر عبدالغنی برادر کئی سال تک پاکستان کی حراست میں رہے اور انھیں گزشتہ برس امریکا اور افغان حکومت کے کہنے پر رہا کیا گیا تھا۔ ذرایع کے مطابق عبدالغنی برادر کی رہائی کے بعد سے افغٖان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات  کی راہ ہموار ہوئی جو اب ممکنہ طور پر ایک بڑی ڈیل کی طرف جا رہی ہے۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ہونا خوش آیند ہے یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، افغان سرزمین پر برسرپیکار دونوں قوتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ جنگ کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی کوئی بھی کوشش لاحاصل رہے گی‘ اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھا گیا تو افغانستان میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جنگ کا نا ختم ہونے والا راستہ چھوڑ کر مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے۔

امریکا گزشتہ 18سال سے تمام تر ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے باوجود افغانستان میں نہ امن قائم کرسکا اور نہ طالبان کا مکمل خاتمہ کر سکا۔ امریکا نے طالبان سے حکومت چھیننے کے بعد حامد کرزئی اور اشرف غنی کی صورت میں اپنی پسندیدہ حکومت افغانستان میں قائم کی‘ تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج تیار کی مگر اس سب کے باوجود طالبان نے اپنی گوریلا کارروائیوں کے ذریعے دنیا کی طاقتور ترین امریکی اور نیٹو افواج کو پریشان کیے رکھا اور وقفے وقفے سے حملے کر کے انھیں شدید نقصان پہنچایا اور اپنی قوت اور وجود کا بھرپور احساس دلایا۔

اگرچہ اس جنگ میں طالبان کا بھی شدید نقصان ہوا خاص طور پر القاعدہ کے بڑے بڑے رہنما جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تمام تر نقصانات کے باوجود طالبان ڈٹے رہے اور انھوں نے کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ نئے امریکی صدر ٹرمپ کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ افغان جنگ کا نتیجہ لاحاصل رہے گا لہٰذا اپنے سابقہ صدور کی پالیسیوں کے برعکس انھوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ کیا اور طالبان سے مذاکرات کا عمل تیز کر دیا۔ افغان طالبان  پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے مذاکرات کی دعوت دی تو طالبان کا وفد ضرور بات چیت کے لیے پاکستان جائے گا۔

پاکستان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی باقاعدہ دعوت کا عمل وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے سلسلے کی کڑی ہے جہاں ذرایع کے مطابق امریکا نے پاکستان سے ممکنہ طور پر افغان تصفیے میں مدد مانگی تھی اور وزیراعظم نے بھی ممکنہ مددکا بھرپور یقین دلایا تھا۔ افغان طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ میں جاری مذاکرات کے کئی دور مکمل ہو چکے ہیں جس میں کئی اہم ایشوز پر بات چیت تقریباً حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے تاہم طالبان افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء اور امریکا افغانستان سے دہشت گردی کی مکمل روک تھام کی گارنٹی چاہتا ہے ۔ ان دونوں نکات پر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں ۔

چند روز پیشتر افغان حکومت نے اعلان کیا  تھا کہ وہ بہت جلد طالبان کے ساتھ یورپ کے کسی ملک میں براہ راست بات چیت کرنے والے ہیں لیکن افغان طالبان نے فی الحال افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ صرف اس وقت بات چیت کریں گے جب ان کے امریکا کے ساتھ مذاکرات  فائنل ہو جائیں گے۔ذرایع کے مطابق امریکا اور طالبان غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور افغان سرزمین کو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کے بارے میں جلد معاہدہ کرلیں گے۔

ایک مرتبہ ایسا معاہدہ طے پاگیا تو پھر طالبان  اس کے بعد افغان حکومت اور دیگر دھڑوں کے ساتھ ایک وسیع قومی حکومت کے قیام کے لیے بات چیت کر سکتے ہیں۔ اگر طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی پیشرفت ہوگی جس سے اس خطے میں قیام امن کی راہ ہموار ہو جائے گی اور ایک عرصے سے جاری دہشت گردی بھی دم توڑ جائے گی اور تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔