کراچی کی بے بسی ذمے دار کون

سندھ حکومت اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ ایک دوسرے سے سینگ اڑانے سے باز کیوں نہیں آتی۔


Editorial August 15, 2019
سندھ حکومت اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ ایک دوسرے سے سینگ اڑانے سے باز کیوں نہیں آتی۔ فوٹو: فائل

لاہور: شہر میں عیدالاضحی کے موقعے پر اتوار اور پیر کی تعطیلات کے دوران موسلادھار بارش نے اہل کراچی کو سوگوار کردیا ، تین دوست کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے، جنھیں آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کیا گیا۔

بارش کے بعد کا منظر اس قدر ہولناک تھا کہ اس پر سوائے کف افسوس ملنے کے اورکیا کیا جاسکتا ہے،دوسری جانب صوبائی حکومت اوراس کی انتظامی مشینری زمیں بوس ہوگئی، ادارے شتر بے مہار کی طرح کسی قسم کی ذمے داری لینے پر تیار نہیں،ایک بلیم گیم ہے جو پارلیمنٹ سے لے کر شہری اور مقامی اداروں اور سیاسی شریانوں میں گردش کر رہی ہے، الزام سے بچنے کی ہزار قسمیں ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اربن ڈیموگرافی کے ماہرین کے مطابق شہر میں مون سون بارشوں سے ہونے والی تباہی ناقابل معافی اس لیے بھی ہے کہ بارشیں شیڈول کے مطابق رہیں، جو اسپیلز آئے ہیں ان کی شدت سے میڈیا نے حکام اور عوام کو پہلے سے آگاہ کردیا تھا، کوئی آفت اچانک شہر قائد پر اس طرح نازل نہیں ہوئی کہ حکام اور انتظامی عملہ بے دست و پا رہ گیا ہو، ایک میکنزم جو ہفتوں پہلے تیار کیا جاسکتا ہے اس پر عملدرآمد کے امکانات اور اس پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنانا ہی شہری اداروں کی اجتماعی ذمے داری ہوتی ہے، لیکن کون پوچھے کہ ادارہ جاتی بے سمتی کی وجہ کیا ہے، کیوں ادارے نکاسی یا فراہمی آب کے ایک پیج پر نہیں آتے، ان میں باہمی رابطے کا فقدان کیوں ہے۔

سندھ حکومت اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ ایک دوسرے سے سینگ اڑانے سے باز کیوں نہیں آتی، شہریوں کا مشاہدہ ہے کہ بارشیں شروع ہوجائیں تو یقین کرلیا جاتا ہے کہ اب اللہ میاں ہی ساری صورتحال کا ٹھیکہ اٹھا لیں گے، موسلا دھار بارشوں سے ڈوبے ہوئے علاقے خود ہی نکاسی آب کی ساری جھنجھٹ سے آزاد ہوجائیں گے ،کسی انتظامی درد سری کی ضرورت نہیں رہے گی، غالباً اسی تساہل۔

بے حسی، مجرمانہ غفلت اور چشم پوشی کی سزا ہے جو شہریوں کو ہر مون سون کی بارشوں میں ملتی ہے اور شہر اجڑے دیار کی تصویر بن جاتا ہے۔ اس وقت بھی حالات مختلف نہیں، بارش کا سیناریو اپنے تاریخی کردار اور ٹائمنگ کے مطابق وہی دردانگیز سماجی صورتحال پیش کررہا ہے جو برس ہا برس سے میڈیا کے توسط سے عوام کی نظروں میں گھوم جاتا ہے، آخر صوبائی حکومت یا ڈسٹرکٹ حکومتیں کراچی اور اندرون سندھ کی حالت بدلنے پر کب توجہ دیں گی۔

اس میں کوئی شک یا دو رائے نہیں کہ صوبائی اور مقامی اداروں کی افسر شاہی اور عملہ کی بے رخی اور سنگدلی کے باعث شہر لاوارثی کا منظر پیش کررہا ہے، شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، وفاقی وزیر علی زیدی نے کراچی کا کچرا صاف کرنے کا اعلان کیا ہے ، یہ میڈیا گمک gimmic ہے یا توجہ حاصل کرنے اور فوٹو سیشن کی کوشش کہ اتوار اور پیر کی بارش نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا، کون سا کچرا مکمل طور پر اٹھا لیا گیا، دس دن کی بات ہوئی تھی جو 90 دن پر پھیل گئی، ایک ارب دس کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ سامنے لایا گیا،لازماً منصوبہ انتشار کا شکار ہونا تھا۔ صوبائی اور ضلعی حکومت نے اس میں عملی طور پر نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ ظاہر ہی نہیں کیا، ملک کا تاریخی اور تجارتی شہر جس بیدردی سے انتظامی تساہل ، نااہلیت، انفرااسٹرکچر کی تباہی کی نذر ہوا ہے۔

اس پر میئر کراچی وسیم اختر نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ صورتحال کا نوٹس لے، میئر کراچی نے کہا کہ شہر قائد کو آفت زدہ قرار دیا جائے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اندرون سندھ کے دورے میں کراچی کی صورتحال کے سیاق وسباق میں کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا، تاہم بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا، وہ سارے نالے جو صاف کیے جانے تھے وہ بارش کی نذر ہوئے، کسی نے اس ہنگامی مہم کے متاثر ہونے کا کوئی ادراک نہیں کیا،جب کہ اعلان کردہ سارے فرضی انتظامات کے پورے ڈھول کا پول کھل گیا۔

حقیقت تویہ ہے کہ بارش نے کراچی اور اندرون سندھ شہروں اور دیگر علاقوں کو ہولناک طریقے سے متاثر کیا مگر شہری ادارے میڈیا پر دعوے کرتے رہے اور کرنٹ لگنے اور دیگر حادثات و واقعات میں 3 دوستوں سمیت 13 افراد جاں بحق جب کہ ڈیڑھ درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

اتوار کو شہر قائد میں ہونے والی موسلا دھار بارش کے دوران درخشاں کے علاقے ڈیفنس فیز 6 خیابان شہباز میں بارش کے دوران ایک موٹر سائیکل پر 3دوست گزر رہے تھے ان کی موٹر سائیکل توازن بگڑنے کے باعث بجلی کے کھمبے سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں 2 دوست 21 سالہ حمزہ اور 20 سالہ فیضان کرنٹ لگنے سے موقعے پر جاں بحق ہوگئے جب کہ تیسرا نوجوان کرنٹ لگنے سے جھلس گیا یہ منظر دیکھ کر موقعے پر موجود لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ، شہریوں نے فوری طور پر پولیس، کے الیکٹرک اور ریسکیو ٹیموں کو اطلاع دی اس کے باوجود 20 سے 35 منٹ تک کوئی نہیں آیا، اس دوران لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تیسرے نوجوان کو کرنٹ سے دور کرنے کے لیے لکڑی کا استعمال بھی کیا مگر ناکام رہے، موقعے پر چند نوجوانوں نے جھلسے ہوئے نوجوان کی جانب رسی پھینک کر اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی مگر وہ بھی ناکام رہے۔

تھوڑی دیر بعد درخشاں تھانے کی15مدد گار پولیس موقعے پر پہنچی مگر وہ بھی بے بس دکھائی دی کہ تیسرے نوجوان کو کرنٹ سے کیسے دور کیا جائے، کے الیکٹرک کے عملے نے موقعے پر پہنچ کر تار ہٹا کر جاں بحق ہونے والے2دوستوں اور ایک جھلسے ہوئے نوجوان کو فوری طور پر پولیس موبائل کے ذریعے جناح اسپتال پہنچایا، جناح اسپتال کی ایمرجنسی وارڈ کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ جھلس کر زخمی ہو کر اسپتال آنے والے تیسرے نوجوان نے بھی دم توڑ دیا جس کی شناخت 22 سالہ طلحہٰ کے نام سے ہوئی۔

ڈیفنس میں بجلی کے کھمبے سے کرنٹ لگنے کے باعث جاں بحق ہونے والے3نوجوانوں کا مقدمہ ورثا کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ، مقدمے میں کے الیکٹرک کے چیئرمین ، ادارے کے سربراہ ،چیف ایگزیکٹو آفیسر اور دیگر کو نامزد کیا گیا ہے ، مقدمے میں قتل بالسبب کی دفعہ عائد کی گئی ہے ،322 قتل بالسبب کی دفعہ ہے جس میں جرم ثابت ہونے پر دیت ادا کرنا پڑتی ہے ، مقدمے کے متن کے مطابق حمزہ اپنے دو دوستوں کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ خیابان سحر پر پانی جمع تھا اور پانی میں موجود کھمبے میں جس میں بجلی کا کرنٹ تھا۔

اس سے بچوں کی موت واقع ہوگئی جب کہ وڈیو میں بھی نظر آرہا ہے کہ بچے کرنٹ لگنے سے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں، مدعی کا دعویٰ ہے کہ کے الیکٹرک کے ذمے داران کے خلاف مجرمانہ غفلت برتنے پر کارروائی کی جائے، علاوہ ازیں ڈیفنس میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق تین نوجوانوں کے مقدمے کے اندراج کے لیے میئر کراچی وسیم اختر نے بھی درخواست جمع کرائی اور وہ 6 گھنٹے سے زائد تھانے میں موجود رہے لیکن پولیس نے ان کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا ، بعدازاں اعلیٰ حکام کے احکامات پر ڈی ایس پی درخشاں زاہد حسین ، ایس ایچ او ڈیفنس محمد علی نیازی اور دیگر پر مشتمل ٹیم تینوں نوجوانوں کی رہائش گاہ گئی اور ورثا سے ملاقات میں انھیں مقدمے کے اندراج کے لیے آمادہ کیا ، میئر کراچی نے کہا کہ وہ شہر میں کرنٹ کے باعث ہلاکتوں کے تمام واقعات کے مقدمات درج کرائیں گے اور اس کے بعد وہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔

یہاں شہر میں بجلی کے کھمبوں سے لوگ مررہے ہیں کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ اگر سچ تسلیم کیا جائے تو کرنٹ سے ہلاکت قتل ہے، اتنی بڑی تعداد کرنٹ لگنے سے جاںبحق ہو اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے، یہ کون سی انصاف دوستی اور کہاں کا معاشرہ ہے۔ ایسے ہر ادارے تمام کام چور عملہ کو فارغ کیا جائے جو حقیقتاً کالی بھیڑیں ہیں، ایک عظیم شہر کو اس طرح کرنٹ لگا کر مرتے دیکھنا انسان دشمنی کی انتہا نہیں تو کیا ہے؟

مقبول خبریں