سوشل میڈیا کے جنگجو

واصب امداد  اتوار 18 اگست 2019
سوشل میڈیا پر ’’کی بورڈ جہادی‘‘ صبح و شام جنگ میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوشل میڈیا پر ’’کی بورڈ جہادی‘‘ صبح و شام جنگ میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سوشل میڈیا بھی عجب دنیا ہے۔ چند ہزار کا اسمارٹ فون خریدیں، چند سو کا انٹرنیٹ پیکیج کروائیں اور جس کےلیے جو دل میں آئے لکھ ڈالیں۔ نہ درست اور غلط کی تمیز، نہ اصلی نقلی کی پہچان۔ بس کاپی پیسٹ کریں اور رائے عامہ میں تبدیلی کا باعث بنتے جائیں۔

آج کل اس دنیا میں بھارت سے جنگ کا موضوع گرم ہے، جس میں ’’کی بورڈ جہادی‘‘ صبح و شام مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک جنگجو سے بات ہوئی۔ کہتا ہے حکومت نے کشمیر کا سودا کر ڈالا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کب، کیوں اور کیسے؟ جواب آیا ابھی جو عمران خان امریکا گئے تھے اس کا مقصد کشمیر پر ڈیل کرنا تھا اور عمران خان نے اپنے اقتدار کو بچانے کےلیے غیر ملکی موقف کی تائید کردی، ’بیچ دیا اور کھا گئے، ایجنٹ‘‘۔

سوال کیا کہ آخر کیسے یہ تاثر ملا کہ کشمیر پر ڈیل ہوگئی؟ کیا اس سے پہلے کشمیر آزاد تھا یا جب سے عمران خان آیا تو ہی کشمیریوں پر ظلم کا سلسلہ شروع ہوا؟ کہنے لگا دیکھا نہیں کہ کیسے مودی نے آرٹیکل 370 اور پینتیس اے کو ختم کردیا اور کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا۔ میں نے شرارت کرتے ہوئے پوچھا ویسے بتاؤ تو کہ یہ آرٹیکل آخر ہے کیا اور کیا ہم پہلے ان آرٹیکلز کو مانتے تھے؟ جواب ملا ’بیچ دیا، کھا گئے، ایجنٹ‘۔

میں نے پھر پوچھا ’’چلو اگر کشمیر کا سودا نہ ہوتا تو پاکستانی قیادت مودی کے اِس اقدام کے جواب میں کیا کرتی؟‘‘ جواب آیا ’’حملہ کرتی‘‘۔

’’پہلے جو چار جنگیں لڑیں، کیا اس سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوا؟ آزادی کے ابتدائی سال ہی کشمیر پر جنگ ہوئی، آپریشن جبرالٹر ہو یا پینسٹھ کا معرکہ، اکہتر کی بھارتی مہم جوئی کا جواب ہو یا کارگل کا میدان، مقصد تو صرف کشمیر کی آزادی کا ہی رہا‘‘۔

جواب ملا ’’ماضی کی باتیں جانے دو، مودی کے اِس قدم کے بعد اگر ہم حملہ نہ کریں تو کشمیر کھو دیں گے‘‘۔

’’اِن حالات میں جب ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمن ہماری صرف ایک غلطی کے انتظار میں ہیں، جب معیشت کمزور ترین حال میں ہے، ہمیں صرف آئی ایم ایف نے سنبھالا ہے، نہیں تو ہم ڈیفالٹ کرجاتے اور معاشی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑتی، جب ہم ایف اے ٹی ایف کے نرغے میں ہیں اور ذرا سی بھی جذباتیت ہمیں اْس کی بلیک لسٹ میں ڈال سکتی ہے، اگر خدا نہ کرے ہمیں اس بلیک لسٹ میں ڈالا جاتا ہے تو ہماری ایکسپورٹ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ ہمیں معمولی سے معمولی چیز بھی بیرونی دنیا تک پہنچانے میں مہینوں لگ جائیں گے۔ چائنہ اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک چاہ کر بھی ہمیں قرضہ نہیں دے پائیں گے اور یوں ہمارا حال بھی دنیا کے تباہ حال ملکوں جیسا ہوجائے گا۔ ان حالات میں کیا جنگ کرنا حماقت نہیں؟‘‘

سوال کی طویل نوعیت دیکھ کر سوشل میڈیا کا جنگجو گھبرا گیا، مگر جلد حواس درست کرتے ہوئے بولا کہ جنگیں معیشت سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں۔ جذبہء جہاد سلامت ہو تو بڑی بڑی افواج بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

میں نے جواب دیا کہ تم افغانستان کا حال دیکھ لو۔ ایک ایک ذرّہ تباہ ہوچکا ہے۔ اگر 17 سال بعد امریکا وہاں سے نکلنا چاہتا ہے تو بھی اس کی شکست میں سترہ برس بیت گئے۔ اب بھی امریکا آخری نچوڑا ہوا رس بھی ساتھ لے جانا چاہتا ہے اور افغان مستقبل پر گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ جہاں تک میدانِ جنگ کی بات ہے تو یہ روایتی جنگ نہیں بلکہ گوریلا وار تھی جو کہ روایتی جنگوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔

مجھے لگا کہ سوشل میڈیا کا جنگجو ابھی مزید ’بیچ دیا اور کھا گئے‘ کی گردان سنائے گا، مگر اس نے سوال کیا کہ بتاؤ ان حالات میں پاکستان کیا کرے؟

میں نے جواب دیا ’’دیکھو یہ بیس اوورز کا میچ یا بالی ووڈ کی فلم نہیں ہے، جہاں تین گھنٹے میں کسی کی جیت ہار کا فیصلہ ہوجائے۔ یہ ایک لمبا کھیل ہے۔ نہ جنگ اس کا حل ہے اور نہ ہی خاموشی ہمیں کوئی فائدہ دینے والی ہے۔ ہمیں آواز اٹھانی ہے اور موثر انداز میں اٹھانی ہے۔ بھارت کے موقف کو تنہا کرنا ہے۔ ہر بڑے چھوٹے فورم پر بھارت کے کشمیریوں پر مظالم دنیا کے سامنے لے کر آنے ہیں اور بیرونی دنیا کو پریشرائز کرنا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر فیصلہ کرے۔

ہم اِس دنیا کے اہم ترین اسٹرٹیجک لوکیشن پر ہیں جہاں ہماری ضرورت دنیا کے طاقتور ممالک کو ہے۔ ان کی ضرورت اس طرح سے پوری کی جائے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ مل کر بھارت سے حساب چکتا کریں۔ ایک پالیسی بنائیں، سختی سے اْس پر عمل پیرا ہوں۔ وہ پالیسی حکومتیں بدلنے سے تبدیل نہ ہو بلکہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو۔ خان صاحب بیرونی دنیا کے دورے کریں، کشمیر کے معاملے پر عالمی ضمیر جھنجوڑیں، یہاں تک کہ دنیا سمجھ جائے کہ اگر پاکستان سے معاملات ٹھیک کرنے ہیں تو کشمیر کے معاملے پر اس کا موقف تسلیم کرنا ہوگا۔

پاکستان کو بھارت کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا مکمل فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جہاں متعدد آوازیں اب زور پکڑ رہی ہیں کہ بھارت اب سیکولر ملک نہیں رہا اور یہاں آپ اگر اقلیت میں ہیں اور اکثریتی خیالات سے مختلف سوچ رکھتے ہیں تو کافی حد تک مشکل میں ہیں۔ سکھ، پارسی اور عیسائیوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ بھارت کی ایک چھوٹی ریاست ناگالینڈ کی ہی مثال لے لیجئے۔ جس کا مذہب اور رہن سہن ہندوؤں سے بالکل مختلف ہے اور مودی کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ ناگالینڈ نے 14 اگست کو صرف اپنا یوم آزادی ہی نہیں منایا بلکہ پاکستان، کشمیریوں اور خالصتان کے عوام کی طرح بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر بھی منایا۔

یہ لمبا کھیل ہے جہاں کے اصول ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ پہلا اصول ’بڑا دعویٰ‘ کرنا ہوتا ہے، جو مقابل کے ہوش اڑا دے۔ دوسرا ایک ’بہترین ٹیم‘ کا ہونا ہے۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ آپ کی ہر زاویے اور کھیل کے ہر نمایاں اور اوجھل حصے پر نظر ہو۔ آپ کے پاس مخالف کے ہر قدم کا موثر جواب ہو۔ چوتھے اصول کے مطابق ایک ایسے وقت میں کرتب دکھانا ہوتا ہے جب مخالف کی نظر اور توجہ کہیں اور ہو۔ اس کا ذہن بٹانے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہوں‘‘۔

مجھے لگا سوشل میڈیا کا جنگجو میرے جواب سے محظوظ ہورہا ہے، مگر اسی اثنا میں اس کی تازہ ترین پوسٹ دیکھی جس میں تین لفظ نمایاں تھے ’بیچ دیا، کھا گئے، ایجنٹ‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

واصب امداد

واصب امداد

بلاگر میڈیا کے طالب علم ہونے کے ساتھ ریڈیو براڈ کاسٹر ہیں۔ ملکی سیاست اور انٹرنیشنل افیئرز میں دلچسپی کے ساتھ لکھنے کا بھی شوق ہے۔ ان سے ٹویٹر آئی ڈی wasib25@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔