میرا مرشد مسلمانوں کا مجدد

میرے پیرو مرشد برسوں پہلے میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے لیکن رشد و ہدایت کا اتنا بڑا اثاثہ چھوڑ گئے کہ ان کی وفات کا۔۔۔


Abdul Qadir Hassan September 23, 2013
[email protected]

میرے پیرو مرشد برسوں پہلے میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے لیکن رشد و ہدایت کا اتنا بڑا اثاثہ چھوڑ گئے کہ ان کی وفات کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا سوائے اس کے کہ ان کی جوتیوں کی زیارت سے محروم ہو گئے، وہ جوتیاں جن کے طفیل زندگی کو مقصد ملا اور جن کی برکت سے ایک اجڈ دیہاتی کی زندگی بن گئی اور آج اس کا شمار بھی کار آمد انسانوں میں ہوتا ہے وگرنہ بقول فردوسی کہ رستم تو سیستان کا ایک جنگلی تھا لیکن میں نے اسے داستان کا رستم بنا دیا۔

منم کردہ ام رستم داستاں
وگرنہ یلے بود از سیستاں

ویسے ضمناً عرض ہے کہ رستم پاکستان کے ایک علاقے کا باشندہ تھا جسے فردوسی جیسے شاعر نے ایسا تراشا کہ وہ خود شاعر کے لیے بھی ایک ہیرو بن گیا۔ میں جب لاہور میں اچھرہ کے ایک بنگلے میں پہنچا جہاں ہر روز بعد از نماز عصر ایک بے تکلف محفل آراستہ ہوا کرتی تو مجھ جنگلی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس محفل کی کس ادنیٰ ترین جگہ پر بیٹھوں اور کسی نادانستہ بے ادبی سے بھی محفوظ رہوں لیکن چند دنوںمیں معلوم ہوا کہ یہ کسی پیر کا دربار نہیں کسی صوفی کی خانقاہ نہیں بلکہ یہ عام لوگوں کے لیے کسی دعوے کے بغیر ایک غیر محسوس محفل رشد و ہدایت ہے، ایسی محفل جس میں شعر و شاعری بھی ہوتی ہے لطیفے بھی بیان ہوتے ہیں اور ہر قسم کے سوالوں کے جواب بھی لیکن یہ سب بے ساختہ۔ یہاں کوئی اعلیٰ حضرت نہیں تھا اور نہ کسی کے پاؤں چھوئے جاتے تھے۔ یہ تمام تکلفات اس مجلس سے برخواست تھے۔ یہاں کوئی تصنع نہیں تھا۔ شروع میں تعجب ہوا کہ لوگ اپنے امیر جماعت سے بھی بلا جھجھک بات کرتے ہیں اور ان کی عام فہم بے تکلفانہ سادہ گفتگو کا لطف لیتے ہیں۔ ایسا پیر تو نہ دیکھا نہ سنا لیکن اس کے باوجود ایک غیر مرئی سی کیفیت محفل پر طاری رہتی اور اس میں خیروبرکت کے سوا کچھ نہ تھا۔

اس عصرانہ محفل کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ گزشتہ دنوں ان کا چونتیسواں یوم وفات منایا گیا۔ آج سے چونتیس برس پہلے میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ وہ اس صدی کے مجدد تھے۔ ان دنوں میں ایک ہفت روزہ رسالہ افریشیا نکالتا تھا۔ وہ علاج کے لیے امریکا گئے تھے وہاں سے ان کی طرف سے صرف یہ اطلاع آئی کہ ریڈیو کی فیس ادا نہیں کی تھی وہ کر دیں۔ گویا وہ حکومت کے چند روپوں کے قرض سے بھی عہدہ برآ ہو گئے، علاج ان کے صاحبزادے کرا رہے تھے اور ان کی صحت کی دعائیں عالم اسلام کر رہا تھا۔

1941ء میں لاہور میں انھوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، صرف چند ساتھیوں کی مدد سے اور جب وفات پائی تو پوری دنیا میں اسلامی تحریکیں اس سے رہنمائی حاصل کر رہی تھیں اور آج بھی ان کی تحریریں اسلامی دنیا کی رہنما ہیں۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کو عہد حاضر کی ایک ضرورت ثابت کر دیا، اسلامی تعلیمات کو نئی دنیا میں پھیلا دیا اور ثابت کیا کہ دنیا کی نجات اسلامی تعلیمات میں ہے۔ ایسا آدمی مجدد نہیں تھا تو اور کیا تھا، میں نے افریشیا میں ان کے بارے میں بہت لکھا اور اس میں ایک ذاتی مسئلہ بھی تھا کہ میں اپنی ذات کی تعمیر و تربیت میں ان کا کردار کسی سے بھی زیادہ سمجھتا تھا اور اس کا شکریہ ادا کرتا تھا۔ میں نے ایک بار مولانا سے عرض کیا اور ڈرتے ڈرتے کہا کہ کیا آپ کی جدوجہد یہ سب تجدید و احیائے دین نہیں ہے تو انھوں نے فوراً فرمایا کہ یہ فیصلہ میں نے نہیں کرنا۔ میرے بعد جو ہو گا وہ ہو گا۔مولانا نے اس عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔

بہرکیف تب بھی اور آج بھی میرے لیے وہ مجدد مودودی ہیں اور ایک دیہاتی گنوار کو کام کا انسان بنانے کے معمار اور مرشد بھی۔ میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ مولانا کی یاد میں کیا لکھوں گا جب ہر کوئی لکھے گا تو مجھ سے بھی مطالبہ ہو گا لیکن میری ہمت نہیں پڑتی تھی کہ میں کن الفاظ میں کچھ عرض کروں۔ وہ میرے سامنے ایک کرسی پر سفید کپڑوں میں کرتے اور کھلے پاجامے میں ملبوس بیٹھے ہیں۔ اگال دان پاس رکھا ہے اور نہایت ہی آسان زبان میں مشکل سے مشکل مسئلوں پر بات کر رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ میرے جیسا جنگلی بھی محفل میں کہیں ڈرا ہوا بیٹھا ہے اور گفتگو کو سمجھنا اس کا بھی حق ہے کیونکہ اسے زندگی بھر یہ اعتراف کرتے رہنا ہے کہ وہ جو کچھ ہے سید مودودی کی جوتیوں کے طفیل ہے۔ ان کے پاؤں کی خاک ہے اور یہی اس کا سرمایہ حیات ہے اور کیا چاہیے بھی۔

مقبول خبریں